ہوم << اللہ اور رسول کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ کا استعمال (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

اللہ اور رسول کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ کا استعمال (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

برطانیہ سے علامہ نصیر اللہ نقشبندی نے پوچھا ہے:

’’ (۱)کیا اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق یا معشوق یا مشوق کے کلمات استعمال کرناجائز ہیں،

(۲) رسول اللہ ﷺ سے اظہارِ محبت کے لیے عشق ِ رسول کا لفظ استعمال کرنا یایہ کہنا :’’ فلاں عاشق ِ رسول ہے یا میں عاشقِ رسول ہوں‘‘شرعاً جائز ہے ،نیزکیا رسول اللہ ﷺ کو معشوق کہنا جائز ہے ،

(۳) ہم عشق حقیقی اور عشق مَجازی کے الفاظ سنتے رہے ہیں، کیا ان میں کوئی معنوی فرق ہے ،نیزنعت یا سلام میں یہ شعر پڑھناکیسا ہے:’’امتی کیا،خود خدا شیدا ہے تمھارا‘‘۔

سب سے پہلے عشق کے معنی بیان کیے جاتے ہیں،’’اَلْمُعْجَمُ الْوَسِیْط ‘‘میں ہے : ’’عشق‘‘کے لغوی معنیٰ ہیں:’’ بہت شدت سے محبت کرنا،کسی شئے کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا ،چمٹ جانا، (ج:2، ص:603، مطبوعہ: دارالدعوۃ)‘‘ ۔ ’’مِصْبَاحُ الْمُنِیْر‘‘ میں ہے:’’ محبت میں اِفراط (یعنی حد سے تجاوز یا انتہائی درجے کی محبت) کو عشق کہتے ہیں، ( ج:2، صفحہ :412)‘‘، اَلْمُنْجِد میں ہے : ’’بہت زیادہ محبت کرنا ،محبت میں حد سے بڑھ جانا،عَشِقَ بِالشَیٔ ِ : چمٹنا،العِشْقُ : محبت کی زیادتی ،اس کا اطلاق پارسائی اور غیرپارسائی دونوں اعتبار سے ہوتاہے، اَلعَشَقَۃُ : عشق پیچاں ، پیلو ،( ص: 654-55)‘‘۔

عشق ایک پودا ہے جو سرسبز و شاداب ہوتاہے، لیکن پھر مر جھا جا تا ہے اور زرد پڑ جاتا ہے۔ ہندی میں ’’عشق پیچاں‘‘ ایک بیل کو کہتے ہیں، اردو زبان میں اسے’’آکاس بیل‘‘ کہتے ہیں، یہ درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو برگ و بار سے محروم کر دیتی ہے، پھر وہ زرد ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے، برگ وبار سے مرادہے:’’ شاخیں ، پھول ، پھل اور پتّے ‘‘۔

پس جب عشق قلبِ عاشق پہ چھا جاتا ہے تو اس کو زرد رُو اور لاغَر بدن بنادیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عاشق ، معشوق اور مشوق کے کلمات استعمال کرنا شریعت کی رو سے جائز نہیں ، شاقَ یَشُوْقُ شَوْقًا کے معنی ہیں:’’شوق دلانا‘‘، اس کی صفتِ مفعولی مشوق ہے،شَوقْ کے معنی ہیں:’’سخت خواہش، بڑی آرزو‘‘۔بعض فقہاء وعلماء نے اسے بدعت کہاہے اوراللہ تعالیٰ کے لیے ایسے کلمات استعمال کرنے والے کو بدعتی قرار دیا گیا ہے ،البتہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، بعض علماء نے کہا ہے: ایسے شخص کو سزا دی جائے گی ۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے آداب میںسے ایک یہ ہے : آپﷺ کے لیے صریح اہانت کا کلمہ تو درکنار ، ایسا ذومعنی کلمہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں ، جس کا ایک معنی تعظیم کا ہو اوربولنے والے کی نیت بھی تعظیم کی ہو ،لیکن اس کے ایک دور کے معنی اہانت کے بھی نکل سکتے ہوں ،کیونکہ کوئی بدنیت اور بدعقیدہ شخص ایسے کلمات بول کر اہانت کا معنیٰ مراد لے سکتا ہے۔

