اگرچہ یہ بات اپنی جگہ پر سچ ہے کہ ربِ کریم نے تمام لوگوں کو برابری کا درجہ دے کر پیدا کیا ہے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو ان کی طاقت، دولت، شہرت یا اثر و رسوخ کے حوالے سے دوسروں سے بڑا سمجھا جاتا ہے.
جوکہ سراسر غلط ہے کہ کسی حیوانی نما طاقت کے باعث کوئی شخص بڑا نہیں ہو سکتا البتہ حِلم، نیکی، خلق خدا کی خدمت اور دلوں کو جوڑنا یقینا ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے کسی شخص کو بڑا کہنا ایک خاص اعتبار سے بنتا اور سجتا ہے۔میری ذاتی رائے میں وطنِ عزیز کے قیام کے بعد جو چند لوگ اس اعزاز کے حقیقی مالک اور وارث ٹھہرے ہیں ان میں ہمارے حکیم محمد سعید صاحب کا نام ہمیشہ پہلی صف میں آئے گا کہ جن احباب نے اُن کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہے وہ یقینا یہ گواہی دیں گے.
اُن جیسا سادہ، ہنر مند اور دردمند انسان اقبالؔ کے اس مصرعے کی طرح ہوتا ہے کہ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘۔ 21 اکتوبر کو اُن کی برسی کے حوالے سے اُن کی بے مثل صاحبزادی عزیز بہن سعیدہ راشد نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں مجھے بھی شامل ہو کر کچھ بات کرنا تھی لیکن عین جلسے کے وقت الیکشن کمیشن نے عمران خان کے توشہ خانہ کیس کے فیصلے کا اعلان کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کی طرح لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کے ہجوم جمع ہونے لگے اور میں باوجود کوشش کے الحمرا ہال نمبر II میں نہ پہنچ سکا۔ حکیم صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ اس کے محرک ہمدرد کے ملازم اور میرے ایک دوست علی حسن مرحوم تھے۔
واقعہ یہ تھا کہ میں نے اپنے بھارت کے ایک سفرنامے میں دہلی کی ہمدرد فاؤنڈیشن اور حکیم سعید کے بڑے بھائی حکیم حمید صاحب کی غالب پروری کا ذکر کرتے ہوئے قدرے بے دھیانی میں یہ بھی لکھ دیا کہ اسی طرح کا کام پاکستان میں ان کے برادرِ خورد کو بھی کرنا چاہیے، یہ اور بات ہے جب مجھے حکیم سعید صاحب کے علمی، تعلیمی، نئی نسل کی آبیاری اور اربوں کی قیمت والی ہمدرد فاؤنڈیشن کے ’’وقف‘‘ بننے کا پتہ چلا تو مجھے اپنے اس بلا تحقیق بیان پر بہت شرمندگی ہوئی۔حکیم صاحب دیکھنے میں جتنے روایتی لگتے تھے، اپنی سوچ میں اُتنے ہی تخلیقی اور انقلابی تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو کسی کو کچھ کہنے کے بجائے کوئی کام کرکے دکھانے میں یقین رکھتے ہیں اوراس زمین میں ان کا دائرہ عمل اُن کی اپنی ذات اور ادارے سے نکل کر پوری اسلامی دنیا تک پھیلا ہوا تھا، بوسنیا کے بچوں، بیواؤں اور بے گھروں کے حوالے سے تو ان کی خدمات کا اکثر احباب کو پتہ ہے.
لیکن میں اس ضمن میں ایک خاص واقعے کا حصہ اور شاہد بھی ہوں۔ہوا یوں کہ مجھے ایس ایم ظفر صاحب کا فون آیا کہ وہ اور حکیم محمد سعید ایک کام کے سلسلے میں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ دونوں میرے محترم اور سینئر ہیں، مجھے بتایئے کہ میں کہاں حاضر ہوں؟ معلوم ہوا کہ اُن کو ایک بوسنین مصنف کی خودنوشت نما ڈائری ملی ہے جس کا انگریزی عنوان Tenth Circle of hell ہے اور وہ اس کا مجھ سے اُردو میں ترجمہ کروانا چاہتے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ میری انگریزی اتنی اچھی نہیں کہ میں ایسا نازک بوجھ سنبھال سکوں کہ شاعری کے ترجمے میں تو آدمی کچھ آزادی بھی لے لیتا ہے مگر نثر کا ترجمہ بہت صحت اور احتیاط مانگتا ہے۔
میری وضاحت قبول نہ ہوئی اور بالآخر میں نے’’جہنم کی دسویں گہرائی‘‘ کے نام سے اس کا ترجمہ کیا جو اب شاید کئی بار چھپ چکا ہے۔ اُن کی شہادت کے موقع پرمیں نے ایک نظم لکھی تھی جو شاید اُن سے میری محبت اور تحسین کا بہتر اظہار کر سکتی ہے، اس لیے میں مزید بات کرنے کے بجائے اُسی کو درج کر کے آپ سے اس دعا کے ساتھ رخصت لیتا ہوں کہ ربِ کریم کہیں سے حکیم صاحب جیسے دوچار غیرمعمولی انسان ہمیں اور عطا کر دے۔ حکیم محمد سعید کے لیے ایک نظم:
کوئی خوا ب تھا
کسی اور خواب کے درمیاں کوئی خواب تھا
جو بکھرگیا
وہ بکھر گیا تو ٹھہر گئیں کئی سسکیاں سی ہواؤں میں
وہ جو شہر، شہرنگار تھا کسی آنکھ میں
اُسی شہرِ جاں کی فضاؤں میں
وہی آنکھ دشنہ تیرگی کا ہدف بنی
وہی شہر پَل میں اُجڑ گیا
وہ جو اک شجر تھا وقار کا
وہ جو نامہ بر تھا بہار کا
کسی موڑ پر جو رُکا نہیں
وہ جو کٹ گیا یہ جُھکا نہیں
وہ پڑا رہا اُسی صبح اپنی ہی چھاؤں میں
اُسی شہرِ جاں کی فضائوں میں
وہ جو ہاتھ رہتا تھا مضطرب سرِنبضِ جاں
وہ جو اک تبسم جاں فزا، کسی رُخ پہ تھا
وہ جو دھیمے دھیمے سے حرف تھے کسی ہونٹ پر
وہ نہیں رہے، وہ نہیں رہے تو پتہ چلا
یہ جو گَرد اُڑتی ہے ہے روبرو
یہ جو چار سو کسی بے دلی کا حصار ہے
کوئی نیم سوز سی راکھ ہے کوئی بے جہت سا غبار ہے
اسی راکھ میں، اسی گرد میں
میری آنکھ سے تری آنکھ تک
وہی خواب اب کسی اور خواب کے درمیان ہے مشک بو
وہ جو خون خاک میں مل گیا
مری فصل گل کی ہے آبرو، مرے شہر جاں کی بہار ہے
اسی تیرگی میں یہیں کہیں، کسی روشنی کا مزار ہے
تبصرہ لکھیے