مغلیہ سلطنت زوال پذیرتھی ، انگریز بنگال ،بہاڑ اور اڑیسہ سے ہوتا ہوا دلی اور آگرے تک پہنچ گیا تھا، مختلف علاقوں کے راجاؤں نے آزاد حکومتیں قائم کر لی تھیں۔
انگریز اور مرہٹوں کی پیش قدمی جاری تھی ،پنجاب میں سکھوں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی اور رنجیت سنگھ پنجاب کا واحد حکمران تھا۔دلی جو کبھی علم و فن کا مرکز ہوا کرتا تھا اب ویران ہو چکا تھا ، مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ دلی شہر کا جنازہ بھی نکل گیا تھا،دلی تبا ہ ہواتو اس دربار سے وابستہ کئی ماہرین فن نے اپنی قسمت آزمانے کیلئے لاہور اور ہندو ستان کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا۔انہی لوگوں میں دلی دربار سے وابستہ ایک نامور باورچی تھا جس کے کھانوں کی لذت دور دور تک مشہور تھی۔
شب دیگ، قورمہ اور بریانی تو ویسے ہی دہلی والوں کی پہچان تھی لیکن اس شاہی باورچی کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی مسور کی دال بہت لذیذ ہوتی تھی۔یہ باورچی مختلف علاقوں کا سفر کرتاہوا لاہور پہنچ گیا، رنجیت سنگھ کے دربار میں شرف باریابی ہوئی اوراسے پہلے ہی دن آزمائشی طور پر مسور کی دال پکانے کا حکم ہوا۔ باورچی نے بارہ مصالحے ڈال کر خوب مزیدار دال بنائی ، رنجیت سنگھ اور درباریوں نے چکھی توبادشاہ کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ آئندہ یہی شخص شاہی باورچی ہوگا اور تاحکم ثانی روزانہ مسورکی دال ہی پکے گی۔
بادشاہ سلامت اور درباریوں کویہ دال اتنی راس آئی کہ پورا ہفتہ مسلسل دال ہی کھاتے رہے۔ ہفتے بعد جب بادشاہ سلامت کے سامنے باورچی خانہ کا بجٹ پیش کیا گیا تو وہ غصے سے لال پیلے بلکہ کالے اورنیلے ہوگئے۔ باورچی کو طلب کیا گیا ، بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ پہلے ہمارے ہاں روزانہ گوشت پکتا تھا مگرپھر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا تھا،اس ہفتے دال پکی تو بجٹ آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے،آخر کیوں ؟ باورچی بے چارے کیلئے یہ صورتحال پریشان کن تھی،دلی دربارمیں اس نے صرف کھانے پکائے تھے کبھی کسی کو حساب کتاب نہیں دیا تھا ۔اس نے ہاتھ جوڑے اور سر جھکا کر عرض کیا: ’’ بادشاہ سلامت اگر دال کو ڈھنگ سے پکایا جائے اور مصالحہ جات ڈالے جائیں تواتنا ہی خرچ آتا ہے۔‘‘
بادشاہ سلامت کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور باورچی کو فوراً برطرف کرنے کا حکم جاری کر دیا،باورچی نے سامان سمیٹا اور کہیں اور قسمت آزمانے کے لیے نکل پڑا۔کچھ دن بعد دربار میں پھر وہی بے لذیذ کھانے اور گوشت پکنے لگا ۔ ہفتے دو ہفتے بعد بادشاہ سلامت کو مسور کی دال یاد آئی ،حکم ہوا کہ اس باورچی کو ڈھونڈ کر دربار میں حاضر کیا جائے ۔سپاہی اور پیادے تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ،ہر طرف اعلان کر وایا گیا کہ اس نام کا باورچی کسی کو نظر آئے تو دربار میں رپورٹ کی جائے۔
گھڑ سوار تلاش کرتے ہوئے سیالکوٹ کے مضافات میں پہنچ گئے، وہ باورچی سیالکوٹ کے قریب کسی مقام پر سفر کر رہا تھا ،اہلکاروں نے دیکھا تو اسے چاروں طرف سے گھیر لیا، باورچی نے مدعا پوچھا تو حکم ہواکہ بادشاہ سلامت رنجیت سنگھ تمہیں بلاتے ہیں۔اس نے بادشاہ کا نام سناتوایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی اور اس نے جواب میں یہ تاریخی جملہ کہا: ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔تاریخ میں لکھا ہے کہ اس باورچی نے جان دے دی مگر دوبارہ اس دربار کا رخ نہیں کیا۔
