ہوم << ڈرامے باز مداری - عامر خاکوانی

ڈرامے باز مداری - عامر خاکوانی

جعلی ڈگری والے عامر لیاقت حسین کے بارے میں اس اخبارنویس کی رائے بہت ہی منفی ہے۔ میرے نزدیک یہ شخص دین کا مذاق اڑانے والا، رمضان کا تماشا بنانے، بدترین ڈرامہ بازیوں کے ذریعے ریٹنگ لینے والا ایک نہایت فضول انسان ہے، حماقت جس کے چہرے سے برستی، جہالت لبوں سے ابلتی اور کمینگی و شیطنیت اس کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے بدترین شخص کے پروگرام کو ریٹنگ مل جاتی ہے۔ اس سال 12 ربیع الاول کے موقع پر بدقسمتی سے چند منٹ کے لیے مجھے اس کی جیو ٹی وی پر ٹرانسمیشن دیکھنے کا موقع ملا تو بیٹھا دوبھر ہوگیا۔ اس کی حرکتیں اس قدر افسوسناک، گھٹیا اور بازاری تھیں کہ خون کھولنا شروع ہوگیا۔
میں سمجھتا تھا کہ یہ شخص جسے دنیا عامرلیاقت کہتی ہے، اپنے بدترین لمحات تک پہنچ چکا ہے، شر اس کے انگ انگ میں بھرا ہے، جسے بیچ کر یہ کروڑوں کماتا ہے، مگر نہیں میں غلطی پر تھا، کمینگی، گھٹیا پن اور بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ تحث الثریٰ سے بھی نیچے کی بعض منزلیں ایسے لوگوں کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ آج جنگ میں اس نے کالم لکھا. ایسا شرمناک، فضول اور گھٹیا کالم کہ مجھے افسوس ہوا، اسے جنگ اخبار نے چھاپا۔ جنگ پر تنقید کی جا سکتی ہے کئی حوالوں سے، مگر بہرحال اس قسم کے شرمناک کالم کبھی یہاں شائع نہیں ہوئے تھے۔ افسوس صد افسوس۔
اور یہ کالم اس نے بزرگ کالم نویس ہارون الرشید کے خلاف لکھا۔ ہارون صاحب کی تحریروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر تنقید کی بھی گنجائش ہے، اس خاکسار نے کئی بار ان سے اختلاف کیا اور ان کے سامنے کیا۔ وہ ایک انسان ہیں، خامیاں جس میں موجود ہونا فطری امر ہے۔ لیکن بہرحال ہارون الرشید صاحب کا کالم نگاری میں ایک بہت معتبر نام ہے۔ ان کا سحرانگیز اسلوب آج بھی ہزاروں لاکھوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ کالموں میں قرآن وحدیث کے حوالے دینا، صوفیا کے اقوال دینا شروع کیے، اس وقت جب ایسا کرنا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ہارون صاحب ٹی وی اینکرز میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں، بے لاگ، تیز اور کھری کھری گفتگو سنانے میں ان کا ثانی نہیں۔ اتفاق سے کل میں نے وہ پروگرام خود دیکھا جس میں یہ مجسم شر عامر لیاقت اور ہارون الرشید صاحب موجود تھے۔ ہارون صاحب کا جرم یہی ہے کہ انھوں نے ایم کیوایم جیسی بدمعاش اور فسطائیت کی علمبردار قاتل جماعت پر تنقید کی اور صاف صاف کہہ ڈالا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو ہائی جیک کر رکھا تھا، اس کے خلاف ایک لفظ کوئی نہیں چھاپ سکتا تھا، اس کی بدمعاشی، ظلم اور فسطائیت کی وجہ سے۔ اس پر عامر لیاقت الجھ پڑا۔ ہارون صاحب نے اس پر کوئی غیر شائستہ جملہ نہیں کہا اور صرف اتنا کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اینکر نے اس پر بریک لی اور پھر بریک کے بعد عامر لیاقت نے کہا کہ میں ہارون صاحب کا احترام کرتا ہوں، وہ سینئر کالم نگار ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ شخص ہارون الرشید کا جس قدر احترام کرتا ہے اور منافقت سے لبریز جملہ اس نے جس طرح ادا کیا، اس کی سچائی آج کے جنگ میں اس کا کالم پڑھ کر معلوم کی جا سکتی ہے۔ کالم اس قدر گھٹیا ہے کہ پوسٹ کے ساتھ اسے لگانا بھی مجھے ناگوار لگ رہا ہے۔ صرف عنوان لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔’’دنیا کا ایک بوڑھا کیڑا‘‘
اپنے قارئین اور دوستوں سے ایک معذرت کہ میں نے خلاف معمول سخت زبان لکھی اور اس بدبخت عامر لیاقت کا نام بھی کھردرے الفاظ میں لکھا، مگر یہ میرے ضبط کی انتہا ہے، ورنہ اس کا جواب قابل اشاعت زبان میں دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا، اس کا کالم پڑھ کر.

