اس وقت جب کہ ملک میں اقتصادی اور معاشی عدمِ استحکام نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے عوام میں فکری انتشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے اس عظیم مملکت کی معیشت تباہ ہوئی، کیسے اس ملک کو قرضوں میں جکڑدیا گیا اور ان قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہوئی؟
ملکی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس قوم نے کشکول کیوں ہاتھ میں ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے ان سہولیات اور مراعات کے لیے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا، تاکہ حکومتی اخراجات پورے ہوسکیں۔ عوام کی فلاح اور بہبود کے نام پر لی گئی امداد اور قرض کو ’’اوپر کی آمدنی‘‘ سمجھ کر حکمران طبقہ پھلنے اور پھولنے لگا۔ اس نے خود کو مراعات یافتہ بنالیا اور اور اپنے آپ کو اَن گنت سہولیات دے ڈالیں۔ عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری سے عوام پر یشان ہیں، یہ سراسر بے انصافی ہے، جس کی بنا پر ملک میں سیاسی افراتفری، غیریقینی صورت حال، عدمِ تحفظ، عدمِ استحکام اور انتشار عروج پر ہے۔
بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام معاملات اور واقعات کے پیچھے بین الاقوامی سازش، عالمی منافع خوری، یہودی سٹے بازوں اور ملک دشمن عناصر کی چال ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے اور مسلمانوں کی عزت وناموس خاک میں مل جائے۔ اس معاشی اور اقتصادی بحرانی صورت حال سے نکلنے کے لیے بلاتفریق ہم سب کو مروجہ سودی نظام معیشت کے مضمرات، سے آگاہ ہونا اور اسکے تدارک کے لیے یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔
نظام معاشیات کیا ہے؟
علم معاشیات سے مراد وہ سائنس ہے جو تبادلے سے متعلق قوانین کو کنٹرول کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ قوانین بنانے والے لین دین اور دولت کی منتقلی پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
Economics is the Science which treats of the Laws which govern the Relations of Exchangeable Quantities (Exchangeable Quantities means wealth).[1]
قانون حقوق متعین کرتا ہے۔ معاشیات حقوق کا تبادلہ طے کرتی ہے۔
Law is the Science of Rights. Economics is the Science of the Exchanges of Rights
اسلام کوئی ایسا مذہب یا عقائد کا نظام نہیں ہے جو کاروبار کے خلاف ہے۔ اسلام کے اخلاقی اصول کسی کو تجارت کرنے سے نہیں روکتے۔ خود حضرت محمدﷺ کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا۔ اسلام آزادانہ کاروبار، نجی ملکیت اور دولت کے حصول کا دفاع بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دوم: مسلم دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی انہونی چیز یا نئی اختراع نہیں ہے۔ مسلمان تو صرف کاروباری روایات اور طریقہ کار کو اپنی کمیونٹی کے لیے موزوں بنا رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے کاروباری شعبے کی ترقی سب کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ یہ سماج کو ترقی دینے، دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم کے ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بلکہ جب مغرب اور مسلمانوں کے درمیان میں تعلقات اتنے اچھے نہ تھے .جتناکہ وہ ہو سکتے تھے تو ایسے میں دونوں کے درمیان میں پُل کا کام بھی دیتا ہے۔ مسلم کولا، جینز یا کاروں کی تیاری اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ مسلمان ان اشیاء سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مغرب کے صنعتی سماج میں تیار ہو رہی تھیں۔
چنانچہ مسلم کامرس کے ابھرنے کو کسی طرح کی رکاوٹ نہیں سمجھناچاہیے بلکہ اس سے دنیا بھر کے کاروباری طبقوں کوایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک ایسی صارف منڈی دریافت کرنے، اسے ترقی دینے اور اس میں کام کرنے کے کاروباری امکانات اور مواقع میسر آئیں گے جو اپنے اقتصادی مقام اورموقع سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔ ریاستہائے مدینہ کا معاشی نظام ہمارے لئے رول ماڈل ہے جس کی داغ بیل آنحضرتﷺ نے ڈالی اور جس کے ثمرات دنیا نے دیکھے کہ حضرت عمر بن عبدلعزیز رضی اللہ کے دور میں کوئی سائل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
اسلام کے معاشی نظام کی خصوصیات درج ذیل ہیں :
1۔ وہ تمام مسائل جن پر انسان کا معاشی انحصار ہے سب اﷲ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کی تخلیق ہیں۔
قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے :
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.