جب رسول اللہ ﷺ کی صحابۂ کرام کے ساتھ مجلس منعقد ہوتی ، آپ کے ارشاداتِ مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوتا اور کوئی بات کسی صحابی کی سمجھ میں نہ آتی ،تو وہ عرض کرتے : ’’راعِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘،’’یعنی اے اللہ کے رسول! ہماری رعایت فرمایئے ، ہماری طرف توجہ فرمایئے ، اپنی بات مکرر ارشاد فرمایئے‘‘ ،صحابۂ کرام کی نیت درست ہوتی تھی ، لیکن بعض منافقین اوریہود بدنیتی سے اس لفظ کو اِمالہ(Tilt) کرکے ’’ رَاعِیْنَا‘‘کہتے اورباہر آکر اپنی مجلسوں میں اس کا لطف لیتے کہ ہم نے انھیں بنادیا،کیونکہ’’ رَاعِیْنَا‘‘ کے معنی ہیں:’’ہمارا چرواہا‘‘اور بعض اسے ’’رَعْن‘‘ سے لیتے اوررعونت کے معنی ہیں:’’بے وقوف ہونا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرّمﷺکی شان میں ذومعنی لفظ کے استعمال سے منع فرمادیا اور تنبیہ فرمائی کہ پہلی مرتبہ ہی نبی ﷺ کی بات غورسے سن لیاکرو تاکہ آپ ﷺکو دوبارہ زحمت دینے کی نوبت ہی نہ آئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اے ایمان والو! ’’راعِنَا ‘‘نہ کہا کرو،بلکہ ’’ اُنْظُرنَا‘‘ (ہماری طرف توجہ فرمایئے!) کہاکرو اور (بہتریہ ہے کہ پہلے ہی ) توجہ سے سن لیا کرو ، (البقرہ:104)‘‘،ذو معنی لفظ کو ہم انگریزی میں’’Ambigous‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں،لغت میں اس کے معنی ہیں:’’ایسا لفظ جس کے ممکنہ طور پر ایک سے زائد معانی ہوں ،اس سے بعض صورتوں میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔

نیز فرمایا:’’ یہودیوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے کلمات کو ان کی جگہوں سے پھیردیتے ہیں اورکہتے ہیں : ہم نے سنا اورنافرمانی کی (اور آپ سے کہتے ہیں:) سنیے آپ نہ سنائے گئے ہوں اوراپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعن کرتے ہوئے ’’رَاعِنَا‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے سنا اورہم نے اطاعت کی اورآپ ہماری بات سنیں اورہم پر نظرِ کرم فرمائیں تویہ اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے ،سوان میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے ،(النسآء:46)‘‘۔

قرآن کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے لیے ’’ حُبّ ‘‘کا کلمہ آیا ہے، اُس کی غایت کو ’’اَشَدّ ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:’’بعض لوگ اللہ کے غیر کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اوراُن سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیںاور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ،وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں ،(البقرہ:165)‘‘،تفصیلی دلائل حسبِ ذیل ہیں:

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں:’’ بعض اولیائے کرام اور بعض متقدمین نے اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے لفظ معشوق اور مَشُوق استعمال کیا ہے، مگر اہل علم نے دو وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل وسماع پر موقوف ہیں ،عقل پر موقوف نہیں ہیں) اور دوم یہ کہ اس کا اطلاق جسمانی لذتوں میں (زیادہ) مُتعارف ہے ، (تفسیر امام راغب اصفہانی،ج:1،ص:49)‘‘،علامہ ابن قیم حنبلی لکھتے ہیں:

’’ اہل علم نے اس میں اختلاف کیاہے کہ آیا یہ کلمہ (عاشق یا معشوق) اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بولاجاسکتا ہے ،صوفیہ کی ایک جماعت نے کہاہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے اس بابت اثر نقل کیاہے ،لیکن ایسا اثر کہیں ثابت نہیں ہے اور اُسی میں ہے :عشق کرنے والا کہے گا:’’ اس نے مجھ سے عشق کیایا میں نے اس سے عشق کیا‘‘اور جمہور علماء نے کہا : یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں نہیں بولا جائے گا ،پس یہ نہیں کہاجائے گا : ’’وہ (فلاں ) سے عشق فرماتا ہے ‘‘ اوریہ بھی نہیں کہاجائے گا : ’’اُس کے بندے نے اُس سے عشق کیا‘‘،محدثین کی اصطلاح میں ’’اثر‘‘قولِ صحابی کو کہتے ہیں۔ پھر (اللہ کی ذات پر) اس کے اطلاق کی ممانعت کے بارے میں تین مختلف ا قوال بیان کیے ہیں:

(۱) یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں(یعنی نقل وسماع پر موقوف ہیں)، اس کے برعکس مَحبت کا کلمہ اللہ تعالیٰ کے لیے (قرآن وحدیث میں )آیا ہے ،جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق کسی سے بھی روایت نہیںہوا،

