ایک قانونی مسئلہ جس کی جانب میں ہی نشاندہی کرچکا ہوں اب سر اٹھاتا نظر آرہا ہے اور وہ یہ کہ جس سینیئر ترین جنرل کو نون لیگ آرمی چیف لگانا چاہ رہی ہے وہ چونکہ بلحاظ عمر آرمی چیف سے دو روز پہلے ہی ریٹائر ہوچکے ہوں گے.
چنانچہ انکی متعین کردہ تعریف پہ عاصم منیر کے بجائے ساحر شمشاد پورے اترپائیں گے ورنہ عاصم منیر صاحب کو آرمی چیف بننے دینے کے لئے باجوہ صاحب کو کم ازکم دو روزپہلے از خود ریٹائر ہونا ہوگا ( کیونکہ وہ تین برس کی میعادی پوسٹ سے وقت سے پہلے ہٹائے نہیں جاسکتے ) تاکہ عاصم منیر کو ان کے منصب پہ بٹھایا جاسکے ورنہ ایک ریٹائر شدہ آدمی کو تو کوئی بھی ترقی نہیں دی جاسکتی اور اس ضمن میں باجوہ صاحب کو پہلے ریٹائر ہونے پہ تو مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا تاہم اگر وہ اس 'عظیم تعاؤن' کی کوئی بڑی قیمت طلب کرلیں تو پھر اسے چکائے بغیر اس منصوبے پہ عمل بھی قطعی ممکن نہیں۔ لیکن اسی دقت ہی کو آصف زرداری نے ایک موقع جانا ہے اور وہ ایک نئی چال کو لے کر سامنے آئے ہیں.
جو لوگ آصف زرداری کی سوچ کو سمجھتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ آصف زرداری کا طرز سیاست اس کتی کی مانند ہے کہ جو ایک طرف تو چوروں سے بھی مل جاتی ہے اوردوسری طرف اپنے مالک کو ان سےخوب ڈرا ڈرا کے اپنے لیئے زیادہ سے زیادہ راتب ڈالنے پہ بھی مجبور کرتی رہتی ہے تاکہ چوروںکا مقابلہ کرنے کے لئے وہ زیادہ توانا اور مستعد رہ سکے ۔ زرداری سیاست کا معروف رنگ اور انداز یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پلیٹ بھرنے کے لئےاً دوسرے کا بھرا پتیلہ اپنی پلیٹ پہ پلٹ دینے کے امکانات تلاش کرتے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی جھٹ پٹ الٹ بھی دیتے ہیں ۔
ایک ایسا ہی موقع انہیں ابھی ہاتھ آگیا ہے کیونکہ انہوں نے دوروزپہلے اچانک ہی یہ رپھڑ ڈال دیا ہے کہ نئے آرمی چیف کے معاملے پہ وزیراعظم اکیلے فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں اور اس کے لیئے اتحادیوںکی منظوری لی جانی بہت ضروری ہے کیونکہ وہ انکو وزیراعظم بنائے رکھنے کی اہم قؤت ہیں ، زرداری صاحب یہ سب ایسے ہی شغل میلہ لگاکے میڈیا کؤریج لینے یا کمپنی کی مشہوری کے لئے نہیں کررہے ۔ اندرخانے وہ پی ٹی آئی کے ناکام لانگ مارچ کے ڈراوے کو بڑھاوے دے رہے ہیں جس کی بدولت انکی پوری کوشش ہے کہ گھبرائے ہوئے افسران کی گھبراہٹ کا پورا پورا فائدہ اٹھالیں اور سینیاریٹی میں کئی درجے نیچے موجود اپنے ایک ایسے دوست جنرل کو آرمی چیف لگوادیا جائے جو کہ انکے دور صدارت میں انکے ملٹری سیکریٹری رہ چکے ہیں اور مزاجاً بھی انکے بیحد قریب بلکہ عنقریب سمجھے جاتےہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ایک جنرل کا سی وی انکے ہاتھوں ہے تو دوسری طرف انہوں نے ایک اورمتبادل جنرل کا سی وی بھی اپنی نچلی جیب میں سینت رکھا ہوا ہے - من پسند تقرری کے لیئے انکی اچانک اینٹری کا مقصد بہت واضح ہے کہ اگر ایسا ہوسکا تو اس کے نتیجے میں وہ مستقبل کے منظرنامے میں بڑی سہولت سے اپی مرضی کے رنگ بھرتے بھرواتے رہیںگے ۔ ویسے تو وہ پی ڈیم کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال ہی کرتے چلے آرہے ہیں.
لیکن اگر انہیں روکا نہ گیا تو اس بار وہ اس سیاسی کٹم خاص طور پہ نون لیگ کے کندھے پہ بندوق رکھ کے فوج کو بیک فٹ پہ لے جانے اور اپنے تمام ناآسودہ خوابوں کی تکمیل یقینی بنانے کے خاطر وہ اپنے اتحادیوں کی طرف پیٹھ کرکے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں - اس بلیک میلنگ سے بچنے اور صورتحال کو بگڑنے سے بچانے کی بڑی ذمہ داری باجوہ صاحب پہ آن پڑی ہے کیونکہ اگر وہ ازخود 3-4 روز قبل گھر چلے جائیں اور جانے سے قبل اپنے متبادل کا اعلان کروادیں تو پھر خواہ پی ٹی آئی ہو یا زرداری فیکٹر ، دونوںکے عزائم کو باآسانی ناکام کیا جاسکتا ہے
تبصرہ لکھیے