ہوم << دکھ وہ جو مجھے پہنچے - حبیب الرحمن

دکھ وہ جو مجھے پہنچے - حبیب الرحمن

سنتے تو ہمیشہ یہی آئے تھے کہ انگریز وقت آنے سے کہیں پہلے سوچ لیتے ہیں، مسلمان اس وقت سوچتے ہیں جب سر پر آن پڑے اور سکھ ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا لیکن اب معاملات الٹ پلٹ کر رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ دنیا کی ہر قوم وقت آنے سے کہیں پہلے سوچنے کی صلاحیتیں حاصل کر چکی ہے جبکہ مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ وقت گزر جانے کی بات بھی بہت پیچھے چھوڑ کر سوچنے سمجھنے کی الجھنوں سے ہی اپنے آپ کو آزاد کرا بیٹھے ہیں۔

کل جو کچھ ہوا وہ کسی کافر ملک میں کسی مسلمان کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ایک ایسا ملک جس کے نام سے پہلے اسلامی اور جمہوریہ کا لاحقہ لگانے کے بعد بڑے ادب اور احترام کے ساتھ "پاکستان" لکھا جاتا ہے، وہاں ہوا۔ اسلام اور جمہوریت کے علمبرداروں کے درمیان "جمہوری" جہاد کرنے والوں پر اہل کفارِ جمہور نے حملہ کر کے غازیانِ جمہوریت کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے کیلئے ان پر گولیاں برسا دیں جس کے نتیجے میں سالارِ مجاہدینِ آزادی سمیت کئی غازی زخمی ہو گئے جس کے بعد ایک بھگدڑ مچ گئی۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہو رہا جس پر بہت سنجیدگی سے تبصرہ آرائی کی جائے۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس کی فہرست میں اب عمران خان بھی شامل ہو چکے ہیں۔ "کوئی" ہے جو نہیں چاہتا کہ اس کی راہوں میں کسی قسم کی رکاوٹ آئے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی بھی طریقہ کار ہو، ہر رکاوٹ کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔

واقعے کے فوراً بعد حسبِ سابق ہر چینل اپنے اپنے تبصروں اور تجزیوں کے گھوڑے دوڑانے لگا۔ ایسے میں سماجی ویب سائیڈیں کہاں خاموش رہ سکتی تھیں۔ پاکستان کا ہر چینل اگر اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے واقعے پر روشنی ڈال رہا تھا تو عوام الناس سماجی ویب سائیڈ پر تبصرہ آرائی فرمارہے تھے۔ کہا گیا کہ جس کو آگے بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں ہوتا اسے راہ سے ہٹانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔ جو بھی افراد، اینکرز، تجزیہ نگار یا صحافی حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ جب کسی کو آگے بڑھنے سے روکا نہ جا سکتا ہو تو پھر ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ اسے زمین میں ہی گاڑ دیا جائے، وہ میری رائے کے نزدیک تر ہیں لیکن میں ان سب سے صرف یہ سوال کرونگا کہ کیا ایسا صرف عمران خان کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ لیاقت علی کی شہادت، شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دینے کے بعد پورے بنگال میں لاشوں کے ڈھیر لگانے کے بعد اس خطے کو پاکستان سے جدا کر دینے کا واقعہ، ذولفقار علی بھٹو کا سولی پر لٹکا دینا، جنیجو کو وزارت عظمیٰ دینے کے بعد خود ہی راستے سے ہٹا دینا، بے نظیر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کرا دینا، خان کو لانے کیلئے پی پی پی اور ن لیگ کیلئے مسائل کے انبار کھڑے کر کے الیکشن سے کسی نہ کسی انداز میں دور رکھنا اور کراچی کی نشستیں حاصل کرنے کیلئے ایم کیو ایم کا جنازہ نکال دینا، کیا یہ سب "رکاوٹوں" کو درمیان سے ہٹا دینا والے اقدامات نہیں تھے۔