(۲) یہ کہ عشق مَحبت میں افراط (حد سے تجاوز کرنے ) کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بات یا کسی صفت کے حوالے سے اِفراط کا اطلاق ممکن نہیں ہے(کیونکہ اس کی کسی صفت اورشان کی کوئی حد نہیں ہے کہ کہاجائے:اس نے حد سے تجاوز فرمایا) اورنہ بندہ اس کی ذات کے ساتھ اُس کمال محبت کو پاسکتا ہے(جس کا وہ حق دار ہے) ، چہ جائیکہ کہ کہاجائے :’’اس نے محبت کا حق اداکردیا‘‘ ،اللہ تعالیٰ سے محبت کا حق بندے کے لیے اداکرنا ممکن ہی نہیں ہے ،چہ جائیکہ کہاجائے : اس نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں حدسے تجاوز کیا ،

(۳) یہ کہ یہ تغیر سے ماخوذ ہے، جیسے ’’آکاس بیل ‘‘لپٹے ہوئے درخت کو (رنگ زرد پڑ جانے کے سبب) ’’عاشقہ‘‘ کہاجاتاہے کہ اس کا رنگ مُتغیر ہوگیا، لہٰذا اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں کیاجائے گا ، (رَوْضَۃُ الْمُحِبِّیْن،ص:45،46)‘‘، کیونکہ اس کی ذات تغیر وتبدّل اورزوال سے پاک ہے۔

قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ سے محبت کے حوالے سے البقرہ:222-195-165، آل عمران:76-31اور 159-146-134،توبہ:24اور دیگر مقامات پر ’’ أَحَبّ ، یُحِبُّ ، یُحِبُّونَ ، حُبٍّا ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نیز حدیثِ پاک میں ہے :’’ جومیری رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، باہم مل بیٹھیں ،ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے پر مال خرچ کریں ،ان کی محبت میرے ذمۂ کرم پر ہے ،(مسند احمد :22030)‘‘، بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب ہیں، بندہ اُن کا حق ادا نہیں کرسکتا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم اُن کاشمار نہ کر پائو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا،نہایت مہربان ہے، (النحل:18)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ! میں تیری ثناکا احاطہ نہیں کرسکتا ، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تونے خود اپنی ذات کی فرمائی ،( صحیح مسلم:486)‘‘۔

علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں:’’اگر اس نے کہا : میں ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ میں غمِ جان سے آزادہوگیا‘‘،یہ کہنے سے اس کی تکفیر تونہیں کی جائے گی ،لیکن وہ مُبْتَدِع ہے(اور) فریب نفس میں مبتلا ہے،اسی طرح اگر کہا: ’’میں اللہ کا عاشق ہوں یاوہ مجھ سے عشق فرماتا ہے‘‘ (تومبتدع ہے)، (اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے ) صحیح الفاظ یہ ہیں: ’’میں اللہ سے محبت کرتاہوں اوروہ مجھ سے محبت فرماتاہے ، (اَلاِعلاَم بِقَواطِعِ الِاسلام،ص:204)‘‘،علامہ سلیمان بن منصورشافعی لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعاشق اورمعشوق کہنا جائز نہیں ہے ،بلکہ ایساکہنے والے کو سزا دی جائے گی (یعنی یہ ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے)،(حَاشِیَۃُ الْجُمَلْ عَلٰی شَرحِ الْمَنْہَجْ،جلد:2،ص:194)‘‘۔

امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا:’’ اللہ تعالیٰ کو عاشق اوررسول اللہ ﷺ کواس کامعشوق کہنا جائزہے یانہیں؟‘‘،آپ نے جواب میں لکھا:’’ناجائز ہے ،کیونکہ عشق کامعنی اللہ عزوجل کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ بے ورُودثبوتِ شرعی حضرتِ عزّت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی، ردالمحتارمیں ہے:’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی لفظ سے صرف مُحال معنی کا وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہے‘‘۔

علامہ یوسف اردبیلی شافعی ’’اَلْاَنْوَار لاَِعْمَالِ الاَبْرَار‘‘ میں شافعی اور حنفی علماء سے نقل فرماتے ہیں :’’اگر کوئی شخص کہے :میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے‘‘ ،تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح عبارت یہ ہے کہ وہ یوں کہے:’’ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتاہے ،قرآنِ کریم میں ہے:’’اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے،(المائدہ:54)‘‘،اسی طرح امام ابن حجر مکی نے’’اِعلام‘‘ میں نقل فرما کراسے مقرّر رکھا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد21، ص:114تا116)۔ (جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment