ہوم << پاکستان میں اقتدار کی جنگ اور رسہ کشی-حمّاد یونس

پاکستان میں اقتدار کی جنگ اور رسہ کشی-حمّاد یونس

پاکستان میں سیاسی صورتحال ہمیشہ غیر معمولی اور نزاعی ہی رہی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی نظام غیر مستحکم ہی رہا ہے۔ مگر آج یہ صورت حال جس نہج پر پہنچ چکی ہے ، ویسا نازک دور شاید ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملا۔
اس صورت حال کے اسباب بے شمار ہیں ، جن پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے ۔

پہلا سبب ہے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا۔
پاکستانی سیاست دانوں نے اپنی زندگی کا مقصد ، حصولِ اقتدار بنا لیا ، اور سیاست کا یہی معنی عام کر دیا گیا کہ حصولِ اقتدار کی جنگ کا نام سیاست ہے۔
اس سلسلے میں ذاتی و خاندانی مفاد ہی ان کی پہلی ترجیح بن جاتا ہے ۔ ملکی مفادات کا تحفظ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چنانچہ جب ان پر کوئی مشکل وقت آئے تو یہ اس سے نکلنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ آزماتے ہوئے، اس بات کی قطعاً کوئی فکر نہیں کرتے کہ ملک یا قومی سلامتی کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چنانچہ یہ سیاست دان ایسی بات اور اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جو ملکی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ مثلاً آج کے حالات میں ، حساس ترین اور مؤقر اداروں پر جو سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ، کیا کسی سمت سے اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے؟؟؟ بھارتی نشریاتی اداروں اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کا رد عمل دیکھا جائے تو یہ بات مکمل واضح ہو جائے گی۔ ملکی دفاعی اداروں پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ کر کے انہیں عوام کی نظروں سے گرانے اور ملکی ہیروز سے ڈائریکٹ ملزمان کا درجہ دینے کا کیا نتیجہ ہو گا؟ ایک ملک کی عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف کرنے کا مطلب ملکی بنیادوں کو کھودنے اور کھوکھلا کرنے کے علاوہ کیا ہے ؟ جس دور میں بھارت آئے روز سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرتا رہے ، اس کے ابھی نندن جیسے ہوا باز طیارے لہرا رہے ہوں ، دوسری جانب باقی سرحدوں کے پار بھی کوئی بہت اچھا اور سازگار ماحول نہ ہو تو ایسے میں اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کو صبح وشام مشقِ سخن بنانا ، ان کا میڈیا ٹرائل کرنا ، مقبول رہنماؤں کی جانب سے ان پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات عائد کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
کیا اس صورتحال کا فائدہ کوئی دشمن نہیں اٹھا سکتا؟؟؟

کرسی کی بھوک اور تمنا ، اچھے خاصے معقول انسانوں کو بھی بھٹکا دیتی ہے۔ ایک انسان جو سلجھا ہوا ، سنجیدہ اور معاملہ فہم معلوم ہوتا ہے ، اس میں اقتدار کی خواہش پنپنے لگے تو پھر بہکے بہکے میرے سرکار نظر آتے ہیں ۔
ایسے موقع پرستوں کی حرکات و سکنات ، مضحکہ خیز ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ ان کی باتوں میں معقولیت اور دلیل کم سے کم اور اقتدار کے پائیدان کی بھوک زیادہ سے زیادہ واضح ہونے لگتی ہے ۔ پھر ، "اِدھر ہم حکومت کریں گے اُدھر تم حکومت کرو"، "ایسے کئی پاکستان اور خرید سکتے ہیں" ، "وردی میری کھال ہے" ، "ایک چیز آ کر تمہیں ہِٹ کرے گی اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا" ، "وعدے تو قرآن حدیث نہیں ہوتے" ، اور
"میرا وعدہ ہے کہ تمہیں اسلام آباد میں چھپنے نہیں دوں گا" جیسے رعونت بھرے بیانات سامنے آتے ہیں ۔

ان کو اس سب سے وقتی طور پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، لیکن اقتدار کے نشے میں چُور شخص کو کوئی بات سمجھانا نا ممکن ہے ۔

حالات کو اس نہج پر لانے میں سارا کردار صرف سیاست دانوں کا نہیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوری سیاسی نظام کبھی بھی پروان نہیں چڑھنے دیا گیا ۔ مسلسل غیر سیاسی قوتوں نے جمہوری نظام اور حکومتوں کے مسائل میں دخل اندازی کی۔ چار بار براہ راست اقتدار پر قابض ہوئے اور ملک کے 32 برس ان چار ڈکٹیٹرز کی نذر ہو گئے ۔ سوال تو اٹھایا جانا چاہیے کہ اس صورتحال میں جمہوری اور سیاسی اقدار کیسے پروان چڑھ سکتی تھیں؟ مگر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ جب یہ براہ راست اقتدار میں تھے تو اس دوران انہوں نے اپنے دم چھلے اور بغل بچے بھی پروان چڑھائے۔ تقریباً ہر آمر نے ایک نئی مسلم لیگ بنائی اور اپنا ایک چہیتا بھی تیار کِیا ۔ یہ بھٹو ، نواز ، عمران ، پرویز الٰہی ، یہ سب اسی فیکٹری کے تیار کردہ سیاست دان تھے ، مگر افسوس یہ ہے کہ اس فیکٹری کو کبھی اپنی کسی پروڈکٹ پر فخر نہیں ہوا۔ انہیں پسِ پردہ حکمرانی کا جو شوق چرایا ، یہ کبھی ان کے کام نہیں آیا۔ چند برس بعد پہلا لاڈلا جب انہی کے گلے پڑ جائے تو یہ اسے ٹشو پیپر کی طرح تاریخ اور سیاست کے کوڑے دان کی نذر کر کے نیا لاڈلا پروان چڑھا دیتے ہیں ۔
اب ایک بار پھر وہی مرحلہ درپیش ہے ، موجودہ لاڈلا جب اقتدار سے جڑے رہنے کے لیے ادارے اور ملک کے وقار کو داؤ پر لگا رہا ہے تو ادارہ اس شش و پنج میں ہے کہ کیسے اس مشکل سے جان چھڑوائی جائے۔
اگر متعلقہ سیاست دان کو بچائیں تو ملک اور ادارے کا وقار، بقا، سالمیت اور نظریاتی سرحد خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور اگر ادارے اور ملکی سالمیت کی فکر کی جائے تو چہیتا لیڈر کہاں جائے گا ؟
لہٰذا اس اقتدار اور بالادستی کی کشمکش میں ملک ایک شٹل کاک بن کر رہ گیا ہے۔
اس موقع پر سنجیدہ طبقات ، جو ایک تماشبین کی حیثیت اختیار کیے ہوئے پاپ کارنز خریدے بیٹھے ہیں انہی سے استدعا کی جا سکتی ہے کہ خدارا آگے بڑھ کر اس تنازع کو روکنے اور کسی مثبت انجام تک پہنچانے لے لیے کردار ادا کریں ۔
سیاست دانوں کے اقتدار کے نشے کا شاید علاج نہ ہو مگر ادارے کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ ان کا اقتدار اس ملک کی بقا اور سلامتی ہی کے مرہونِ منت ہے ۔
اس مسئلے کا حل صرف یہی نظر آتا ہے کہ ادارہ ، اپنی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرے اور آئندہ کسی خاص ہمنوا پر اپنی خصوصی نظرِ کرم نہ فرمائیں۔ سیاست دان بھی ہوش کا ناخن لیں اور اقتدار کی ہوس میں ملک کو نذرِ آتش کرنے سے باز رہیں۔

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment