ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (5) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (5) - شاہ فیصل ناصرؔ

میدان ہوائی کی طرف:

صبح نماز فجر اور تربیتی بیان کے بعد ناشتہ کیا۔ اور پھر اس ناقابل فراموش تاریخی سفر کیلئے تیاری شروع کی۔ سامان کو بڑے اور چھوٹے بیگز میں برابر کرکے اس پر مکمل پتہ درج کیا۔ غسل کرکے تقریبا 10:00 بجے حاجی کیمپ کی مسجد میں احرام باندھا اور تحیة الوضوء و تحية المسجد کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر بسم اللہ کرکے بسوں میں سوار ہوئے اور تلبیہ پڑھتے رہے۔ 11:30 پر بسیں ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔

خوشی، جذبات اور احساسات کی ملی جلی اثرات چہروں پر عیاں تھی ۔ راستے میں عام لوگوں کے جذباتی مناظر کو دیکھ کر آبدیدہ ہونا فطری امر تھا۔ حیات آباد کے اک نہر میں نہانے والے بچوں نے جب ہمارا قافلہ دیکھا تو خوشی سے ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں رخصت کرنے لگے۔ ایئرپورٹ تک راستے میں عوام و خواص ، مزدور اور ڈرائیور سب عقیدت کا اظہار کرکے اور ہماری قسمت پر رشک کرتے ہوئے ہاتھ ہلاتے۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ عوام کے دلوں میں شعائر اللّٰه کی اتنی عزت و احترام موجود ہے۔ یہ ہماری عزت نہیں تھی، بلکہ اللہ کے اس عظیم گھر کی عزت تھی جس کی زیارت کیلئے ہم نے احرام باندھ کر عزم سفر کیاتھا۔

پشاور ایئر پورٹ پر:

تقریبا 12:45 پر پشاور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچ گئے اور مختصر وقت میں ایمیگریشن کے مرحلے سے فارغ ہوکر لاؤنج پہنچ گئے۔ آج جمعہ تھا لیکن اندر نماز جمعہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ویسے بھی سفر کی وجہ سے ہمارے اوپر جمعہ لازم نہ تھا اسلئے لاؤنج کی چھوٹی سی مسجد میں چند افراد ملکر نماز ظہر باجماعت ادا کی۔ کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ عصر کی وقت ہم جہاز کے اندر فضا میں محو سفر ہوں گے جہاں نماز کی ادائیگی مشکل اور خشوع و خضوع سے خالی ہوگا، اسلئے نماز عصر بھی یہی ادا کرنا چاہیے۔ یہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے کہ سفر کے دوران ظہروعصر اور مغرب وعشاء کو اکٹھا ادا کیاجائے اسے جمع بین الصلاتین کہتے ہیں۔

عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے، اسی طرح مغرب اور عشاء کو بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔(بخاری حدیث نمبر 1107) لیکن اکثر لوگ کم علمی کی وجہ سے ان احادیث پر نہ خود عمل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو عمل کرنے دیتے ہیں۔ ہم نے اسی طریقے پر عمل کیا جس کی افادیت بعد میں سفر کے دوران معلوم ہوئی جب جہاز میں لوگ اضطراری طریقے سے نماز ادا کرکے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔

طیارہ اور فضائی سفر :

4 بجے سعودی ایئرلائنز کا طیارہ پہنچنے کا اعلان ہوا۔جس میں 320 حجاج کرام نے جانا تھا۔ جہاز میں سوار ہونے کا مرحلہ اک گھنٹہ لے گیا۔ مجھے کھڑکی سے متصل سیٹ ملی۔ خوش قسمتی سے جہاز کے عملے میں لڑکیاں کم اور لڑکے زیادہ تھے۔ ہماری لائن پر خدمت کی ذمہ داری ایک عرب نوجوان عبدالرحمٰن کی تھی، جن کا تعلق جدہ سے تھا، بعد میں ان کیساتھ تعارف اور بات چیت ہوئی۔ انہوں نے میری ٹوٹی پھوٹی عربی زبان کو بہت سراہا۔ عصر پانچ بجے تقریبا اک گھنٹہ کی تاخیر سے جہاز نے اڑان بھری ۔

فضا سے پشاور اور گردونواح کا نظارہ بہت خوبصورت اور دلکش منظر پیش کر رہاتھا۔ چند منٹ بعد جہاز نے بادلوں کی تہہ عبور کرکے مطلوبہ بلندی کی طرف سفر جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد ہم تیس ہزار فٹ بلندی پر 563 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہے تھے۔ یاد رہے کہ پشاور اور جدہ کی درمیان 3450 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ کھڑکی سے جھانک کر نیچے زمین کی بجائے بادلوں کا سمندر نظر آرہا تھا۔ ایسے حالات میں خوف محسوس کرنا فطری امر تھا، جسے ٹالنے کیلئے ہم ذکرواذکار کی مدد لیتے رہے۔ ساتھی تلبیہ بھی پڑھتے رہے۔ کچھ فاصلہ طے کرکے جہاز کے میزبانوں نے اپنی مہمانوں کے ضیافت شروع کی- جس میں چاول مچھلی اور دوسرے لوازمات شامل تھے۔ ہم نے چونکہ دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، اسلئے خوب لطف اندوز ہوئے۔

جوں جوں ہم آگے چلتے دن کی لمبائی میں اضافہ ہو جاتا۔ پاکستان میں رات شروع ہوئی تھی لیکن یہاں سورج صاف اور روشن نظر آرہا تھا۔ جن لوگوں نے نماز عصر نہیں پڑھی تھی، وہ باری باری جاکر ایک کونے میں نماز ادا کرتے۔ مقامی وقت کے مطابق تقریبا سات بجے پائلٹ نے میقات کے قریب ہونے کا اعلان کیا۔ اسلئے ہم نے عمرے کی نیت کی اورتلبیہ پڑھا۔ عمرہ کی نیت میقات یا اس کے قریب جگہ سے کرنا چاہیے، اسمیں مشکلات بھی کم ہیں اور سنت کی مطابق بھی ہے۔

اکثر لوگ حاجی کیمپ سے نیت کرتے ہیں اور پھر احرام کی پابندیوں کا خیال نہ رکھتے ہوئے مشکلات کے شکار ہوتے ہیں اور ان پر دم یا صدقہ واجب ہوجاتا ہے۔ احرام باندھنے کے بعد مردوں کیلئے سلا ہوا کپڑا پہننا، سر ڈھانپنا، خوشبو لگانا، بال کٹوانا، ناخن ترشوانا، بیوی سے استمتاع، خشکی کا شکار اور موزے یا جرابے پہننا ممنوع ہے۔ یہ احرام کی پابندیوں میں سے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم میقات ”ذات عرق” کے اوپر گزر رہے تھے۔ یہ میقات، مکہ سے شمال مشرق میں تقریبا 94 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

Comments

Click here to post a comment