ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (7) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (7) - شاہ فیصل ناصرؔ

سرزمینِ وحی، بلدالحرام ”مكةُالمُكرمه” میں خوش آمدید :-

وَكيفَ لا ننتشى شَوقًاإلى بلدٍ ۔

نهفو لَه كُل يومٍ خمس مرّات۔

کیسے ہم اس شہر کی محبت میں مست نہ ہوں،جس کی جانب روزانہ پانچ بار قصد کرتےہیں۔ مکة المكرمة، روئے زمین پر سب سے بہترین مقام ہے جو اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کو سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے، مسلمانوں کا قبلہ اور ان کی دلی محبت کا مرکز، حج کا مقام اور باہمی ملاقات اور تعلقات کی آماجگاہ ہے۔ جہاں سے توحید و ایمان کی فجر روشن ہوئی اور ہدایت و علم کا نور چار دانگ عالم میں پھیل گیا، جہاں کی ریت میں شرک خاک آلود ہوا، جہاں کی مٹی پر بت توڑے گئے، جہاں کی وادیوں میں باطل کو شکست ہوئی اور جہاں کی چٹانوں پر کفروالحاد ریزہ ریزہ ہوا۔

اس بلدحرام کی ان گنت اور بے شمار خصوصیات و فضائل ہیں۔ یہ بابرکت شہر اللہ کے دو نیک بندوں اور سچے نبیوں ابراہیم خليل الله اور اسماعیل ذبيح الله علیهم السلام نے آباد کیا۔
یہاں اللہ تعالی کی عبادت کیلئے بنایا جانے والا سب سے پہلا گھر ”کعبه بیت الله الحرام ” کی تعمیر کی اور اس کیلئے برکت کی دعائیں کی۔ پس لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوئے، یہاں کے باشندوں کو رزقِ فراواں دیا گیا۔ اور اس کو معزز، محفوظ، محترم اور پر امن شہر بنایا گیا، اس کی ہر چیز کو امن و امان حاصل ہوئی، ” وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ اَمِنًا ” جو اس میں داخل ہوجائے وہ امن پاتا ہے۔ جہاں لوگوں پر شکار اور درخت کاٹنا حرام قرار دیاگیا۔ اور جو کوئی اس میں الحاد اور ظلم کا ارادہ کرتا ہے اس کو دردناک عذاب دیا جاتا ہے۔ یہاں ابرہہ کے ظلم و تکبر کی کمر توڑ دی گئی، اس کا لشکر دھتکارا گیا اور اس کا ہاتھی ذلیل ہوا۔

اس سرزمین مقدس پر دنیا کی افضل ترین شخصیت، سیدالبشر، سردار دوجہان، امام المرسلین، خاتم النبین محمد مصطفٰیﷺ کی پیدائش ہوئی، یہاں آپﷺ پل کر جوان ہوئے اور یہاں جبریل آمین علیہ السلام نے آکر آپﷺ کو وحی پہنچا کر انسانیت کی راہنمائی کیلئے مبعوث فرمایا۔ یہاں سے آپﷺ کو ایک رات میں مسجداقصٰی لے جاکر انبیاء كرام عليهم السلام کا امام بنایا گیا اور پھر معراج کی دلچسپ و حیران کن سفر پر ”سدرة المنتهٰى" لے جایا گیا۔یہ وحی کی سرزمین، نور کا مطلع ، اسلام کی فجر، دنیا کا قبلہ اور دلوں کا مرکز ہے۔ یہ اللہ کا وہ پسندیدہ شہر ہے جہاں دین اسلام کے سوا کوئی اور دین نہیں اور جس میں مسلمانوں کے سوا کوئی اور داخل نہیں ہوسکتا۔

