ہوم << اقبال جسے قوم بھول رہی ہے - نجم الدین ہمدانی

اقبال جسے قوم بھول رہی ہے - نجم الدین ہمدانی

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے کئی پہلووں اور جہتوں پر محیط ہیں۔وہ ایک مدبر و مفکر ہونے کے ساتھ علامہ و شاعر بھی تھے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر آپ ایک حقیقت شناس اور دور اندیش انسان تھے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ خوبیاں بالمجموعہ کلامِ اقبال سے متعین ہوتی ہیں۔ آپ کی انہی حقیقت شناشیوں اور تفکیرِمستقبل کو عصر حاضر میں بالخصوص نئے اور جدید زاوئے سے واضح کرنے کی احتیاج و ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔حکیم الامت کی شخصیت وافکار اور ان کی فاضلانہ شاعری پر جب بھی گفتگو کوئی کرے یا ان سے متعلق کوئی خیال صفحہ قرطاس پر منتقل کرے، فقط محبت اور عشق کا زور غالب رہتا ہے نہ کہ عملیت پسندی کا۔

اقبال کے افکار کی ابتدائی دور سے لے کر پاکستان کا صفحہ ہستی پہ وجود میں آنے تک ، اقبال کے چاہنے والوں میں فقط محبت اور عشق کا غلبہ نہ تھا بلکہ وہ لوگ عمل کے میدان کے شہسوار بھی تھے۔مگر پاکستان بننے کے بعد سے آج تک یہ افکار و اشعار محض تقریروں اور تحریروں کا حصہ بنی ہوئی ہیں یا تقریب رونمائی و سیاسی جلسہ میں صرف اظہار جوش کے لیے اشعار اقبال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ البتہ عملی میدان میں قدم رکھنا ہماری ذمہ داری نہیں، بات یہاں ختم ہوتی ہے!

زہے افسوس، کیا اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے محظ عشق و محبت کی تعلیم دی ہے یا اس کے ساتھ ساتھ عمل کی ترغیب بھی دی ہے۔ آپ کے ان افکار ماضیہ اور افکار مستقبلہ کو جب تک حقیقی روح کے ساتھ عملیت میں نہ ڈ ا لیں ، اس وقت تک آپ کے خواب خوابیدہ حالت میں پڑی رہیں گی۔ اور جس تبدیلی اور انقلاب کی ضرورت موجودہ عصر میں ہے شاید وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچے۔ اسی عمل سے انساں کے ٹھکاںوں کے فیصلے ہوتے ہیں بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:

ع عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں عملِ خیر کو اطاعت الہی اور اطاعت رسول ﷺ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ حیات انسانی کے جملہ مسائل کا حل عمل سے متعلق ہیں ۔ جب تک خیالی محبت و عشق کی دنیا سے خروج کر کے عمل کی وادی میں داخل نہ ہوں ، مسائل موجودہ اور مشکلات مستقبلہ کا عملی حل پیش کرنا بقدر مشکل ہے۔ اس کی قوی دلیل کلام اللہ میں میسر ہے ، کہ جہاں بھی ایمان کا ذکر آیا عمل صالح کو اس کے ساتھ بیاں کیا۔ ملاحظہ ہو سورۃ العصر۔

اختلاف اس امر سے نہیں کہ محبت و عشق ضروری ہے، مگر یہ کہ یہ دونوں حقیقتیں کچھ عملی تقاضے رکھتی ہیں جن کو بروئے کار لانا ضروری ہیں۔ اسلام بھی اس طریقہ اور عمل کو بہتر قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی دعوی محبت کرے تو یہ اس کا لازمی جز (co-relative) ہے کہ دعوی محبت کا اظہار اس کے عمل سے متعن ہو۔

حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ کا نار نمرود میں کود جانا تکمیل عشق بذریعہ عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ اقبالیات پہ آج تک بہت سے صفحات پہ سیاہی پھیری گئ ہیں لیکن جس انقلاب کا علامہ اقبال بعد کی نسلوں میں ظہور چاہتے تھے ابھی پایہ تکمیل و تعمیر تک پہنچنا باقی ہے۔ ہمارے طبقہ علم و دانش بالخصوص اور طبقہ عوام کسی حد تک اقبالیات سے متعارف ہونے کے باوجود میدان عمل میں جز بز تک نہیں ہوئیں۔

ضرورت امر یہ ہے کہ اقبالیات کو جدید میدانوں و شعبوں اور موجودہ عصر کے تقاضوں کے مطابق نئے طرز سے سمجھا اور سمجھایا جائے، جس طرح علامہ محمد اقبال اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تمنا تھی کہ:

The reconstruction of religious thought in Islam

پہ طرز جدید سے کام ہو اسی طرح The reconstruction and re-expounding of Iqbal's philosophy and poetry پہ نئے انداز سے تشریح کی احتیاج ہے( لگتا ہے یہ مشکل اور شاید خیالی بات ہو)۔ لیکن اس کے عملی فائدے معاشرے اور قوم میں دیکھے جا سکیں اس کے لیے شاید اس کی ضرورت ہو تاکہ ہمیں اپنی زوالی حالت کے بدلنے کا احساس ہو اور نئی نسل میں جو خودی اور روح اقبال پیدا کرنا چاہتے تھے اس کے اثرات واضح ہوں۔

اس کےلیے پہلے ہمیں اپنی موجودہ حالت کو بدلنے اور نئے عزم سے معاشرے کی تکمیل کے کوشاں ہونا پڑے گا جیسے قرآن میں بیاں ہوا ہے: ان الله لايغیر ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم (الرعد :11) یعنی،

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اور ساتھ ہی ہمیں دونوں میادیںِ عمل اور محبت و عشق میں شہسوار بنے بغیر موجودہ حالات کو بدلنے اور مثبت تبدیلی لانے کا خیال فقط خیال ہی رہے گا۔ایک وقت ایسا تھا کہ قومی مجلسیں فکر اقبال کے تذکرہ سے خالی نہیں رہتی تھیں، بچے ، جوان ، بوڑھے ، مرد اور عورت سبھی اقبال کے اشعار سے اپنی روح اور عقل کو تازگی دیتے تھے ، لیکن آج کل کے ایام میں اقبال کی پیدائش پر سواے، سکولوں، کاموں اور ادراوں سے چھٹی ہونے کے علاوہ اور کوئی معلومات اور خبریں نہیں ۔

لہذا ایک نئے زاویہ اور فکر سے آج اقبال کے کلام کو مزید عام فہم کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر طالبہ اور طالبات کے لیے بہت سلیس زباں (انگریزی اور اردو ) میں اقبال کے اشعار کی تشریحات پڑھانی اور سمجھانی چاہیں ۔ تاکہ نسل نو میں اقبال آگاہی عام ہو سکے ۔ اللہ تعالیٰ علامہ مرحوم کے درجات کو بلند کرۓ اور ان کی مرقد پر رحمتوں کی بارش کرے۔

Comments

Click here to post a comment