Comments

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment

  • لچر پن کا انتہائی گھٹیا مظہر!
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    روزے کا ایک بڑا مقصد علماء کرام اپنی خواہشات پر کنٹرول بتاتے ہیں… ناجائزہی نہیں جائز خواہشات پر بھی… مگر پچھلے دس برسوں سے ایک گھٹیا تماشا رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے ایسا شروع ہو گیا ہے کہ دن بھرعوام روزہ رکھ کر نفس پر کنٹرول کرنے کی مشق کرتے ہیں اور افطار کے بعد رمضان بازاری شو کے ذریعے اپنی سفلی خواہشات کو اتنا بے لگام کرتے ہیں کہ
    اس کے لیے اپنی دینی اقدار ہی نہیں مشرقی روایات و اقدار کا جنازہ بھی دھوم سے ساری دنیا کے سامنے نکالتے ہیں۔
    بیگمات لائیو اپنے خاوندوں کے منہ پر میک اپ کرتی ہیں…مرد لائیو گنجے ہوتے ہیں…شوہر و زن اپنی اپنی ساس امی یعنی ایک دوسرے کی والدہ کی شان میں ہنس ہنس کر گستاخی کرتے ہیں…اور یہ سب کن چیزوں کے لیے ہوتا ہے؟
    ایک مائیکرو اوون، ایک موبائل اور ایک بائک لینے کے لیے…
    ان مادی اشیاء کے لیے مرد و زن کی بےغیرتی کے ایسےحیا سوز مناظر نشر ہوتے ہیں کہ شریف آدمی دیکھ لے تو پسینے چھوٹ جائیں!
    "عامر بھائی ایک مجھے بھی دو ناں، ایک ادھر پھینکو ناں پلیز…"
    ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان چہرے پر بھکاری کے سے تاثرات لاتے ہوئے بڑے مسکین سے لہجے میں التجا کرتا ہے اور اپنی خودداری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتا ہے!
    حیا کی موت دیکھنی ہے تو وہ دیکھیے ایک لڑکی منہ میں انڈہ لیے اور اس کا شوہر بے حیائی سے منہ میں آم دبائےکھڑا ہوا ہے… کس لیے؟… دس پانچ ہزارکے گفٹ کے لیے!
    ذلت کی انتہا دیکھنا چاہو تو ان عورتوں کو دیکھ لو جنہیں مرغے کی آواز ککڑوں کوں مسلسل نکالتے ہوئے اسٹیج کے گول دائرے میں تیز تیز سائیکل چلانا ہے… کس لیے؟
    اس لیے کہ سونے کا وہ چمکتا زیور پا سکیں جو عورت کے ایسی تذلیل پر نوحہ کناں ہے!
    اجتماعی وقار کا جنازہ دیکھنا ہو تو ادھر دیکھو: دور سے میزبان ہوا میں تحفے اچھال رہا ہے… اور ایک ایک چیز کے لیے پبلک ایسے بھوکے کتوں کی طرح جھپٹ رہی ہے، جنہیں کئی دنوں کے بعد ہڈی مل سکی ہے… مردوں کی قمیص کے بٹن ٹوٹ رہے اورعورتوں کی جائے شرم کھل رہی مگر کسے پروا ہے؟… کسی طرح کچھ تو حاصل ہو گا نا!… یہ سب دیکھ کر میزبان کے چہرے پر رعونت آمیز مسکراہٹ رینگنے لگتی ہے…
    ادھر پروگرام کے مہمان خصوصی حضرات جو بے شک علم کے نام پر دھبہ ہیں، بڑی ادا سے ماحضر سے شوق فرما رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر مطمئن مسکان اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ ان کی بھینٹ چڑھائے جانے والا، ان کے حصے کا راتب ان تک پہنچ چکا ہے!
    ارے دین کی بات تو چھوڑئیے… کیا اس سب بازاری پن کا ہماری خودداری وقار اور شرافت کی مظہر مشرقی اقدارو روایات سے کچھ ذرا سا بھی تعلق ہے؟!
    ***
    نوٹ: سخت الفاظ استعمال کرنے پر ہرگز معذرت خواہ نہیں…!