ہوم << کیا ہم جانوروں سے بھی بڑھ کر ہیں - حبیب الرحمن

کیا ہم جانوروں سے بھی بڑھ کر ہیں - حبیب الرحمن

سنتے ہیں کہ حالات کی ستم ظرفی خونخوار درندوں اور ایک دوسرے کے جانی دشمن جانوروں کو بھی یکجا کر دیا کرتی ہے لیکن لگتا ہے کہ انسان ان جانوروں سے بھی بڑا جانور ہے جس کو کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں، متحد اور یک جا نہیں کر سکتے۔

سابق وزیر اعظم اورپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ "رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، نیب والے کہتے تھے کہ شریفوں کے کیسز میچور ہیں لیکن پیچھے سے اجازت نہیں، کیسز کا فیصلہ جنرل (ر) باجوہ کرتے تھے۔ ملک میں قانون نہیں طاقت کی حکمرانی ہے، میں اپنی حکومت میں بے بس تھا، سابق آرمی چیف فیصلہ کرتے تھے کہ نیب کو کسے چھوڑنا اور کسے اندر کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک کا سب سے زیادہ اہم سبجیکٹ رول آف لا ہے، ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ پاکستان میں پچھلے 8 ماہ میں رول آف لا کی دھجیاں اڑائی گئیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ مایوسی کی وجہ سے لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رول آف لا شہریوں کو لیول پلائنگ فیلڈ دیتا ہے، ملک میں گزشتہ 8 ماہ سے جنگل کا قانون رائج ہے۔ سارے چوراوپرآ کربیٹھ گئے میں 26 سال سے رول آف لا کی جدوجہد کر رہا ہوں"۔

جس بے بسی کا اظہار عمران خان صاحب اقتدار سے باہر نکل کر کر رہے ہیں ایسی ہی ساری باتیں تمام سابقہ حکمران اقتدار سے نکالے جانے کے بعد کرتے چلے آئے ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں یہی سب باتیں کسی بھی سابقین نے اقتدار میں رہتے ہوئے کیوں نہیں کیں۔ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے، عمران خان نے اقتدار میں رہتے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی یہ نہیں کہا کہ میں ایک بے اختیار وزیر اعظم ہوں۔ اور شاید سچ بھی یہی تھا کہ گزشتہ جتنی بھی سویلین حکومتیں رہی ہیں ان سب میں سب سے با اختیار اور خوش قسمت عمران خان صاحب ہی کی حکومت رہی ہے.

اور جب جب بھی سوشل میڈیا یا ٹی وی چینلوں پر اس بات کو اٹھایا گیا کہ اب عمران خان کی حکومت اور دیگر ادارے ایک پیچ پر نہیں رہے ہیں تو نہ صرف عمران خان، اس وقت کی حکومت کے ترجمان نہایت زوردار طریقے سے اس بات کی تردید کر تے نظر آتے تھے بلکہ قوم کے ایک ایک فرد کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہر ادارہ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ یہی نہیں کہ صرف حکومت کی جانب سے یہ بات کہی جاتی رہی ہو بلکہ خود ادارے کے ترجمانوں نے متعدد بار پریس کانفرنسوں کی ذریعے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ "اپنی" سویلین حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کیلئے ہر لمحے کھڑے ہوئے ہیں۔

اداروں کے ترجمانوں کی جانب سے کبھی 6 ماہ مانگنا، کبھی سال مانگنا، جی ایچ کیوں میں سلوٹ پر سلوٹ مارنا، ہر بحران کے وقت بنی گالہ یا وزیر اعظم ہاؤس میں جا جا کر ملاقاتیں کرنا اور اعلیٰ تقاریب میں سر سے سر ملا کر کانا پھوسیاں کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ جس لاڈلے کو تختِ شاہی تک لے کر آئے ہیں، اس کے پائے مضبوط سے مضبوط کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ملکوں ملکوں ساتھ جا کر جھولیاں بھر بھر کر لانے یا لانے کی کی ہر جد و جہد میں شریک ہونا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ عمران خان کی حکومت اب تک قائم ہونے والی حکومتوں میں خوش قسمت ترین حکومت ہوا کرتی تھی جس کے ساتھ پاکستان کے سارے ادارے کھڑے تھے اور چاہتے تھے کہ عمران خان کی صورت میں عسکری ونگ کا ایک مضبوط سیاسی ونگ بھی وجود میں آجائے۔ اس کے باوجود بھی عمران خان کا مسلسل اس بات کا گلہ کہ گیارہ گیارہ بچوں کو جنم دینے کے باوجود بھی انھیں ان کے شوہر کی جانب سے "سچا" پیار نہیں ملا، سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔

خان صاحب فرماتے ہیں کہ رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، غلط تو نہیں لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا انھوں نے اپنے 43 مہینوں میں اس ملک کو رولز آف لا کے تحت چلایا تھا یا "میں نہ مانوں" کی بنیاد پر ہی سارے کام ہوتے رہے تھے۔ ان کے پورے دورانیے میں ملک آئین و قانون کی مطابق چلانے کی بجائے وہ صدارتی "احکامات" ہی کے تحت چلاتے رہے جس کی وجہ سے یہ ساری خرابیاں پیدا ہوئیں۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ اب تک جتنی بھی حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں، ان سب نے ہمیشہ آئین و قانون کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ملک کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق ہی چلا چلا کے اس حال کو پہنچا یا۔

کہتے ہیں کہ مایسی کی انتہا یہ ہے کہ 8 ماہ میں تقریباً 8 لاکھ نوجوان پاکستان سے باہر جا کر نوکریاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ گزشتہ 8 ماہ میں 8 لاکھ نوجوانوں کا ملک سے باہر جانا اگر انھیں اس لئے مایوسی لگ رہا ہے کہ وہ اقتدار میں نہیں رہے تو ان ہی کی حکومت کے پہلے اٹھارہ ماہ میں 18 لاکھ نوجوانوں کا ملک چھوڑ کے جانا اپنی حکومت کا کارنامہ کیوں لگ رہا تھا۔ عمران خان دعوے تو یہ کرتے تھے کہ وہ پاکستان میں ایک کروڑ نوکریاں تو دینگے ہی دینگے، اتنے زیادہ مواقع بھی پیدا کر دینگے کہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی نوجوان پاکستان آ آ کر نوکریاں کرنے لگیں گے تب مایوسی کا یہ عالم تھا کہ پہلے اٹھارہ ماہ میں ہی اٹھارہ لاکھ نو جوان پاکستان کو خیرآباد کہہ کر ملک سے باہر جانے پر مجبور ہو گئے۔

ان سب تضادات کے باوجود بھی میں خان صاحب کی بے بسی کو ایک حقیقی بے بسی ہی سمجھتا ہوں اور یہ وہ بے بسی ہے جس کی شکایت ہر سابقہ حکمران کرتا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس ملک کی ہر سیاسی جماعت اور رہنما کو ایک ہی جیسی بے بسیوں کا سامنا رہا ہے تو پھر وہ کونسا عذر ہے جو ان کو یک جا کرنے میں مانع ہے۔ جب قیامت کی گھڑیوں میں سانپ، بچھو، بھیڑ، بکریاں اور بھیڑیے ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھ سکتے ہیں تو کیا پاکستان کے عوام سے لیکر سارے سیاستدان ان سے بھی بڑے درندے اور جانور ہیں۔ جب تک قوم اس کا جواب اپنی رائے (ووٹ) سے نہیں دے گی پاکستان میں استحکام آنا خواب و خیال سے زیادہ حیثیت کیسے اختیار کر سکتا ہے۔