ہوم << طلبہ یونین کی بحالی اور ہمارے حکمران-سید عتیق اللہ جان ایڈوکیٹ

طلبہ یونین کی بحالی اور ہمارے حکمران-سید عتیق اللہ جان ایڈوکیٹ

آج سے چن ماہ قبل قومی اسمبلی نے بھی ایک “قرارداد” پاس کی تھی جس میں اسلام آباد اور ملک کے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹ یونین کے قیام پر زور دیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اس قرار داد میں یونین سازی کے حق کے قانون میں پرتشدد سرگرمیوں کے حوالے سے صفربرداشت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے نزدیک یہ صوبائی معاملہ تھا اس لیے صوبائی حکومتوں کو تجویز دی گئی کہ وہ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے صوبوں کے تعلیمی اداروں کی “یونینوں” کا جائزہ لیں۔ شاید قومی اسمبلی کے قانون سازوں کو یہ نکتہ سمجھنے میں عمرِ خضر درکار ہے کہ یونین سازی کا حق، چاہے یہ سیاسی ہو معاشی ہو یا تعلیمی، ملک کے تمام شہریوں کا حق ہے اور اسی لیے قومی اسمبلی نے اپنی قرارداد میں اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کو اجتماع کی آزادی کے بنیادی آئینی حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے!

اب سندھ کی صوبائی اسمبلی نے بھی طلباءیونین کی بحالی کی ایک “قرارداد” متفقہ رائے سے منظور کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی سعید غنی نے سندھ میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو “مشورہ” دیا ہے کہ وہ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے لیے وفاق کا انتظار نہ کرے بلکہ پہل کرتے ہوئے “اگر ضرورت پڑے تو” اس بارے میں قانون سازی کرتے ہوئے قانون لائے۔

سندھ اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور قرارداد کے زریعے سندھ کی حکومت کو اسٹوڈنٹ یونین بحال کرنے کی سفارش کی ہے! ایک عجیب طرفہ تماشا ہے! قراردادیں، سفارشات اور تجاویز جبکہ اسمبلیاں قانون ساز ادارے ہوتے ہیں جن کا کام ریاست کے قوانین بنانا ہے۔ اگر اسٹوڈنت یونین بنانے کا قانون ہی موجود نہ ہو تو حکومت اس پر عملدرآمد کیسے کرائے گی؟ اسٹوڈنٹ یونین بنانے کا قانون موجود نہیں البتہ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کا قانون موجود ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ قانون کے مطابق عمل کرے گی یا قرارداد کے مطابق طلباءکو یونین بنانے کے لیے یونین سازی پر پابندی کے قانون کے خلاف قانون کی ضرورت ہے قراردادوں کی نہیں۔

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف وغیرہ سب ایک طویل عرصے سے بظاہر متفق ہیں کہ طلباءکو یونین بنانے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن اسٹوڈنٹ یونینوں پر پابندی کا کالا قانون ختم کرنے کے لیے قانون سازی کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی۔ قراردادوں کے ذریعے طلباءکو محض تھپکیاں اور تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ اصل کام یعنی قانون بنانا اور نافذ کرنا نہیں کیا جا رہا۔ ایک طرف تو اسٹوڈنٹ یونین بنانے پر قانونی پابندی ہے لیکن دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اپنی طلباءتنظیمیں بنا رکھی ہیں! اس منافقت کا سبب کیا ہے؟ اگر اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کی اسٹوڈنٹ یونین موجود ہیں تو پھر اسٹوڈنٹ یونین بنانے پر پابندی عائد کیوں ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ پابندی ان طلباءکے لیے ہے جو ملک کی اشرافیہ کے استحصالی تعلیمی نظام کی زنجیروں سے اپنے حقوق کو آزاد کرانے کی تمنا رکھتے ہیں۔

یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے طلباءکو یونین بنانے کا پورا حق ہے اور اسی طرح ہے جس طرح دنیا کی کسی بھی جمہوری ریاست کے طلباءکو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے طلباءکو ماضی میں یہ حق حاصل تھا جسے ایک فوجی آمر نے پاکستان کے طلباءسے چھینا تھا۔ پاکستان کے طلباء کو ان کا یہ جمہوری حق چاہیے جھوٹے وعدے نہیں۔ طلباءکو یونین سازی کے حق کا قانون چاہیے وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر۔ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں صرف قراردادیں منظور نہ کریں بلکہ یہ قانون بنائیں۔ کیا پاکستان حقیقی معنی میں ایک جمہوری ریاست ہو سکتا ہے اگر اس کے شہریوں کو ایک بنیادی جمہوری حق یعنی اس کے طالبِ علم شہریوں کو یونین سازی کا حق حاصل نہ ہو؟

