ہوم << پچھلے بیس سال:غداری یا بیوفائی؟-سلمان جاوید

پچھلے بیس سال:غداری یا بیوفائی؟-سلمان جاوید

سال 2001 کی بات ہے۔ جنرل مشرف کو ابھی آئے دو سال کا عرصہ گزرا تھا۔ پڑوس میں موجودہ افغان عبوری حکومت کے کرتا دھرتا حکومت میں تھے اور ان کی چھتر چھایا تلے بہت سے تحاریک کے لیڈر پناہ گزین بھی تھے۔ نمایاں نام ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواریوں کے سامنے آتے تھے۔ اور عین اس وقت ہم جیسے بہت سے لوگ اپنی زندگی کی 21ویں منزل میں قدم بھی رکھ رہے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پرویز مشرف کا نظریہ "روشن خیال اسلام" یا عرف عام میں enlightened moderation منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ پاکستان عمومی طور پر ایک معتدل مگر قدرے دائیں بازو کے نظریے کے تابع چل رہا تھا۔ عوام و خواص میں اور حتیٰ کہ افواجِ پاکستان میں بھی اسلام، جہاد، تحریک، پان سلام ازم اور اس طرح کے تمام معاملات نہ صرف بدرجہ اتم مشہور و معروف تھے بلکہ باقاعدہ نظریاتی اساس کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ سو پاکستان کی عمومی آبادی معتدل دینی رجحانات رکھنے کے باوجود بہر حال ان تمام نظریات کو دل و جان سے اپنے طور پر اپنائے ہوئے تھی۔ اس معتدل اکثریت میں سے اکثر کچھ لوگ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور تحریکوں کا حصہ بھی بنے، اور باقی ماندہ معتدل اکثریت کو بہت حد تک اپنی جانب مائل بھی رکھا۔
ا فغان جہاد کا ہینگ اوور بھی پاکستانی عوام اور پالیسی حلقوں میں موجود تھا۔ افغانستان کی لڑائی میں کیا ہوا اور کیسے ہوا ، اس کی تفصیلات عوام الناس تک مکمل نہیں پہنچی تھیں۔ ان کے نزدیک ا فغانوں کے بعد پاکستانی سب سے زیادہ اس فتح کے حقدار تھے جو انھوں نے سوویت افواج کو افغانستان سے باہر دھکیل کر حاصل کی تھی۔ ا فغانوں کی اپنی اندرونی چپقلش کی معلومات اور ان کے پاکستان سے اختلافات کی بازگشت شاید صرف اس وقت کے صحافیوں اور افغانستان کو پڑھنے لکھنے والوں تک محدود تھی۔
پھر طالبان کا آنا اور پاکستان کا یہ plausible deniability قائم رکھنا کہ یہ ان کی پیداوار ہیں کہ نہیں اور اس حد تک ان کو facilitate کرنا کہ ان کا کابل یا کندھار سے اسلام آباد یا کوئٹہ آنا جانا ایسے ہی تھا جیسے یہاں کسی شہر سے لاہور یا کراچی جانا۔ اسلام آباد، جو ایک برگر اور ٹھنڈا شہر گردانا جاتا تھا، اس کے دل میں ایسی مساجد اور مدارس کا چلتے رہنا جو ان تمام نظریات کو مزید پختہ تر کرتے رہے۔ یہی وہ دور تھا جب اسامہ نے امریکہ کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا، یہی وہ دور تھا جب اس کی تصاویر پاکستان کے گلی کوچوں میں ایک ہیرو کے طور پر ٹنگی نظر آتی تھیں، اور یہی وہ دور تھا جب ہم جیسے لوگ لڑکپن کو چھوڑ کر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے۔ اور ہماری ذہن سازی یہ تحاریر، تقاریر، تحاریک اور اس طرح کا ماحول کر رہے تھے۔
ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کی طرح جہاں پاکستان سے محبت ہمیں ورثے میں پڑھائی لکھائی جاتی تھی اسی طرح ایک معتدل دینی خاندان کی طرح اسلام اور اس سے جڑے معاملات بھی اسی طرح ہمارے اندر انڈیلے جاتے۔ افواج پاکستان ہمارے نزدیک ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ کا موٹو لیے دنیائے اسلام کی اسلامی تحریکوں کی پشت بان نظر آتی تھیں اور جہادی لیڈر اور ان کی تحاریک ہمیں اپنی تحاریک ہی لگا کرتی تھیں۔ پاکستان ایک نئی صبح اور نشاۃ ثانیہ کا مرکز نظر آتا تھا، اسلام کا قلعہ اور مظلوموں کی آواز اور عدل و انصاف کا نیا ابھرتا منظر نامہ ہمارا رومانس تھا۔ چیچنیا اور داغستان ہو یا بوسنیا یا برما یا پھر افغانستان۔ ہر طرح سے یہ تعلق ہمیشہ پاکستانیوں کی اکثریت کے دل و دماغ پر حاوی رہا۔
اسی دوران بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ اور جماعتیں اس پالیسی، اس نظرئصیے اور اس عمومی رویے کو ہدفِ تنقید بھی بناتے اور خوب خوب لتے لیے جاتے۔ حتی کہ پاکستان کی فوج کو ایک rogue military اور ضیاالحق کی باقیات والی فوج کہا جاتا اور "ملا ملٹری الائنس" جیسے concept بیانیے کا حصہ بنتے چلے گئے۔ ایک خلیج تھی جو بہت عرصے سے موجود تھی مگر وہ کتنی گہری ہورہی ہے اس وقت کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔
اب تصور کیجئے - ایک پوری جنریشن جو اس وقت جوان ہوئی، جس نے ابھی ابھی ایک سول وزیر اعظم کو حکومت سے نکال کر مٹھائیاں بانٹیں ہوں اور جو قرض اتارو ملک سنوارو جیسے دھوکوں کو دوبارہ نہ کھانے کا عزم مصمم کر کے بیٹھے ہوں اور اس پر طرہ یہ کہ قرون اولی والے اسلام کا پرچار بھی ان کے آس پاس ہورہا ہو، جہاد اور اسلام اور اس کی سیاست کو وہ نئی صبح کی امید کے طور پر دیکھ رہے ہوں، کشمیر کے کوہالہ برج پر جنرل مشرف کھڑا ہو کر یہ کہہ رہا ہو کہ دنیا کو جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا ہوگا اور جس جنریشن کا رومانس اپنی فوج کے ساتھ نظریاتی تخیل کی آخری حدوں کو چھو رہا ہو، اچانک اس جنریشن کی زندگی میں ایک بھونچال آجائے اور وہ بھونچال تھا ستمبر 9/11 کا واقعہ۔
اچانک پتہ چلا کہ جس ہیرو کی تصاویر ہمارے گلی کوچوں میں لٹکی نظر آتی ہیں وہ اب ولن ہے۔ جن داڑھی اور پگڑی والوں کو آپ آنے والی صبحِ امید کا ہر اول دستہ سمجھ رہے تھے وہ تو دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں اور جس اسلام اور جہاد کی آپ بات کر رہے ہیں وہ تو فساد اور دہشت گردی ہے، جس کشمیر کا آپ ذکر کرتے ہیں وہ تو دہشت گرد گروہوں کی نرسری اور جس افغانستان کو آپ
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ والملک للہ
کے تناظر میں دیکھ رہے تھے وہ تو ہر طرح کے دہشت گرد کا مرکز و مسکن تھا۔ تو اندازہ لگائیے ہم جیسے اس وقت کے نوجوانوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔
مگر یہ تو صرف طوفان کی آمد کے آثار تھے۔ اصل طوفان تو ابھی آنا تھا۔
(جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment