ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (11) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (11) - شاہ فیصل ناصرؔ

جمعرات ٧ ذى الحج ١٤٤٠ھ۔ بمطابق 8 اگست 2019ء

صبح سویرے اٹھ کر نماز فجر مسجد محمد السبیل (محلے کی مسجد) میں ادا کرکے اشراق کے بعد بلڈنگ واپس ہوئے۔ ناشتہ کے بعد زندگی کے اس اہم مقصد کیلئے تیاری شروع کی جس کیلئے رخت سفر باندھ کر ہم آئے تھے یعنی”مناسک حج کی ادائیگی” جو کل یعنی ٨ ذى الحج سے شروع ہونے والی ہے۔ جس کیلئے ہمیں احرام میں منٰی عرفات اور مزدلفہ کے مقامات کو جاکر حج کے احکام ادا کرنے ہوں گے۔ اسلئے آج کا دن ہم نے سفر کی تیاری اور آرام کرنے اپنے بلڈنگ میں گزارا۔ یاد رہے کہ احکاماتِ حج، پورے سال میں صرف پانچ دنوں کے دوران ادا کئے جاتے ہیں۔ حج کے مخصوص اعمال کیلئے مخصوص مقامات اور مخصوص اوقات متعین ہیں۔

حج کی تعریف:

حج کی تعریف یوں ہے ”پانچ مخصوص مقامات پر، پانچ مخصوص دنوں میں، آٹھ مخصوص اعمال ادا کرنے کو ”حج” کہتے ہیں۔ حج کے پانچ مخصوص مقامات یہ ہیں۔

١)۔ بیت اللہ مسجدالحرام

٢)۔ صفا اور مروہ

٣)۔ منٰی

٤)۔ مزدلفہ اور

٥)۔عرفات۔

دنیا بھر میں ان پانچ مقامات کے علاوہ کسی بھی جگہ پر مناسک حج ادا نہیں ہوتے۔حج کے پانچ مخصوص ایام، اسلامی سال کے بارہویں مہینے ذی الحج کی آٹھ تاریخ سےلیکر بارہ تک ہیں۔(چھٹا دن اختیاری ہے)۔

آسانی کی خاطر یوں کہاجائے،کہ حج کے پانچ ایام عیدالاضحی (10 ذی الحج) کے دن، دو دن اس سے پہلے یعنی 8 اور 9 ذی الحجہ، اور دو دن عید کی بعد یعنی 11 اور 12 ذی الحجہ، ہیں ۔ ان پانچ دنوں کے علاوہ پورے سال حج ادا نہیں ہوتا۔حج کے آٹھ مخصوص اعمال یہ ہیں۔ ١)۔ احرام ٢)۔ منٰی میں قیام ٣)۔ وقوف عرفہ ٤) وقوف مزدلفہ ٥)۔ رمی جمرات ٦)۔ قربانی ٧)۔ حلق ٨)۔ طواف و سعی

آٹھ ذی الحجہ، حج کا پہلا دن ہوتا ہے جب حجاج کرام اپنی اپنی اقامت گاہوں سے احرام باندھ کر ”منٰی” کی جانب روانہ ہوکر حج کا آغاز کرتے ہیں۔ اس دن کو یوم الترویة یعنی جانوروں کو سیراب کرنے کا دن کہتے ہیں۔ اس دن لوگ اپنے اونٹوں کو پانی اور چارہ دے کر حج کیلئے تیار کرتے۔ آج کے دن حجاج کرام احرام اوڑھ کر سورج نکلنے کے بعد منٰی جاتے ہیں اور اگلے دن تک یہی قیام کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل آئیں رسول اللہ ﷺ کے حج کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے کس طرح حج ادا کیا تھا۔

رسول اللہﷺ کے حج کا آنکھوں دیکھا حال: رسول اللہ ﷺنے اپنی زندگی میں صرف ایک حج ادا کیا ہے جسے ”حجةالوداع” کہا جاتاہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین مکہ تشریف لائے۔ مکہ مکرمہ کی ریت پاکیزہ قدموں کو گلے لگا رہی تھی اور اس کے پہاڑ ایسے عظیم دلیروں پر فخر کر رہے تھے جنہوں نے اس کی بلندیوں سے ہاتھ ملایا ہے۔ آپﷺ دین کے نشانات کو بلند کرنے، توحید کے ستونوں کو مضبوط کرنے اور ایمان کے محلوں کو قائم کرنے کے بعد ایسے قافلے کے ساتھ حج کیلئے آرہے تھے کہ نہ دنیا نے اس کی نظیر اور نہ تاریخ نے اس کی مَثِیل دیکھی تھی۔

جزیرہ عرب کو نبی کریم ﷺ کے حج کے ارادہ کا علم ہوا تو اس نے اپنے جگر گوشوں کو آگے بڑھادیا، شوق انہیں آگے بڑھا رہاتھا، محبت انہیں کھینچ رہی تھی اور امید انہیں ابھار رہی تھی، ہر ایک اپنی آنکھوں کو اس حاجی کے دیدار سے ٹھنڈا کرنا چاہ رہاتھا، جس کے مِثل کسی نے بیت اللہ کا حج نہیں کیا تھا، اور سورج اس سے بہتر شخص پر کبھی طلوع نہیں ہوا تھا، وہ موحدین میں سب سے بہتر موحد، تلبیہ پکارنے والوں میں سب سے سچا تلبیہ پکارنے والا اور حج و عمرہ کرنے والوں میں سب سے پاکیزہ تھا۔

اللہ اللہ!کس قدر سعادت مند قافلہ، پاکیزہ وفداور عظیم مرتبت والی جماعت تھی، جو احرام پہن کر حج بیت اللہ کیلئے مکہ مکرمہ داخل ہورہی تھی۔ ذرا سوچئے اور اس عظمت والے نظارے کا خیال کیجئیے! کاش میں اور آپ بھی اس مبارک قافلے میں شامل ہوتے، نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر ان کے چہرہ انور کی خوبصورتیوں پر غور کرتے اور بے اختیار آپﷺ کی پیشانی کو بوسہ دیتے۔ آپﷺ کے یارِغار ابوبکرصدیق ؓ سے معانقہ کرتے، عدل و انصاف کے پیکر عمرفاروق ؓ سے مصافحہ کرتے، حیا اور سخا پر مُزیِّن عثمان ذی النورین ؓ سے گفتگو کرتے اور معرکہ حق و باطل میں جوہر دکھانے والے علی المرتضٰی ؓ سے ملتے۔

یہ ایک عظیم تمنا اور بہت بڑی خواہش ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہمیشہ موجزن رہتی ہے۔ اگرچہ دنیا میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، لیکن ان کے نقش قدم پر چل کر آخرت میں یہ نعمت ہمیں مل سکتی ہے، کیونکہ انسان کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہے۔۔

Comments

Click here to post a comment