اسٹبلشمنٹ کے خلاف آج تک سب سے زور دار اور بھر پور آواز اگر اٹھائی گئی تو وہ سندھ کی دوسری بڑی اور پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما کی جانب سے اٹھائی گئی۔ لیکن اس کی اٹھائی گئی آواز کے ساتھ آواز ملا کر "حقیقی" آزادی حاصل کرنے کی بجائے اس آواز کی اتنی شدت کے ساتھ مخالفت کی گئی کہ پارٹی تو پارٹی، تمام اردو بولنے والی آبادی کو پاکستان میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا گیا۔ چالیس پینتالیس سال قبل جو آواز پاکستان کی سب سے کمزور آبادی والوں نے بلند کی تھی آج پورا پاکستان مجبور ہے کہ اسی آواز کو پہلے سے اٹھنے والی آواز سے ہزار گنا شدت سے اٹھایا جائے۔ پہلے تو چند ہزار لوگ، وہ بھی کراچی و حیدرآباد کی حد تک آوازیں اٹھایا کرتے تھے اب عالم یہ ہے کہ لاکھوں کے مجمع میں نہایت غلیظ جملوں کے استعمال کے ساتھ وہی آواز اٹھائی جا رہی ہے اور وہ جو کراچی میں ایک سیٹی کی آواز پر اپنی بیرکوں سے باہر نکل کر یہ کہتے نظر آتے تھے کہ خبر دار اگر کوئی پٹرول پمپ بند ہوا، دکانوں کو تالا لگا، ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوا یا کار و بارِ زندگی متاثر کیا گیا تو اس کے خلاف بھر پور ایکشن لیا جائے گا، سب کے سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ گستاخوں (ان کی نظر میں) کے منہ بند کئے جائیں۔

کراچی کے مسائل اور اس کے ساتھ نا انصافیوں نے ایم کی ایم نے آواز اٹھائی تو کہا گیا کہ علاقائی عصبیت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی آج کراچی میں سب سے زیادہ سنی جانے والی آواز "کراچی کراچی" ہی ہے لیکن اب اسے کوئی گروہ، پارٹی یا عسکری طاقت علاقاعی عصبیت قرار نہیں دے رہی۔ مختصراً اگر میں یہ کہو کہ وہی باتیں جو ماضی قریب میں ملک دشمنی، عصبیت، دہشتگردی اور پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک خطرہ سمجھی جاتیں تھیں، آج طرہ امتیاز ہیں اور وہ ہاتھ جو ہمیشہ ایسی آوازوں کے گلے دبانے کیلئے بے چین رہا کرتے تھے ان پر لرزہ طاری ہے۔

آوازیں جس جانب سے بھی اٹھ رہی ہیں اور جو بھی اٹھا رہے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب ان آوازوں میں زور تو بہت ہے لیکن جس وقت سب کو مل کر ہر مظلومانہ آواز کو اپنی آواز سمجھنا چاہیے تھا اس کا وقت گزر چکا ہے۔ اگر مشرقی پاکستان جانے، بھٹو کو پھانسی، بے نظیر کی شہادت، میاں صاحب کی حکومت اور الطاف حسین کے خلاف محاذ کھڑا کئے جانے سے قبل، ظلم و جبر و نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھالی جاتی تو پاکستان بکھرنے سے بچ جاتا لیکن اب ممکن ہے کہ جو جو آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، وہ سب کی سب سن اور مان بھی لی جائیں تو شاید پاکستان کی ساری اکائیوں کو یکجا نہیں رکھا جا سکے۔

یاد رہے کہ دکھ صرف وہی نہیں ہوتا جو مجھے پہنچے، دکھ دکھ ہی ہوتا ہے خواہ کسی کو بھی پہنچے۔ اگر اس بات کو نہ سمجھا گیا تو جب دکھ کسی اور کو پہنچے گا تو میں مٹھائیاں بانٹونگا اور جب مجھے زخم لگیں گے تو دشمن مٹھئیاں بانٹیں گے۔ اب تک تو ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور مٹھائیاں بانٹنے کا یہ سلسلہ شاید ہی کسی مقام پر رک سکے۔

Comments

Click here to post a comment