حکمران سرمایہ دار اشرافیہ کی سیاسی پارٹیوں کی طلباءتنظیمیں طلباءکے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے طلباءکو اپنی سیاسی پارٹیوں کی طبقاتی پالیسیوں کے تحت مذہبی، فرقہ ورانہ، قومیتی، صنفی، لسانی اور علاقائی اکائیوں میں تقسیم کیے رکھتی ہیں۔ یہ طلباءتنظیمیں غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلباءکے مسائل کی نمائندگی نہیں کرتیں جن میں فیسوں میں مسلسل اضافہ، تعلیمی سہولیات کی ابتری، حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں وغیرہ شامل ہیں جن سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلباءاور ان کے خاندان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

تعلیم کو حکمران اشرافیہ اور درمیانے طبقے تک محدود رکھنے کے لیے، غریب اور متوسط طبقے کے طلباءکو نیم تعلیم یافتہ اور بے شعور رکھنے کے لیے، انہیں تعلیم کا جمہوری حق نہ دینے کے لیے اور تعلیم سے دولت کمانے کے لیے یونین سازی پر قانونی پابندی قائم رکھی گئی ہے تاکہ اول تو غریب اور متوسط طبقے کے طلباءاپنے تعلیمی حقوق اور طبقاتی استحصال کے لیے مشترکہ جدوجہد کا قدم ہی نہ اٹھا سکیں اور اگر قدم اٹھا لیں تو انہیں اسٹوڈنیٹ یونین پر پابندی کے کالے قانون کی آڑ لے کر کچلا جا سکے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں شہریوں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ان کے سیاسی نمائندے جن کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے جمہوری حقوق اور مطالبات کے مطابق قانون سازی کریں تاکہ ملک عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہو وہ اپنے طلباءکو یونین سازی کا قانونی حق دینے پر منافقابہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے لیے قراردادیں کافی نہیں۔ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کا قانون نافذ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے طلباء ایک نیا قانون چاہتے ہیں جو پاکستان کے تمام طلباءکو اسٹوڈنٹ یونین بنانے کا ناقابلِ تنسیخ جمہوری حق دے اور اس حق کی کسی بھی صورت اور حالت میں پامالی کو غیر قانونی اور قابلِ سزا جرم قرار دیے۔ پاکستان کے طلباء کو اپنے حق کے لیے قرار داد نہیں بلکہ موثر قانون چاہیے۔

ملک کی سب سے منظم اور تمام نسلی،اور عصبیتی تعصبات سے پاک اور طلبہ کے واحد امین و نمائندہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے طلبہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔پاکستان میں نام نہاد جمہور یت ہو یا سر کو شرم سے جھکانے والی آمریت ہر دور میں جمعیت نے طلبہ حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔طبقاتی نظام تعلیم،فیسوں میں اضافہ،تعلیم کی نجکاری یا پھر جامعات میں کرپشن جمعیت نے ہر دور میں طلبہ کی رہنمائی کی ہے۔ اس کے علاوہ نظریہ پاکستان ہو یا نظریہ اسلام جمعیت کے نوجوان آج تک بنگلہ دیش میں اپنا لہو پیش کر رہے ہیں۔اس وقت اگر کوئی طلبہ تنظیم اپنے بنیادی وجود کے ساتھ قائم ہے تو وہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی ہے اور باقی تمام تنظیمیں مختلف سیاسی اشافیہ کی پراپرٹی ہیں۔اللہ سید مودودی کی قبر کو نور سے منور فرمائے کہ اس نے جمعیت جیسی طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔جمعیت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے طلبہ یونین کی بحالی کے لئے قدم اٹھایا ہے ۔ملک بھر میں تعلیمی کنونشنز کا انعقاد کر کے آج کی نوجوان نسل کو ایک نیا پیغام دیا ہے اور شعور بخشا ہے۔اس پوری کمپین میں جمعیت کا بنیادی سلوگن صرف اور صرف سٹوڈینٹس یونین کی بحالی تھا۔
اس لئے طلبہ سے ہمدردی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ قرارداد کے بجائے قانون سازی کا راستہ اختیار کریں۔اللہ سے دعا ہے کہ طلبہ یونین بحال ہو اور ملک کے ایوانوں میں ہر طبقے کی نمائندی حاصل ہو اور ملک ترقی کی راہ گامزن ہو۔