حیدر بخش جتوئی سندھ کے کسانوں کے عظیم رہنما تھے۔ ان کی پیدائش آج سے 121 برس قبل سات، اکتوبر 1901 میں سندھ کے مردم خیز ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گائوں بکھوڈیرو میں ہوئی تھی، وہ بچپن سے ہی بلا کے ذہین تھے۔
انھیں تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے اور ان دنوں بچوں کو پڑھانے کا بہت زیادہ رواج نہیں تھا۔ حیدر بخش جتوئی کے چچا اپنے ننھے بھتیجے کا شوق دیکھ کر اسے گائوں سے کئی میل دور واقع ایک پرائمری اسکول میں داخل کرانے لے گئے۔ اسکول کے ہندو استاد نے بچے کو دیکھ کر کہا کہ’’ اس کا تعلق جتوئی جیسے خطرناک قبیلے سے ہے، یہ تعلیم میں کیسے دلچسپی لے گا۔‘‘ اس پر بچے نے جواب دیا ’’آپ مجھے داخلہ دیں اور اگر میں امتحان میں پاس نہ ہوں تو اسکول سے نکال دیں۔‘‘ بچے کو پہلی جماعت میں داخلہ دے دیا گیا۔ جب امتحانات کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ اس بچے نے پوری جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ پہلی پوزیشن اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے بچے کو دی گئی تھی۔
نتیجہ سن کر حیدر بخش جتوئی زار و قطار روتا ہوا کئی میل پیدل چل کر گھر آگیا اور کسی کو کچھ بتائے بغیر سوگیا۔ جب اسکول کے ہیڈماسٹر کو صورتحال کا علم ہوا تو وہ خود چل کر حیدر بخش جتوئی کے گھرآیا، اسے انعام میں چند پائی اور مٹھائی دی۔ گویا اس کا کہنا تھا کہ’’ تمہارے ساتھ آیندہ اب کوئی ناانصافی نہیں ہوگی۔‘‘ اس کے بعد حیدر بخش جتوئی ہر امتحان میں اوّل آتے رہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسہ اسکول لاڑکانہ سے حاصل کی۔ ان دنوں میٹرک کا امتحان بمبئی یونیورسٹی کے تحت ہوتا تھا۔حیدر بخش جتوئی نے 1923 میں میٹرک کے امتحان میں نمایاں کارکردگی دکھائی اور سندھ سے میٹرک کا امتحان دینے والے طالبعلموں میں اوّل آئے۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی تعلیم کے پورے دور میں انہو ںنے قابلیت کی بنیاد پر وظیفہ حاصل کیا۔
کراچی کے ڈی جے سائنس کالج سے انھوں نے ادب میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ انھیں ادب، فلسفے اور سائنس سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ شروع سے انقلابی ذہن رکھتے تھے لہٰذا مارکس، اینگلز اور لینن کی تحریروں اور فلسفے نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جتوئی صاحب نے ہیگل اور ڈارون کا بھی بغور مطالعہ کیا، وہ فارسی کے بھی عالم تھے۔مولانا روم سے انھیں عشق تھا اور مثنوی مولانا روم ہمیشہ ان کے پاس رہتی تھی۔ اس زمانے میں کسی کا میٹرک کرلینا ایک غیرمعمولی واقعہ سمجھا جاتا تھا۔ عام طور پر مڈل پاس نوجوانوں کو لوگ رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ حیدر بخش جتوئی نے محکمہ مال میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی اور ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر جیسے اعلیٰ عہدے تک جاپہنچے۔
یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں ایک تلاطم برپا تھا۔ تین چوتھائی دنیا پر یوروپ کے چند ملک قابض تھے۔ برطانیہ سب سے بڑی نوآبادیاتی طاقت تھا اور برصغیر پر اس کا قبضہ تھا۔ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جس میں نوآبادیاتی طاقتیں منڈیوں اور خام مال پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہوگئی تھیں۔ ان جنگوں کی وجہ سے سامراجی ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔برطانیہ کا حال سب سے خراب تھا، اس کے پاس فوجیوں کی تنخواہیں ادا کرنے تک کے لیے رقم نہیں تھی اور امریکا اس کے فوجیوں کو تنخواہیں دیا کرتا تھا۔ اس صورتحال کا فائدہ ان ممالک کو پہنچا جنھیں یوروپ کی بڑی طاقتوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ ان ممالک میں آزادی کی تحریکیں تیز ہونے لگیں۔
ہندوستان میں بھی قومی آزادی کے لیے ایک شاندار جنگ لڑی جارہی تھی جس نے نوجوانوں میں زبردست جوش اور جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ باغی ذہن رکھنے والا حیدر بخش جتوئی بھی اس ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ سرکاری ملازمت کے دوران اس نے سندھ کے غریب، بے بس اور مفلوک الحال کسانوں یعنی ہاریوں کی زندگی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا تھا۔اس زمانے میں ڈپٹی کلکٹر ہونا معمولی بات نہیں تھی، اس مقام کو پانا زندگی کی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا جب حیدر بخش جتوئی نے خود سے سوال کیا کہ کیا وہ ظالم اور جابر طبقات کا ساتھ دیتے رہیں گے یا پھر انھیں غریب اور مظلوم کسانوں کے حق کے لیے میدان میں آنا چاہیے۔
