ہوم << ہیلووین کے متعلق کچھ ذاتی تاثرات‎‎ -سیّد عطااللہ شاہ

ہیلووین کے متعلق کچھ ذاتی تاثرات‎‎ -سیّد عطااللہ شاہ

سوشل میڈیا پر ہیلووین کے کچھ تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر یوں لگا جیسے مغرب کی تمام لائبریریاں صرف فارغ اوقات انجوائے کرنے کیلئے بھری پڑی ہیں۔۔۔ یا پھر یوں کہیں کہ ان کتابوں نے انہیں انسانیت سے نکال کر حیوانیت تک پہنچا دیا ہے۔

میرا نہیں خیال کہ کوئی عقل مند انسان ایسے فضول قسم کا دقیانوسی تہوار منائے بھی سہی۔ ہاں! البتہ ایک کام ہوا ہے کہ سرمایہ داریت کو فائدہ پہنچ گیا ہے اس سے، وہ بھی بہت زیادہ۔ وہ کوسٹیومز جو کبھی ہیلووین نے خود بھی تصور نہ کئے ہونگے، مارکیٹ میں آ گئے ہیں اور یوں شیطان کے شُف پر بے ہوش مغرب "مصنوعی" خوشی کی تلاش میں مزید دھنس چکا ہے۔ ویسے تو مغرب اور مغرب پرست حضرات ہم یعنی اسلام پسند لوگوں کو دقیانوسی اور ٹریڈیشنلسٹ کہتے ہیں مگر ایسے موقع پر ان کے آنکھ، زبان اور دماغ، سب کے سب سُن ہوجاتے ہے بلکہ مکمل کام ہی چھوڑ دیتے ہے جب وہ اس شیطانی تہوار کو آزادئ بیاں کا نام دینے لگ جاتے ہیں۔ جن حضرات کو ہیلووین کی تاریخ معلوم ہوگی، وہ جانتے ہونگے کہ اس تہوار کی جڑیں ہزاروں سال پہلے قبل مسیح میں جا کر کچھ شیطانی رسومات کیساتھ ملتی ہیں۔ (نہیں معلوم تو گوگل کرسکتے ہیں۔)

چونکہ شیطانی اثرات پہلے ہی سے مغرب کو اپنے جال میں پھنسا چکا ہے، جہاں پر وہ کبھی ہیلووین ، کبھی ویلینٹائن تو کبھی نیو ائیر ایو کے نام سے اپنے مردہ اور بے حس دلوں کیلئے خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔۔۔ اب آہستہ آہستہ یہ انسانیت سے گرے اور حیوانیت سے بھرے رسومات مسلمان ریاستوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہوچکے ہے۔ اگر آپ بلا کسی تفرقہ بازی اپنے اردگرد اندازہ لگا لیں تو کوئی بھی صاحب عقل یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ آج اگر اس دنیا میں صاف شفاف اور صفائی ستھرائی والا کوئی ابراہیمی دین بچا ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہے۔ اسلام کے اندر ذاتی اور عائلی زندگی سے لیکر معاملات اور عبادات تک، ہر ہر لمحہ طہارت اور پاکیزگی سے مزین ہے۔ چاہے وہ اندام کی پاکیزگی ہو، نظر کی ہو یا روح کی۔ اور سب سے اہم بات کہ صرف اسلام ہی ہے جو ہر طرح کے شیطانی رسومات سے محفوظ اور ہر قسم کے شیطانی چالوں کے سامنے بلا خوف و خطر ڈٹ کے کھڑا ہے۔ باقی تقریباً دنیا کا ہر مذہب اور ہر تہوار اپنی اصل شکل سے منحرف ہو کر بگڑ چکا ہے، جس میں کہیں کہیں سرمایہ دارانہ نظام کے ثمرات تو کہیں کہیں شیطانی چالوں کی چلن نظر آرہی ہے۔

اسی لئے شیطان اور شیطان کے پجاریوں کے تمام کی تمام نظریں اب مسلم دنیا کی طرف ہیں۔ اور جس طرح میں نے کچھ دن پہلے بھی تذکرہ کیا ہے کہ "مغرب کے اندر خاندانی نظام ویسے بھی درہم برہم ہے، اسی لئے اب وہ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ دنیا کے کسی اور کونے میں یہ نظام اپنے پورے آب و تاب اور عظمت و جلال کیساتھ کھڑا رہے۔" اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ ، یہ گھناؤنے شیطانی کھیل مسلمانوں کی سرزمین پر بھی کھیلنے کیلئے اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے، جس کا سب سے پہلا پتّہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں کھیلا جا چکا ہے (تصاویر ملاحظہ کیجیے)۔بات کو ختم کرنے سے پہلے سعودی عرب کے متعلق دو تین الفاظ کہہ دوں کہ محمد بن سلمان کے آنے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے، جب سے مجھے شعور آئی ہے اور میں نے سنا ہے یا پڑھا ہے کہ سعودی حکومت نے صدیوں سے کھڑے صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیھم و عیلھن اجمعین کے مزارات مبارک مسمار کیے ہیں تو مجھے اس سعودی عرب کے متعلق شکوک و شبہات نے گھیر لیا تھا۔

چونکہ شہرِ مدینہ اس وطن کا حصہ ہے، اسی لیے اس سرزمین کے خلاف کچھ بھی کہنے سے پہلے، ہزار مرتبہ سوچا ہے۔ مگر آج شاید وہ موقع آں پہنچا ہے جب میں کہہ سکتا ہوں کہ "سعودی عرب بیسویں صدی میں سرزمینِ عرب پر قائم ہونی والی سب سے پہلی برطانوی یا مغربی کالونی تھی۔ کیونکہ انھیں اپنے شیطانی نظریات کا پرچار کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی ایسی "کالونی" ہی چاہیے تھی کہ جو مسلمانوں کیلئے رول ماڈل ہو، جہاں سے آسانی کیساتھ من گھڑت نظریات پھیل سکیں۔خیر، اب ہمارے ذمے جو رہتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے کتاب یعنی قرآنِ عظيم کو پڑھیں اور سمجھیں، اور اس کے بعد احادیثِ نبویہ ﷺ سے روشنی حاصل کرکے خود اور اپنی آنے والی نسلوں کو شیطانی چالوں سے محفوظ سے محفوظ تر بنا سکیں۔

اور یہ کہ دین کی دعوت کا پیغام ہر وقت ہر گھڑی کسی بھی شکل میں ہمارا منزل و مقصد ہو تاکہ بروزِ محشر ہم اللہ کی دربار میں اللہ رب العالمین، تمام انبیاء علیہم السلام اور صحابۂ رسول ﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔اللہ ہمیں ہر طرح کے شیطانی نظریات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو اسلام کی نور سے منور کرے۔ آمین ثم آمین

Comments

Avatar photo

سیّد عطااللہ شاہ

سید عطا اللہ شاہ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ ایک لیکچرار، بلاگر اور فری لانس صحافی ہیں جو پاک افغان معاملات اور پاکستان کے سماجی ومعاشرتی مسائل کے متعلق لکھتے ہیں۔

Click here to post a comment