جب سے اس کائنات کا پورا نظام معرض وجود میں آیا ہے۔ کچھ ایسی سچائیاں اور مسلمہ حقیقتیں ہیں کہ جو ہر دور میںانسانیت کے ماتھے کا جھومر رہی ہیں۔ ان بنیادی انسانی خصوصیات کے بغیر انسانیت ہمیشہ سے ادھوری اور نا مکمل رہی ہے۔ ان بنیادی انسانی خصوصیات میں امانت و دیانت، سچ اور سچائی ، عدل و انصاف کو ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ حتیٰ کہ پیغمبرانہ تعلیمات کا بھی ایک بڑا حصہ انہی بنیادی انسانی خصوصیات کے گرد گھومتا ہے۔ جب کوئی قوم اور ملک ان خصائص کو چھوڑ کر بددیانتی ، جھوٹ ،ظلم و ستم کو اپنا وطیرہ بنالیتا ہے تو وہ معاشرے زول اور گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
توشہ خانہ سٹیٹ ڈیپازٹری کا نام تو اب ہمارے ہر پاکستانی بوڑھے اور جوان کو حفظ ہوچکا ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں اور ممالک کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر عہدیداران کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران ملنے والے ان تحائف کا اندراج کیا جاتا اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانوں میں جمع کروادیا جاتا ہے۔ یہاں پر جمع ہونے والے تحائف کو بعض اوقات ملکی یادگار کے طور پر بھی رکھا جاتا ہے۔ یا پھر کابینہ کی منظوری سے انہیں فروخت کرکے رقم قومی بیت المال میں جمع کروادی جاتی ہے۔
ریاست پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کسی تحفے کی قیمت تیس ہزار سے کم ہو تو تحفہ حاصل کرنے والاشخص اسے مفت ہی اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جبکہ قیمت اگر تیس ہزار سے زائد ہو تو انہیں مقرر کردہ اصولوں کے مطابق پچاس فیصد قومی بیت المال میں جمع کرواکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں 2020ء سے پہلے یہ رقم بیس فیصد تھی۔ جبکہ تحریک انصاف کے ’’سنہری دور حکومت‘‘ میں اسے بڑھا کر پچاس فیصد کردیا گیا۔ چونکہ دنیا بھر میں سربراہان کا استقبال اور ان کے دورہ جات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جو صرف اس سربراہ مملکت کے لیے ہی نہیں بلکہ اس پوری قوم اور ملک کے لیے بھی باعث عزت و توقیر ہوتا ہے۔ بالخصو ص بڑی طاقتوں کے سربراہان کا دورہ بعض اوقات بین الاقوامی اہمیت اختیا ر کرجاتاہے۔
ان دوروں میں جہاں دو طرفہ تعلقات کی بہتری ، کاروباری معاہدے اورpartnership Strategicجیسی اہم چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان تحائف میں عام طور پر سونے اور قیمتی ہیروں سے بنے ہوئے زیورات ، گھڑیاں ، مختلف سوینیرز ، قلم، قالین ، گاڑیاں اور دیگر قیمتی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ سربراہان مملکت اور وزراء کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانے میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بنک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کے بعد نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ تحائف ایسے ہوتے ہیں جو کسی ملک یا سربراہ کی طرف سے ملے ہوں تو ان کی قیمت کا تعین ان کی مارکیٹ ویلیو سے بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ توشہ خانہ کے موجود قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اسی کا ہے جسے یہ تحفہ ملا ہے۔ اگر وہ اسے نہیں لیتا تو سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کو پیش کیا جاتا ہے اور اگر ان کی دست برد سے کچھ چیزیں بچ جائیں یا اس اشرافیہ کو پسند نہ آئیں تو ان کو پھر عوام الناس کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔
محترم قارئین! دیکھا ہے کہ کتنا خوبصورت اور پائیدار نظام ہے کہ جس میں چیزیں یعنی مال و متاع اور اقتدار صرف خاص لوگوں میں ہی گردش کرتا رہتا ہے۔ جس طرح قومی خزانے سے ان تمام لوگوں کی تعیشات پوری ہونے کے بعد اگر کوئی چیز بچ جاتی ہے تو وہ عوام پر خرچ کی جاتی ہے۔ وگرنہ اس کی نوبت بھی کم ہی آتی ہے ۔ یوں یہ اقتدار کی غلام گردشیں ایک خاص دائرے میں ہی اور خاص زمینوں کو ہی سیراب کرتی رہتی ہیں۔ غریب اور عوام بیچارے بس وعدے اور وعید پر ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔ "روٹی ،کپڑا اور مکان ، سب سے پہلے پاکستان اورریاست مدینہ " جیسے دلفریب نعروں سے عوام کو بہلایا جاتا ہے۔
