ہوم << نظر تیری بری، پردہ میں کروں؟ مدیحی عدن

نظر تیری بری، پردہ میں کروں؟ مدیحی عدن

مدیحہ اکرمزندگی میں کچھ جملے انسان کو حیران کردیتے ہیں، یہ جملے ایسی کشمکش میں مبتلا کردیتے ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ بات صحیح کی جا رہی ہے یا غلط یا پھر ہوسکتا ہے کہ میری سوچ اور رائے ہی غلط ہو، اور پھر وہ اپنی سوچ پر نظرثانی کرتا ہے، کچھ ایسی ہی کیفیت میری ہوئی جب میں نے یہ جملہ سوشل میڈیا پر پڑھا۔
گذشتہ کئی ماہ سے بھارت میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، بلکہ معاملہ تو یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ریپ سے بچنے کے لیے مخصوص کپڑوں کو مارکیٹ میں متعارف کروانے پڑ گئے۔ بھارت کو ایسا ملک کہا جانے لگا ہے، جہاں عورت کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے۔ جس پر ایک مذہبی پیشوا پنڈت کی نصیحت بھی سننے کو ملی کہ اگر ہندو عورتیں بھی خود کو ڈھانپ کر رکھیں جیسے کہ مذہبِ اسلام ترغیب دیتا ہے، تو بہت حد تک ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد مختلف طبقات سے طرح طرح کے ردِعمل سامنے آنا شروع ہوگئے، جس میں سے ایک یہ بھی تھا۔
’’نظر تیری بری، پردہ میں کروں؟‘‘
آج کا انسان، ہر چیز کو عقل کے پیمانے پر ماپنے کی کوشش کرتا ہے، ہر بات میں حقائق اور شواہد کو ایک طرف رکھ کر وہ بس سوچنا چاہتا ہے یا سوچتا ہے، جو اس کی عقل اسے سمجھا رہی ہوتی ہے۔ اب اگر ایک اور حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو سائنس اور تحقیق یہ کہتی ہے مرد جس طرح سے خواتین کو دیکھتے ہیں، خواتین اس طرح سے مرد کو نہیں دیکھتیں۔
ایک مشاہدہ کیا گیا ہے، جس میں نیم عریاں تصاویر مرد اور خواتین دونوں کو دکھائی گئیں، ایک ہی طرح کی تصویریں دیکھ کر مرد وعورت کی مختلف رائے سامنے آئی۔ اگر ایک خاتون کسی دوسری خاتون کو دیکھتی ہے جو خود کو صحیح طرح سے ڈھانپ کر نہیں رکھتی تو وہ اس کی جسامت سے خود کا موازنہ کرتی ہے، جیسے کہ یہ تو میرے سے کمزور ہے، میں اس کے مقابلے میں فربہ ہوں، لیکن اگر اس کے برعکس کسی مرد کی نظر ایسی خاتون پر جاتی ہے تو مرد کی فطرت یہ سمجھتی ہے کہ یہ میرے لئے ہے اور فوراً اس کی تعریف کردیتا ہے۔ وہ مرد اصل میں اسے اپنے دل لبھانے کی شے سمجھتا ہے، جب کہ ایسا خواتین کے ساتھ نہیں ہوتا۔
یہ بات دراصل فطرت کی ہے، یہاں ہمیں اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر فطرت کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں خواہشات مرد اور عورت کی فطرت پر مبنی ہیں، یہ مقابلہ کی جنگ نہیں ہے، کہ میں بھی وہی کروں گی جو تم کرو گے۔ دراصل یہ جنگ خود کو بیوقوف بنا کر فطرت کے خلاف لڑی جارہی ہے لیکن کب تک؟ آخر کب تک؟ آخر کار فطرت ہی غالب آکر رہے گی اور اس مقابلے میں بھی رہے گی، مقابلہ ہمیشہ ایک جیسی چیزوں میں ہوتا ہے، دو مختلف انواع کی چیزوں میں موازنہ تو ہوسکتا ہے لیکن مقابلہ نہیں ہوسکتا اور میری بات میں وزن جدید زمانے کی سائنس اور تحقیق پیدا کر رہی ہے۔
اپنی عقل کا استعمال اپنی باتوں میں نہیں مشاہدات میں کریں!

Comments

Click here to post a comment