یہاں اللہ کا عظیم و قدیم گھر، مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بیت اللہ الحرام ہے۔ یہاں نماز اور دیگر نیکیوں کا ثواب ایک لاکھ گنا دیا جاتا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”صَلَاةٌ فِى ألْمَسْجِدِ ألْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِّائَةِ اَلْفِ صَلَاةٍ ”مسجد الحرآم میں ایک نماز، باقی مقامات کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔( ابن ماجہ۔1406) اس حساب سے مسجدحرام کی ایک نماز 55 سال، 6 ماہ، 20 دن کی نمازوں کے برابر بنتی ہے اور ایک دن رات کی پانچ نمازیں دوسو ستر(270) سال، 9 مہینے اور دس دن کی نمازوں کے برابر ہوگی۔ ثواب کی یہ کثرت تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مقدس مقام میں نیک اعمال کی حرص کریں اور یہاں ہر گناہ سے پرہیز کرے، کیونکہ نیکیوں کی طرح یہاں گناہ بھی بڑھتے ہیں۔

اس گھر کے گرد طواف کرنے کو عبادت قراردیا گیا ہے، جو صرف اس مبارک گھر کی خاص خصوصیت ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی جگہ اور چیز کا طواف اسلام میں جائز نہیں۔ یہاں بہت سی اور نشانیاں بھی ہیں، ”فِيْهِ اٰيَاتٌ بَيِّنٰتٌ” اس گھر میں جنت کا پتھر حجرِاسود ہے، یہ ہر اس شخص کیلئے گواہی دے گا، جس نے اس کا استلام کیا، یعنی چھوا اور بوسہ دیا۔
أَلحَجرألأسودُ قبَّلته بِشفتى قَلبى و كلى وله۔ ۔ لأ إعتقادى أنّهُ نافِعٌ ۔۔۔ بَل للإقتدآئي باألذى قَبّلهُ. حجراسود کو میں نے دل کے ہونٹوں اور والہانہ جزبہ سے بوسہ دیا۔ اس اعتقاد سے نہیں کہ یہ نفع بخش ہے، بلکہ اس ذات ﷺ کی اقتداء میں، جس نے اسے بوسہ دیا۔

یہاں ملتزم ہے، حجراسود اور دروازے کے درمیان والی جگہ، جہاں کھڑے ہوکر جو شخص بھی اللہ تعالی سے کوئی دعا کرتا ہے، اس کی حاجت ضرور پوری ہوتی ہے۔ اس جگہ سے چمٹ کر دعا مانگنی چاہئیے۔ کئی صحابہ کرام کو یہاں چمٹ کر دعائیں مانگتے دیکھے گئے ہیں۔ جن میں عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر وغیرہ شامل ہیں ۔اس گھر میں مقام ابراھیمؑ ہے، وہ جنتی پھتر جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم خلیل اللہؑ نے کعبہ کی تعمیر کی۔ ان کا یہ کام اللہ تعالٰی کو انتہائی پسند آیا، اسلئے اللہ تعالٰی نے ان کے پاؤں کے نشانات پھتر پر قائم کردیے، تاکہ یہ ان کی مومن نسل اور دوسروں کیلئے یادگار بنے رہیں۔ یہاں طواف کے بعد دو رکعت پڑھنا لازمی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمربن خطاب نے فرمایا، ” میں نے تین باتوں میں ربِّ تعَالٰی کی وحی کے مطابق تجویز پیش کی۔ میں نے گزارش کی، اللہ کے رسولﷺ! کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم مقام ابراھیمؑ کے پاس نماز پڑھا کریں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ”وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى” تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو۔ (بخاری 402)

یہاں حطیم (حِجر) ہے، جہاں سیدنا ابراہیمؑ نے اپنی زوجہ بی بی ہاجرہ اور اپنے بیٹے سیدنا اسماعیلؑ کو مکہ میں چھوڑتے وقت ٹھہرایا تھا۔ یہ بیت اللہ کا حصہ ہے لیکن قریش نے کعبہ کی تعمیر کی وقت رقم کم پڑنے کی وجہ سے بیت اللہ کا چھ ہاتھ (تقریبا دس فٹ) جگہ باہر چھوڑ دیا۔ یہاں نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا کہ کعبہ کے اندر ادا کی گئ ہو۔ ام المؤمنين عايشه صديقه رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کعبہ میں داخل ہونے کی خواہش کی تو آپﷺ نے فرمایا ،“أُدْخُلِى ألْحِجْرَ فَإنَّهُ مِنَ ألْبَيْتِ” حجر یعنی حطیم میں داخل ہوجا، یہ بیت اللہ کا حصہ ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے ميرا ہاتھ پکڑ کر مجھے حطیم میں داخل فرمادیا اور فرمایا، ”جب بیت اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ ہو، تو یہی نماز پڑھ لو کیونکہ یہ بیت اللہ کا حصہ ہے۔ (نسائی۔2914-15 )

یہاں آب زم زم ہے، روئے زمین پر بہترین پانی، جو اللہ تعالی نے آل ابراہیمؑ (اسماعیلؑ اور ان کی ماں ہاجرہ)کو تحفے میں دیا تھا جب وہ مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں پانی اور خوراک کی قلت کے شکار تھے۔ بی بی ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دیوانہ وار دوڑتی تو جبریل آمین ؑ نے آکر اپنی ایڑی زمین پر ماری اور یہ پانی نکال دیا۔ جس سے ان کی زندگی بحال ہوئی اور اس بلد الحرام مکة المکرمه کی آبادی کا ذریعہ بن گیا۔ عرصہ دراز کے بعد یہ پانی ناپید ہوا اور اس کے نشانات مٹ گئے۔ لیکن سردار دوجہان محمد الرسول اللہﷺ کی آمد سے کچھ عرصہ قبل آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کو خواب میں زم زم کھودنے کا حکم دیا گیا۔ جس کی تعمیل کرکے یہ بہترین پانی دوبارہ نکال دیاگیا اور اب تا قیامت جاری رہےگا۔ اس پانی سے شَقِّ صَدْر کے موقع پر آپﷺ کا دل مبارک دھویا گیا تھا۔ ابن عباسرض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،“خَيْرُ مَآءٍ عَلٰى وَجْهِ ألْاَرْضِ مَأءُ زَمْ زَمْ فِيْهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَ شِفَآءٌ مِّنَ السُّقْمِ” روئے زمین پر بہترین پانی آب زم زم ہے یہ خوراک بھی ہے اور بیماری سے شفا بھی۔ (سلسلہ صحیحہ ۔ 1056)

بلکہ جس نیت سے پیا جائے وہ ملتاہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا، ”مَآءُ زَمْ زَمْ لِمَا شُرِبَ لَهٗ” آب زم زم جس نیت سے پیا جائے اس کیلئے کفایت کرتا ہے۔ (ابن ماجہ۔ 3062)

یہاں صفا و مروہ ہیں جہاں اسماعیلؑ کی والدہ نے پانی کی تلاش میں دوڑ لگائی تھی۔ یہ اللہ کے دین کی علامات میں سے ہیں اور حج و عمرہ میں یہاں سعی کرنا فرض ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، ”إِسْعَوْا فَإِنَّ اللهَ قَدْ كَتَبَ عَلَيْكُمُ السَّعْىَ” صفا و مروہ کی سعی کرو۔ اللہ نے تم پر سعی کرنا فرض قرار دیا ہے۔ (مسنداحمد۔ 6/421)

غرض یہ پورا شہر، مبارک اور فتنوں سے محفوظ ہے۔ اللہ تعالی نے دجال پر حرام کیاہے کہ وہ مکہ و مدینہ میں داخل ہو۔ (مسلم۔ 2946)

یہاں غارحراء ، غارثور، مسجدخَیف، منٰی، مسجد نمرہ، عرفات، مزدلفہ، مسجد مشعرالحرام،وادی محسر، وادی محصب، تنعیم مسجد عائشہ، مسجد جن جیسے تاریخی اور مقدس مقامات ہیں۔ جو حجاج کرام، زائرین اور سیرت کے شائقین کیلئے بہت دلچسپی کا باعث ہیں۔۔