ہوم << کاش ہم جانور ہوتے- آصف محمود

کاش ہم جانور ہوتے- آصف محمود

حکومت پاکستان نے جانوروں کے حقوق کو نصاب کا حصہ بنانے کا خوش آئند فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ وطن عزیز میں انسانوں کے حقوق ابھی تک نصاب کا حصہ نہیں بنائے جا سکے۔پاکستان کے آئین میں انسانوں کے حقوق کے لیے ایک پورا باب مختص ہے۔ لیکن یہ حقوق آج تک نصاب میں جگہ نہیں پا سکے۔

نصاب میں پڑھائے جانے سے شاید یہ خطرہ ہو کہ اس طرح سے لوگوں کو اپنے حقوق کا پتا نہ چل جائے ۔ پتا چل جائے گا تو پھر وہ حق مانگنا بھی شروع کر دیں گے۔مزید اہتمام یہ کیا گیا ہے کہ نیم خواندہ معاشرے میں جہاں شرح خواندگی مشکل سے ساٹھ فیصد کے قریب ہے ، ہم نے آئین میں یہ حقوق انگریزی میں لکھ رکھے ہیںتا کہ اکثریت نہ ان حقوق کو پڑھ سکے نہ سمجھ سکے اور نہ مانگ سکے۔چند مخصوص طبقات وسائل پر قابض ہو جائیں اور عوام کو ایک لقمہ بھی مل جائے تو وہ اسے اپنا حق نہیں بلکہ بالا دست طبقات کی غریب پروری سمجھ کر شکر بجا لائیں۔

جس معاشرے میں گلی اور نالیاں پکی کر کے یا آٹے کی دو بوریاں دے کر حکمران طبقہ آدھے شہر کو شکریہ کے بینرز سے خود ہی بھر دیتا ہو کہ واہ حاتم طائی صاحب ، آپ نے کمال کر دیا، اہلیان حلقہ اس سخاوت پر آپ کے شکر گزار ہیں، اس معاشرے میں اگر لوگوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کا پتا چل گیا اور انہوں نے یہ حق مانگنا بھی شروع کر دیا تو اس سے خطر ناک صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے؟ بنیادی انسانی حقوق سے آگہی کا عالم یہ ہے کہ سالوں پہلے ملک کے ایک بڑے لاء کالج میں اپنے ٹاک شو کی ریکارڈنگ کے دوران لا ء کے طلباء سے میں نے یہ سوال پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آئین نے بطور شہری آپ کو کون کون سے بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں۔ کوئی ایک طالب علم بھی جواب نہ دے سکا۔

ایس ایم ظفر صاحب اور ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب بھی وہاں موجود تھے ۔ جب انہوں نے یہ عالم دیکھا تویہ کہہ کر معاملہ ’سنبھال‘ لیا کہ بچوں کو معلوم تو ہے بس اچانک سوال ہوا تو بتا نہیں سکے۔ جو لوگ اس تکلف سے آشنا ہیں کہ ایک عدد آئین ہے اور اس میں انسانوں کے کچھ بنیادی حقوق بھی دیے گئے ہیں ان کا عمومی فہم بھی اقوال زریں پر مشتمل ہے۔ حتی کہ پارلیمان کے اندر بھی انسانی حقوق کے فہم کی یہی صورت حال ہے۔ متعدد دفعہ ایوان میں اہل سیاست نے اپنی تقاریر میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے صحت کا بھی ذکر کیا جو واقعاتی طور پر درست نہیں۔

یہ ہمارا خیال یا مغالطہ تو ہو سکتا ہے کہ صحت بھی بنیادی انسانی حق ہے لیکن پاکستان کے آئین کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ تہتر کے آئین کے تناظر میں صحت ہمارا بنیادی انسانی حق نہیں ہے۔ نہ کسی نے یہ بات آئین میں لکھی نہ کسی نے نہ لکھے جانے پر تنقید کی اور نہ ہی کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ صحت کو بھی انسانی حق سمجھا جائے اور آئین میں شامل کیا جائے۔ چناں چہ بالا دست طبقات میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو بیرون علاج کے لیے چلا جاتا ہے ، بیرون ملک نہ جائے تو قومی وسائل پر ان کی بہترین علاج کے سارے بندوبست موجود ہیں، حتی کہ یہ جیل میں ہوں تو وہاں خصوصی میڈیکل یونٹ تعینات کر دیا جاتا ہے۔لیکن عام آدمی دل کا مرض لے کر ہسپتال جائے تو اسے چھ ماہ بعد کا وقت دیا جاتا ہے۔

کیوں ؟ اس کیں کے بہت سارے جوابات ہو سکتے ہیں لیکن ایک بنیادی جواب یہ ہے کہ صحت آپ کا بنیادی انسانی حق نہیں ہے۔ عالم یہ ہے کہ بائیس معززین کرکٹ کھیل رہے ہو تے ہیں اور سینکڑوں مریض سڑکوں پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو پرواہ نہیں، بس کرکٹیں ہونی چاہیئں چاہے سارا شہر اذیت سے دوچار ہو جائے۔ایمبولینسں تک کو کوئی راستہ نہیں دیتا۔ درجن بھر لوگ احتجاج کے لیے نکلیں تو سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بلوائیوں کے حقوق ہیں لیکن انسانوں کے نہیں ہیں۔ آئے روز اسلام آباد میں کسی عالی مرتبت ہستی کے احترام میں روٹ لگتا ہے اور سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ وزرائے کرام کے قافلے یوں دندناتے ہوئے سڑکوں پر گزرتے ہیں.

اور ان کے حفاظتی سکواڈ کے مسلح لوگ عوام کو اس حقارت سے سڑک سے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہیں جیسے یہ سڑک انہی وزیر صاحب کے دادا جان نے پاکستان کو عطیہ کی تھی۔ یہ ویڈیوز ہم خود دیکھ چکے کہ بیمار بچی کو سڑک پر لے جاتے ہوئے ایک باپ وزراء کی منتیں کرتا رہا کہ راستہ دو لیکن وزرائے کرام نے راستہ نہیں دیا ۔ کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا۔ آج تک کسی عدالت نے بلا کر ان سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ نقل و حرکت کا جو بنیادی حق اس شخص کو آئین نے فراہم کر رکھا تھا وہ تم نے کیسے چھین لیا؟آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی اگر عملی زندگی میں واقعی کوئی حیثیت ہوتی تو کیا چند اہل سیاست اس بے نیازی سے اس کو جواب دیتے کہ کہ جائو ہم تمہیں راستہ نہیں دیتے؟

انسان کی یہاں حیثیت ہی کیا ہے۔سڑک پر مارا جائے ، پولیس کے ہاتھوں مارا جائے یا ادویات اور علاج کی سہولت سے محروم ہو کر مر جائے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ یہی کافی ہے کہ بھٹو زندہ ہے ، کپتان ہینڈ سم ہے اور نواز شریف واپس آنے ہی و الا ہے۔ عام آدمی تو یہاں خواہ مخواہ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو شاید یہاں صرف اقوال زریں کے طور پر لکھ دیے گئے ہیں تا کہ سند رہے ورنہ عملی زندگی میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ خود آئین کے اندر جہاں انسانوں کو حقوق دیے گئے ہیں وہیں عملا چھین بھی لیے گئے ہیں۔ آئین میں درج ہر انسانی حق کو مروجہ قانون کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے اور مروجہ قانون دورغلا می کے ہیں جو برطانوی نو آبادیاتی دور میں مسلط کیے گئے۔

چنانچہ آئینی ضمانت کے باوجود یہ حق کسی کو نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر آئین میں آزادی رائے کا حق موجود ہے لیکن یہ مروجہ قانون سے مشروط ہے۔ 1870 میں برطانیہ نے ایک قانون بنایا تھا کہ حکومت اور اس کے وزراء کی توہین بھی جرم ہے اور اس پر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ قانون آج بھی موجود ہے اور تعزیرات پاکستان کا حصہ ہے۔ آئین کہتا ہے سب کو اپنی پراپرٹی کے تحفظ کا حق ہے لیکن قانون یہ کہتا ہے کہ صرف مفاد عامہ کے لیے ہی نہیں کسی سیٹھ کی ہا ئوسنگ کالونی کے لیے بھی لوگوں سے ان کی مرضی کے بغیر زمین لی جا سکتی ہے۔

مزید دلچسپ بات ہے کہ یہ نکتہ آئین میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ انسانوں کے ساتھ یہ حسن سلوک ہے اور نصاب میں جانوروں کے حقوق شامل کیے جا رہے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو سانحہ ساہیوال اور ماڈل ٹائون جیسے مقتولین کے بچے سکول میں یہ نصاب پڑھ کر سوچنے لگیں کاش ہم جانور ہی ہوتے۔

Comments

Click here to post a comment