ہوم << برونو اور پراگ- شعیب محمد خان

برونو اور پراگ- شعیب محمد خان

برونو سے گذرتے گذرتے ہمیں ایک خوبصورت قلعہ نظر آیا، ڈھلتے سورج کی روشنی میں نیلگوں آسماں کے سامنے، سفید پہاڑی پتھروں سے بنا یہ قلعہ کچھ زیادہ ہی من بھا گیا، لہذا 'بادشاہ بھائی' کو فٹا فٹ گاڑی روکنے کا کہا، تصویر بنائی ۔۔۔ اور گرررر سے چل دئیے۔
ہمیں نہیں معلوم تھا کہ بورنو چھوڑ کر اگرچہ ہم ایک مشہور شہر چھوڑے جارہے ہیں، لیکن ادھر پراگ میں ایک دلکش و دلنشیں محفل ہمارا انتظار کر رہی ہے۔

شام قریبا" آٹھ بجے کے قریب پراگ شہر میں داخل ہوئے۔ سارا شہر جیسے روشنیوں سے نہایا ہوا تھا، شہر کو جگہ جگہ کرسمس اور نیو ائیر کی مناسبت سے سجایا گیا تھا۔
پراگ شہر پہنچ کر بہترین ترکی شوربہ اعر نان سے تواضع کی۔ یہاں اکثر جگہوں پر ترک نژاد مسلمانوں کے کاروبار موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک رستوراں سلطان کباب کے لذیذ اور پرتکلف کھانوں سے ہم نے پاپی پیٹ کی آگ کو بجھایا۔
نہایت عمدہ گوشت، ساتھ میں آلو اور دیگر سبزیاں، نہایت پتلے شوربے میں تیرتی ہوئی نان سے کھانے میں جیسے کھوئی ہوئی دولت مل جائے، ایسا مزہ۔ کم لوگ اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ سفر میں ہمیشہ سہل کھانا ہی بہتر رہتا ہے۔
کھانے سے فارغ ہوکر ہم نے شہر کو پھرولنے اور ٹٹولنے کے بارے میں سوچا۔ اگرچہ کیتھولک کرسمس گذرچکا تھا، لیکن روسی کیلنڈر کہ اعتبار سے پانچ، چھے اور سات جنوری کو آنے والے کرسمس کیلئیے شھر میں بھرپور تیاریاں کی گئی تھیں۔ جگہ جگہ روشنیوں کا اہتمام، موسیقی اور شھر کے بیچوں بیچ کرسمس مارکیٹ بھی سجائی گئی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ مسجد قاسم صرف پشاور میں ہی ہے، یہاں آکر معلوم ہوا کہ غیر مذہب میں بھی مسجد قاسم سند کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔

تاریخ کہ قلم سے نکھرے ہوئے اس شہر پراگ کی رونقیں، کیا بات ہے جگہ جگہ تاریخی عمارتیں، مینار، ستون، محرابیں نظر آتی ہیں۔ کوئی گرجا گھر، کہیں پرانا ٹاون ہال، تو کہیں منفرد نظر آتے نقوش سے سجے ہوئے بازار۔ موسم کا اثر کہیے یا تقریب کا موقعہ، پراگ جیسے سرد راتوں میں چمکتے دمکتے چاند کی طرح روشن نظر آرہا تھا۔ کہنے کو تو ہم ویانا سے آرہے تھے، لیکن تقریب کرسمس کا جوش و خروش جیسا پراگ میں نظر آیا ویسا ویانا میں بھی نہیں تھا۔ لمحہ بھر کو احساس ہوتا ہے کہ آپ وقت میں سفر کر کے پچھلے دور میں آگئے ہوں، یہ اور بات ہے کہ ان پرانی عمارتوں کی درستگی اور صفائی ستھرائی پر حکومت و عوام خاص توجہ دیتی ہے۔ تصویریں تو بیش بہا بنائیں لیکن اس خیال کے ساتھ کہ رات کو سونا بھی ہے ہم پرانے صدر سے چالز برج تک پیدل گھومتے گھماتے آئے، اور قریباً بارہ بجے ہاسٹل کی راہ لی۔
ہمارے بادشاہ بھائی، ماشاء اللہ گاڑی ایسے چلاتے ہیں جیسے کالج کہ دنوں میں موٹرسائیکل چلایا کرتے تھے، لہذا سونے کا سوال 'کلمہ شھادت' پڑھ کر ہی پیدا ہوتا ہے۔ہاسٹل واپس پہنچے تو نئیں پسوڑی پڑ گئی، گاڑی کہاں کھڑی کریں؟ کہ پراگ میں ٹورسٹ بے انتہا ہیں اور اسی حساب سے پارکنگ کا 'لوچا' بھی کافی ہے۔ ہمارے ریسیپشنسٹ کشن صاحب نے بتایا کہ ہوٹل کی کنٹریکٹ پارکنگ ایک جگہ لگ بھگ ایک آدھ کلومیٹر دور ہے، بہتر ہوگا کہ آپ وہاں گاڑی کھڑی کر آئیں، ہم نے اس صلاح کو غنیمت جانا اور خون جماتی ہوئی سردی میں بھی ایک کلومیٹر چلنا گوارہ کرلیا۔ یہ اور بات کہ ہمیں بعد میں پارکنگ کا توڑ مل گیا لیکن جب تک ہم دو ڈھائی سو کرونر ڈھیلے کر چکے تھے۔

کیا دن گذرا۔ خوبصورت، برق رفتار اور ایونٹ فل۔

کہانیاں تو کافی ہیں ذہن میں، لیکن نیند آنکھیں بوجھل کر رہی ہے۔

اللہ نیکی دے اس خراٹے باز کو، جس کی بدولت کم از کم میں تو جاگ رہا ہوں۔ اوروں کا علم نہیں۔