’’جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 284
2۔ خالق کائنات، رازقِ کائنات بھی وہی ہے جو تمام مخلوقات کو رزق دیتا ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے :
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اﷲِ رِزْقُهَا.
’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔‘‘
هود، 11 : 6
۔ اسلام کا معاشی نظام انفرادی حق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ اس میں کچھ حدود و قیود لگائی گئی ہیں لیکن انسان کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا گیا۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ.
’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔‘‘
البقرة، 2 : 267
4۔ اسلام حق معیشت میں مساوات کا قائل ہے۔ اسباب معیشت میں ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا مساوی حق فراہم کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَO
’’اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے
اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo‘‘
الاعراف، 7 : 10
5۔ جس طرح اسلام حقِ معیشت میں مساوات کا داعی ہے اور ہر انسان کو اﷲ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسبابِ معشیت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درجاتِ معیشت میں تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی اسلام میں معاشی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ذی روح کو دنیا میں رہنے کا حق حاصل ہو، محنت اور ترقی کے راستے سب کے لئے ہوں اور وہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس کا فیصلہ اس کی محنت، قابلیت اور کام کرنے کی صلاحیت پر رکھا گیا ہے جتنا وہ کام کرے گا۔
تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں مدینے کا معاشی نظام۔ خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد نبوی ﷺ "اللہ تعالی نے فیصلہ فرمادیا کہ کوئی سود نہیں سب سے پہلے جس رباء کو میں کالعدم قرار دیتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاہے وہ سب معاف ہے "(ضیاء النبی جلد ۴ص۷۵۳)
آنحضرتﷺ نے ریاستہائے مدینہ میں عقد ذمہ کرنے والوں کو باہمی سودی لین دین سے منع فرمایا (از امام سرخسی کتاب المبسوط جلد ۴باب :۷۲صرف ( نجران کے نصاریٰ کو آنحضرتﷺ نے خط لکھوایا جو سودی کاروبار کریں انکے اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوگا " جو ریاست بھی رباء کھائے اس سے ہماری ذمہ داری ساقط ہے (کتاب الخراج لابی یوسف ابوداؤد ۲۶۴۴)
اسلامی ریاست کے مسلم و غیرمسلم شہریوں کے درمیان سودی لین دین کی ممانعت کی گئ تھی اور مسلم و مسلم شہریوں کے درمیان بھی۔ کیونکہ دوسری آسمانی شرائع میں بھی سود کی حرمت تھی امام سرخسی شرح السیر الکبیر جلد) ۴ص۱۵۴۷,۱۴۵۶(
مدینہ طیبہ کی معاشی پالیسیوں کی یہ حکمت معاشرے میں طبقاتی کشمکش کا خاتمہ، حب المال کی مذمت، باہمی اخوت و تعاون کی فضا پیدا کرتی ہے دیگر محرمات کے علاوہ سودی نظام کا ضرر معاشرے میں اقتصادی و معاشرتی اعتبار سے گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ.
’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)۔‘‘
النحل، 16 : 71
اس کے پس منظر میں اس آیت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ جہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)o‘‘
النجم، 53 : 39
مذکورہ بالا اساسی تصورات کے ساتھ اسلام نے معاشیات کے میدان میں اخلاقی اقدار کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں تقویٰ، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات اہم ہیں۔ ان کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے
مروجہ نظام سود
سودکو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔
شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔" جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سےباز آجائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے.
تبصرہ لکھیے