اگر عوام کاسیاسی شعوربلند نہ کیا جاتا اور انہیں ان تلخ حقیقتوں، ان کے مکروہ چہروں اور کارناموں سے آگاہ نہ کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ عام آدمی ان کی مسیحائی کا دم بھرتا رہے اور یوں یہ ظالم نظام اسی طرح پنجے گاڑے عوام کے خون سے اپنی پیاس بجھاتا رہے اور سادہ لوح عوام اسی سراب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے دم توڑ جائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ان چیزوں کو مد نظر رکھیں۔ اگرچہ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن موجودہ دور میں جب عوام تک پہنچنے کے بہت سارے کمیونیکشن ٹولز موجود ہیں تو ان کا موثر اور بھر پور استعمال اس معاملے میں بہت ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے اب تو میڈیا اور سوشل میڈیا نے اتنے سارے ٹولز متعارف کروادیے ہیں کہ آپ ایک بات کو ایک لاکھ نت نئے انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور بیک وقت کروڑوں لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں سوائے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے شائد ہی کوئی حکمران ایسا گزرا ہو جس نے آئین و قانون، امانت و دیانت اور قوم کے ساتھ سچ بولا ہو۔ ان کے کارناموں پر نظر دوڑائیں تو انسانیت شرماجاتی ہے۔ پاکستان کے تین سابق حکمرانوںجن میں نواز شریف ،یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری شامل ہیں، پر توشہ خانوں سے غیر قانونی تحائف حاصل کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ موجودہ قوانین جن کا سرسری تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں موجود ہے کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور کروڑوں روے مالیت کے تحائف کو ایک ہی سانس میں ڈکار لیا گیا۔ مال اور اقتدار کو اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھنے والے جناب عمران خان نے بھی اس معاملے میں جو کارنامے سر انجام دیے وہ اب ہماری تاریخ کا ـ’’ روشن باب ہے‘‘ اور ’’ پڑھتا جا اور شرماتا جا ‘‘ کے مصداق جگ ہنسائی کا موجب بھی۔
جس طرح ہم نے آغاز میں چند گزارشات کی تھیں کہ انسانی سماج اور اس کی بہتری کے لیے انسانوں میں چند بنیادی خصائص کا ہوناانتہائی ناگزیر ہے اور اگر کسی معاشرے کا بالائی طبقہ کہ جسے قرآن نے ’’ مترفین‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے اگر ان خصائص کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ معاشرہ کبھی بھی عروج کے راستے پر چل نہیں سکتا۔ پاکستان کے حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، چاہے بیوروکریسی کو یا پھر عام آدمی ان خصائص کہ جن میں سچ اور سچائی، وعدے کی پاسداری، کاروباری معاہدوں میں لین دین، امانت و دیانت ، اقربا پروری ، رشوت ، میرٹ اور اس فہرست کو جتنا بھی لمبا کرتے چلے جائیں تو اوپر سے لے کر نیچے تک الا ماشاء اللہ چند لوگوں کے سوا جن میں جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن بالخصوص اس دور میں ان سچائیوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
جبکہ اکثریت کے نزدیک یہ ایک لایعنی چیز بن چکی ہے۔ پچھلے 75سالوں میں جونکوں کی طرح پاکستان کے خون کو چوسا بھی گیا اور لوٹا بھی گیا اور اس کی مثال کے لیے صرف توشہ خانہ ہی کافی ہے۔ جبکہ بقیہ کرپشن کے کیسز کو معاف کروانے کے لیے نیب ترمیمی آرڈیننس بل پارلیمنٹ سے منظور کروائے جاچکے ہیں تاکہ غریب عوام کی زندگی کو مزید اجیرن بنادیا جائے اور حرام مال کو پارلیمنٹ کے ذریعے حلا ل کا درجہ دے دیا جائے ، یہ ہے وہ گھنائونا کھیل جو جاری ہے اور جاری رہے گا کہ جب تک عوام میں پختہ شعور پیدا نہ جائے جبکہ اسی حوالے سے ہماری تاریخ بہت ہی سنہری اور شاندار تاریخ ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے خلاف شکایت آئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر کو طلب کیا اور پوچھا :"ابو موسیٰ ! میں نے سنا ہے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ تم خود رکھ لیتے ہو بیت المال میں جمع نہیں کرواتے"؟ حضرت ابو موسی اشعریؓ بولے ! حضور وہ تحائف مجھے ملتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا ! وہ تحائف تجھے نہیں تمہارے عہدے کو ملتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو گورنر کے عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سینکڑوں بکریاں دیکر کہا کہ جاؤ اور اب سے بکریاں چرانا شروع کر دو۔
ابو موسیؓ ہچکچانے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ! تمہارے باپ دادا یہی کام کرتے تھے یہ تو حضورﷺ کے وسیلے سے تجھے گورنری مل گئی تھی۔ کافی عرصے بعد حضرت عمر خود جنگل میں چلے گئے تو دیکھا بکریاں چر رہی ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک ٹیلے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور انکے چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا ھے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا سنا ابو موسیٰ ! اب بھی تجھے تحفے ملتے ہیں؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری بولے۔ حضور ! مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ توشہ خانے کا پچاس سالہ ریکارڈ پبلک کیا جائے اور جنہوں نے اس ملک کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے، ان کو قرار واقعی سزادی جائے۔ آئیے چند حکمرانوں کے توشہ خانے کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ فقط توشہ خانے کا ریکارڈ نہیں بلکہ حیرت کا طلسم کدہ ہے کہ جس کو پڑھ کر انسان کی حیرت کی گم ہوجاتی ہے۔
1997 نواز شریف ترکمانستانی حکومت کا دیا ہوا قالین صرف 50 روپے دے کر گھر لے گئے۔ قطر کے ولی عہد کا دیا ہوا بریف کیس 875 روپے دے کر گھر لے گئے۔ 1999سعودی عرب سے ملنے والی 45لاکھ کی مر سڈیز میاں صاحب 6 لاکھ میں لے گئے۔ سعودی حکومت کی دی رائفل جو 1لاکھ سے اوپر کی تھی میاں صاحب 14ہزار میں گھر لے گئے۔ ابو ظہبی کے حکمران کی طرف سے نواز شریف،مریم نواز اوربیگم کلثوم نواز مرحومہ کو 3 گھڑیاں تحفے میں دی گی 2 گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئیں جبکہ 1 گھڑی مریم نواز نے 45 ہزار میں نکلوا لی اس گھڑی کی قیمت 1999 ءمیں 10 لاکھ سے اوپر تھی۔اس کے بعد شوکت عزیز نے 26 کروڑ کے تحفوں کی قیمت 7 کروڑ لگوا کر ڈھائی کروڑمیں گھر لے گئے۔
اس کے بعد یوسف رضا گیلانی2011میں سعودی حکومت سے ملنے والے20 لاکھ سے اوپر کے تحائف گھڑی، پن ،خنجراور کف لنک صرف 2 لاکھ 83 ہزار میں گھر لے گیے اور گیلانی صاحب کی اہلیہ 30لاکھ کا جیولری سیٹ 3 لاکھ میں گھر لے گئیں۔2009ءمیں زرداری کو معمر قزافی نے 3 کروڑ کی گاڑی گفٹ کی زرداری صاحب 40 لاکھ میں لے اڑے۔ 2009 ءمیں UAEکے حکمران نے زردادی صاحب کو12 کروڑ کی لکسیز گاڑی گفٹ کی زردادی صاحب 1کروڑ60 لاکھ میں لے گئے۔اس کے بعد پرویز مشرف نے 4کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں گھر لے گئے، ان میں 2 پسٹل بھی تھے جو امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے مشرف کو گفٹ کیے تھے، صرف 19 ہزار میں مشرف صاحب وہ پسٹل لے اڑے اس میں1 پسٹل امیر مقام کو گفٹ کیا تھاجس کو موصوف لمبے عرصے تک پبلک جلسوںمیں لے کر عوام پر دھاک بٹھاتے رہے۔
طیب اردگان کی بیگم کا دیا ہوا ہار اور سعودی پرنس محمد سلمان کی دی ہوئی گھڑی نے جس طرح ہمارے حکمرانوں کے کردار کو عیاں کیا ہے ، تاریخ میں ایسی بے حسی اور لالچ کی مثال نہیں ملتی۔
آئیے ! ان چہروں کو پہچانیے جو ہر دفعہ ایک نئے روپ میں سادہ لوح عوام کو اپنے پر فریب نعروں سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لکھیے ، بولیے، پکاریےاور اپنا کردار ادا کیجیے تاکہ پاکستان کو قائد اور اقبال کے خوابوں کی تعبیر کا مرکز بنایا جاسکے۔
تبصرہ لکھیے