ہوم << دورانِ ڈیوٹی جان سے جانے والے پاکستانی صحافی -حماد یونس

دورانِ ڈیوٹی جان سے جانے والے پاکستانی صحافی -حماد یونس

پاکستان ، آزادیِ صحافت کا علم بردار ملک ہے مگر یہاں صحافیوں کے لیے زندگی ہمیشہ انتہائی مشکل رہی ۔ حال ہی میں ، 6 دنوں میں دو صحافی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
ارشد شریف کا خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا کہ صدف نعیم کا لہو زمین کی زینت بن گیا۔
صحافت کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔ تاریخِ پاکستان ، قیامِ پاکستان اور تحفظِ پاکستان میں صحافیوں کا ایک ناقابلِ تردید موثر کردار ہے ۔ اس کے بارے میں واضح کہا جا سکتا ہے کہ صحافت پستی میں اتر کر قحبہ گری تک پہنچ سکتی ہے اور بلند ہوکر کارِ نبوت انجام دے سکتی ہے۔
یوں بھی صحافت ، دور سے خاصا جاذبِ نظر اور پر کشش پیشہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ خوبصورت لب و لہجہ اور اندازِ بیاں کے مالک پر جوش ، دمکتے ہوئے چہرے، کیمرہ اور مائیک تھامے ہوئے جب سامنے آئیں اور ملک کے مقبول ترین سیاست دانوں اور طاقتور ترین شخصیات کا عوامی جذبات کے عین مطابق احتساب کریں اور براہِ راست جواب طلب کریں تو یقیناً سبھی یہی محسوس کریں گے کہ شاید یہ سب نہایت پر سکون، مطمئن اور آسودہ حال ہیں ۔ مگر کیا حقیقت بھی یہی ہے؟
ارشد شریف کا قتل ، کینیا میں ، دیارِ غیر میں ہوا اور ابھی تک اس قتل کی تحقیقات بلیم گیم سے آگے نہیں بڑھیں۔
جبکہ صدف نعیم ؟؟؟
فیض احمد فیض نے کہا تھا
نہ مُدّعی ، نہ شہادت ، حِساب پاک ہُوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہُوا

سالانہ امپیوٹنی رپورٹ کے مطابق ، 2012 سے 2022 تک پاکستان کے 53 صحافیوں کو قتل کیا گیا ، جن میں سے صرف دو کو سزا ملی جبکہ باقیوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ۔
جبکہ یہ تو وہ صحافی تھے ، جن کو کسی دشمنی یا "مبینہ حدود سے تجاوز" کے نام پر قتل کیا گیا ۔
ولی خان بابر ، ڈاکٹر چشتی مجاہد ، ملک محمد اسماعیل خان وغیرہ سمیت بہت سے صحافیوں کو سچائی کی سزا سنائی گئی۔ گزشتہ تیس برس میں پاکستان کے 138 صحافی قتل کیے گئے ، اور پاکستان صحافیوں کے لیے چوتھا بد ترین ملک قرار دیا گیا یے۔ صرف عراق ، میکسیکو اور فلپائن پاکستان سے آگے ہیں ، جو حقیقتاً جرائم کے گڑھ ہیں (اور آپس کی بات ہے، کیا پاکستان جرائم کا گڑھ نہیں؟)
یہاں پر نجانے کتنے صحافی ایسے ہیں، جن کا قاتل اس معاشرے اور اس نظام کے علاوہ کوئی نہیں۔ وہ جن کو یہ خبر نہیں تھی کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ وہ جن کو تنخواہ وعدے کے با وجود نہ ملی ۔ جن کو ادارہ مالکان نے کام نکلوانے کے بعد بغیر اجرت ادا کیے فارغ کر دیا تو اس تاریک مستقبل میں موت کو گلے لگانے میں ہی واحد راہِ نجات نظر آئی۔

ارشد شریف کے قاتل ، شاید ہی سامنے آ سکیں ، کہ آج تک تو انصاف کی ایسی کوئی روایت شاید ہی نظر آئی ہو ۔ یہ سیاسی جنگیں، یہ میڈیا مالکان کی جھڑپیں ، یہ اداروں کی نورا کشتی ، اس میں براہِ راست خبر اور بِالواسطہ اپنے روزگار کے پیچھے بھاگتے ان سچائی کے متلاشی صحافیوں کا خونِ ناحق کیوں بہتا ہے؟؟؟ اور مجرم کیوں اپنی سزا تک نہیں پہنچتے؟
ساحر نے کہا تھا
"خون خود دیتا ہے جلّادوں کے مسکن کا سراغ"
مگر اس روز تک کیا خبر کی تلاش میں گھروں سے نکلنے والے، اپنا کام ترک کر دیں؟؟؟
مگر یہ بات تو واضح ہو ہی جانی چاہیے کہ جرنلزم کوئی فیشن یا کرزما نہیں بلکہ ایک جہاد ہے ، بقول اختر ملک،
یہ عاشقی ہے، یہاں پر جُنون لازم ہے
سکون چاہیے جس کو وہ اعتکاف کرے

صدف نعیم ، ارشد شریف ، ولی خان بابر یا دیگر تمام صحافی ، جو جان سے گئے ، ان کی آواز سنی نہ جا سکی ، اگر سننے کی کوشش کی جاتی تو یہ سب بھی زبانِ حال سے وہی پیغام دے رہے تھے جو George Floyd کا پیغام تھا ، کہ
we can't breathe۔

Comments

Click here to post a comment