انھوں نے سرکاری نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کی آزادی سے دو سال قبل اعلیٰ سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے اپنی بقیہ زندگی سندھ کے کسانوں کے لیے وقف کرنے کا عزم کیا اور سندھ ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور زندگی کی آخری سانس تک عملی جدوجہد کرتے رہے۔
سندھ کے معروف صحافی اور دانشور سہیل سانگی نے سندھ ہاری کمیٹی کی جدوجہد کو کئی ادوار میں پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’پہلا دور 1930 کا عشرہ ہے جس میں ابتدائی طور پر تنظیم سازی، فکری بحث اور اجلاس ہوتے رہے۔ ہاری کمیٹی کے پہلے اور دوسرے دور میں روشن خیال اور جمہوریت پسند حلقوں کا اثر نمایاں تھا جس کی وجہ سے اس کے مطالبے میں سرکاری زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے اور کسانوں سے منصفانہ رویہ رکھنے پر زور تھا، جب کہ کمیونسٹوں کی جانب سے جاگیرداری ختم کرنے کا مطالبہ تھا۔
دوسرا دور 1940 کا ہے جس میں جیٹھ مل پر سرام اور قادر بخش نظامانی جیسی شخصیات نے ہاریوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1946 میں ٹنڈوالٰہ یار میں ہاریوں نے تالپوروں اور لغاریوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس تنظیم میں نیا جوش اور ولولہ آگیا۔ کامریڈ جتوئی مارکسٹ تھے، انھوں نے ہاری کمیٹی کو ایک طبقاتی تنظیم کے طور پرمنظم کیا۔ یہ ہاری کمیٹی کا کئی پہلوئوں سے ترقی کا دور تھا۔
تیسرے دور میں سب سے بڑا کام سندھ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری تھا۔ 1950 میں سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم پر صوبے بھر سے کسانوں نے کراچی پہنچ کر سندھ اسمبلی کا گھیرائو کیا۔ یہ دھرنا اتنا مضبوط تھا کہ اسمبلی ممبران ایوان کے اندر ہی محصور ہو کر رہ گئے یہاں تک کہ باہر سے ان تک کھانے پینے کی اشیا بھی نہیں پہنچ پارہی تھیں۔سندھ ٹیننسی ایکٹ بہت بڑا کارنامہ تھا کیونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسان اور زمیندار کو زراعت میں برابر کا حصہ دار تسلیم کیا گیا تھا۔ اس دور میں چینی وزیراعظم چو این لائی پاکستان کے دورے پر آئے تو انھوں نے پاکستانی حکومت سے فرمائش کی کہ ان کی ملاقات کامریڈ حیدر بخش جتوئی سے کرائی جائے۔‘‘ سندھ کے کسانوں کے حقوق کے ساتھ حیدر بخش جتوئی پاکستان کے عوام کے حقوق کے لیے بھی ہمیشہ سرگرم رہے۔
ان کے ذہن میں ایک روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کا تصور تھا۔ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ایسا وفاقی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے جس میں رہنے والی تمام قومیتوں کو قومی حقوق حاصل ہوں، ریاست کے تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہوں اور رنگ، نسل، مذہب، عقیدے یا صنف کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے۔
نوکری ترک کرنے کے بعد وہ ایک دن بھی آرام سے نہیں بیٹھے۔ وہ سندھ کے ہر گائوں گئے اور ہاری کمیٹی کی شاخیں قائم کیں۔ جاگیرداروں کی مخالفت اور مزاحمت کے باوجود انھوں نے کسانوں کو ہاری کمیٹی میں منظم اور متحد کیا۔ ’’ہاری حقدار‘‘ کا تاریخی نعرہ بھی حیدر بخش جتوئی نے بلند کیا تھا۔ وہ صوفی عنایت شہید سے بہت متاثر تھے جن کا نعرہ تھا کہ ’’جو بوئے گا وہی کھائے گا۔‘‘حیدر بخش جتوئی بہت اچھے شاعر تھے۔ وہ مارکسی فکر کے ایک سیکولر عالم تھے لہٰذا ان کی شاعری میں ہاریوں اور معاشرے کے مظلوم طبقات کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ بہت اچھے صحافی بھی تھے۔ انھوں نے ’’ہاری حقدار‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ رسالہ جاری کیا اور اپنے گھر میں ایک پریس بھی لگالیا۔ یہ ہفت روزہ رسالہ روشن خیال اور ترقی پسند فکر کی ترویج کرتا تھا۔ اسے سندھی زبان کا پہلا ترقی پسند سیاسی رسالہ کہنا غلط نہ ہوگا۔
حیدر بخش جتوئی نے انگریزی اور سندھی زبان میں بہت سے مضامین، کتابچے اور کتابیں تحریر کیں۔ سندھی، فارسی، اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اس کی تفسیر لکھی، اس کام میں انھوں نے بیس سال سے زیادہ محنت کی تھی۔ حیدر بخش جتوئی صرف ایک ہاری، رہنما، شاعر، ادیب، مترجم، صحافی اور دانشور ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے سیاسی رہنما بھی تھے۔ انھوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور ون یونٹ کے خاتمے کی تحریکو ںمیں قائدانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان کے عوام بالخصوص سندھ کے ہاریوں کو آج بھی کسی حیدر بخش جتوئی کی تلاش ہے۔
تبصرہ لکھیے