جنرل باجوہ نے 2018میں جو پروجیکٹ عمران خان شروع کیا تھا اسے ختم ہوئے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں مگر عمران خان صاحب کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا اور وہ اب بھی مسور کی دال کھانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔انہیں اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پروجیکٹ شروع کرنے والے تمام سٹیک ہولڈر ریٹائر ہو چکے ہیں یا انہوں نے ان کی پرفارمنس دیکھ کر توبہ کر لی ہے اس لیے فی الحال انہیںمسور کی دال کھانے کا شوق دل سے نکال دینا چاہئے ۔یہ حقیقت ہے کہ وہ پہلے بھی مسور کی دال کھانے کے اہل نہیں تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی مہربانیوں سے ان کو یہ توفیق نصیب ہوئی مگر وہ اس کے اہل ثابت نہیں ہو ئے ۔
اب یہ پھر چیخ چیخ کر مسور کی دال کھانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں ،یہ ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں ، اس پر لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں اور ایک ہفتے بعد اس شوشے کو چھوڑ کر کوئی نیا کٹا کھول لیتے ہیں ۔ یہ دال کھانے کے چکر میں ہر دوسرے دن کوئی نیا بیان جاری کرتے ہیں اور تیسرے دن اس سے یوٹرن لے کر چوتھے دن کوئی نیا لطیفہ مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں ۔ یہ خو دبھی ایکسپوز ہو رہے ہیں اور دال تیار کرنے ، پکانے اور کھلانے والوں کو بھی معاف نہیں کر رہے اور یہ انہیں بھی ایکسپوز کر رہے ہیں ۔انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ 2018میں دال پکانے اور کھلانے کا جو پروجیکٹ شروع ہواتھا وہ اب ختم ہو چکا ہے ۔پروجیکٹ خواہ کتنا ہی اچھا ہو بہر حال اس کی ایک اختتامی تاریخ ہوتی ہے ۔
ہاں اگر وہ اپنی سیاسی محنت کے بل بوتے پر مسور کی دال تک پہنچتے توممکن تھا کہ انہیں مزید موقع مل جاتا۔اب بھی جتنی جلدی وہ اس حقیقت کا ادراک کر کے از سر نو اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دیں گے اور نئے سرے سے دال کھانے کی کوششو ں کا آغاز کریں گے تو ممکن ہے مستقبل میں اس کے کوئی آثار پیدا ہو جائیں ۔ ایک مسئلہ باورچی کا بھی ہے، رنجیت سنگھ نے اپنے باورچی کو جس طرح نکالا تھا اور بعد میں کف افسوس ملتے ہوئے اسے ڈھونڈنے کے لیے ہرکارے بھیجے تھے وہ کچھ اچھا تجربہ نہیں تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ باورچی نے دربار میں واپس جانے کو کسی صورت قبول نہیں کیا تھا اور ہرکاروں کے ذریعے بادشاہ سلامت کو پیغام بھجوایا تھا کہ آپ کامنہ مسور کی دال کھانے کا اہل نہیں ۔
عمران خان صاحب بھی اپنے لیے دال پکانے والوں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ، یہ انہیں پچھلے آٹھ ماہ سے مختلف القابات سے نواز رہے ہیں ، ان کی پکائی ہوئی دال میں نقص نکال رہے ہیں اور انہیں سر عام ایکسپورز کر رہے ہیں ۔ عمران خان صاحب کو اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ رنجیت سنگھ کی طرح بعد میں وہ بھی کف افسوس ملتے رہیں اور کچھ عرصے بعدجب دال پکانے اور کھانے کا موسم آئے اور ان کے ہرکارے باورچی کے پاس جائیں تو باورچی انہیں دیکھ کر ہی واپس لوٹا دے کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔
اس لیے عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اب 2018کے پروجیکٹ سے آگے نکل آئیں ، اس پروجیکٹ کے جو نتائج نکلنے تھے وہ نکل چکے ہیں ، اس کی سپانسر شپ اور میعاد ختم ہو چکی ہے اور اس میں سے مزید کچھ نکلنے والا نہیں ۔ اب آگے بڑھیں ، حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اورازسر نو سیاسی جد وجہد کا آغاز کریں۔
وقت بھی ہے اور میدان بھی خالی پڑا ہے ، اس دفعہ آپ کسی پروجیکٹ کا حصہ بننے کے بجائے اپنی صلاحیت اور زور بازوکو آزمائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ کسی سہارے کے بغیر آپ خود کتنے پانی میں ہیں ۔اگر آپ نئے سرے سے سیاسی جد وجہد کا آغاز نہیں کرتے تو پھر رنجیت سنگھ کے باورچی کی طرح، آپ کویہ کہنے کے سواکیا بچتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔
تبصرہ لکھیے