آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ہر کوئی اسلام اور مسلمانوں کا امیج بگاڑنے میں مصروف ہے، بلکہ پوری دنیا میں بڑے زور وشور کے ساتھ یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات نعوذباللہ فتنہ وفساد پر مبنی ہے، مسلمانوں کے اداروں میں لوگوں مارنے اور قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے، یہ آفاقی مذہب ہے، وحی الہی کے ذریعہ اس کو دنیا میں اتاراگیا۔
انسانوں کی رشد وہدایت اس کی تعلیمات میں مضمر ہے، اس کا پیغام کسی ایک قوم اور خطہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ اللہ نے اپنے آخری نبی محمد عربی ؐ کے ذریعہ پوری دنیا میں عام کیا۔مشرق ومغرب، شمال وجنوب، کالے ،گورے ہر ایک شخص تک اس پیغام کو پہنچایاگیا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جزیر ۃ العرب سے نکل کر دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل گئے اور جو فریضہ اللہ کے نبی ؐنے ان کے کاندھے پرڈالا انہوں نے اس کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ رسول اللہؐ ’’ رحمۃ للعالمین‘‘ تمام دنیا کے لئے رحمت ہے اور ان کاپیغام بھی تمام دنیا کے لئے ہے‘‘۔ رحمۃ للعالمین کا پیغام آفاقی ہے، اسے ہر ہرقوم تک پہنچانا ہم امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ہمیں خیر امت کہاگیا مزید’’ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘ کرنے والا بھی بنایاگیاہے۔
اس لئے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ خدا کے اس پیغام کوہرفردِ بشر تک پہنچائیں۔اور ان کے ذہن ودماغ میں اسلام کی جو شبیہ غیروں نے پیش کی ہے، ہم دلائل اور ثبوتوں کے ذریعہ اس کے سامنے صاف شفاف اس اسلام کو پیش کریں جوسراپارحمت ہے، نبی ؐ کی اس تعلیمات سے روشناس کرائیں جس میں انسانیت کی قدروقیمت بتائی گئی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اندلس میں مسلمانوں پر جو گذری اس کا وہم وگمان بھی انہیں اپنے دور عروج میں نہ ہواہوگا۔اس وقت دنیا میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس کی بھی نوعیت کچھ اسی طرح کی ہے۔ اسلام امن وسلامتی کا پیامبر ہے، وہ نفرت اور بغض وعداوت کو پسند نہیں کرتا، انسانوں کو ایک کنبہ قراردیتاہے، اس کے نزدیک انسانیت کے اعتبار سب برابرہیں کسی میں کوئی تفریق نہیں۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ولادت نبی ﷺکو ذوق ونظر کی تسکین کا سامان اور اپنی تفریح کا مشغلہ نہ بناکر حضور کی تعلیمات وارشادات کی تبلیغ کی جائے۔اس وقت پوری دنیا جس اخلاقی پستی اور لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اس کا علاج صرف شفاخانہ نبوی ؐسے مہیا ہوسکتاہے، اگر دم توڑتی ہوئی انسانیت کے حلق میں پانی کا کوئی قطرہ جونئی زندگی عطاکرنے کے لئے ٹپکایاجاسکتاہے تو وہ نبوت محمدی ؐ کے چشمہ ہی سے حاصل ہوسکتاہے، انسانیت کو سکون اور نئی زندگی عطاکرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔آپ کی سیرت پاک کا منشاء یہی ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہو۔
لوگ شیطان کے طریقے پر چلنے کے بجائے اللہ کے حکم کے تابع رہیں۔آج مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ امت کا بیشتر طبقہ آپ کے حالات زندگی اور سیرت کے روشن پہلوؤں سے واقف نہیں۔ لوگوں کو دنیا والوں کے حالات اچھے اور برے کی خبر ہے لیکن نہیں معلوم تو آقاکے حالات نہیں معلوم۔ یہ نہیں معلوم کے آقاؐ نے زندگی میں کبھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور ہر لمحہ امت مسلمہ کی فکر کرتے رہے کہ کیسے یہ امت کامیاب ہوجائے اور اس امت کا بیڑا پار ہوجائے۔ معراج کے موقع پر آپ ؐنے نمازوں میں تخفیف کرائی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ امت پانچ نمازیں پڑھے گی تو اسے پچاس نمازوں کو ثواب ملے گا۔ آپؐکو معراج کی سعادت نصیب ہوئی اللہ سے ہم کلامی کا شرف ملا تو آ پ کی امت کو یہ انعام ملا کہ اگر آپ ؐکا امتی نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے دربار میں کھڑا ہے اور اللہ سے بات کر رہا ہے۔
یہ نماز کے حوالے سے امت محمدیہ ؐ کو ملنے والا ایسا انعام ہے جو دیگر امتوں کو نہیں ملا۔ چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ آپؐ کی سیرت کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لایا جائے اور امت کو اس بات پر راغب کرایا جائے کہ امت نبی ؐکی نام لیوا بھی ہو اور نبی ؐ کی سنتوں پر عمل پیرا بھی۔ اللہ کی مدد کے وعدے زبانی دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اللہ کی مدد کے طلب گار ہوں اور نبی ﷺکو سنتوں سے اپنی زندگی کو آراستہ کریں۔حضرت محمد مصطفی ﷺکی سیرتِ پاک اور آپ کی زندگی کا نمونہ تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ اور انسانیت کے تمام مسائل کا حل ہونے کے ساتھ ساتھ کامیابی کا ضامن بھی ہے۔اگر موجودہ وقت کی انسانیت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی نے آج پوری دنیا سے امن کا خاتمہ کردیا ہے اور نتیجتاً انسانی زندگیوں سے چین و سکون غارت ہوگیا ہے۔
ہر کوئی اس صورت حال سے پریشان اور متاثر نظر آتا ہے۔ ایشیا کے ترقی پذیر ممالک سے لے کر سپر پاور امریکہ تک دنیا کا کوئی خطہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں امن و امان اور شہریوں کے لیے تحفظ کی کیفیت ہو۔ کسی بھی ملک کے باشندے اپنے ہاں کے حالات اور ماحول سے نہ خوش ہیں اور نہ مطمئن۔ علاقائی جنگوں نے پوری دنیا کے مستقبل کو غیر یقینی بناکر خطرات کے دہانے تک پہنچا دیا ہے اور ان کی وجہ سے بے شمار بے گناہ جانیں قربان ہورہی ہیں۔ کروڑوں لوگ بے گھر ہوکر پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ رنگ و نسل کا امتیاز معاشی جبرو استحصال امیر و غریب ممالک کے درمیان عدم مساوات، عدم تعاون، بے روزگاری، جہالت، غریبی، بیماری ، ا?وارہ گردی اور منشیات کا حد سے بڑھتا ہوا رجحان وہ مسائل ہیں جنھوں نے معاشرتی اعتبار سے دنیا کے نظام کو کھوکھلا کردیا ہے۔ عورتوں کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے، ترقی اور ا?زادی کا لالچ دے کر ان کا استحصال ہورہا ہے۔
جنسی بے لگامی، فحاشی، بے حیائی، عریانیت اور بے قید ا?زادی سے ماحول پراگندہ ہورہا ہے۔ ماحولیاتی مسائل نے پوری دنیا کے صحت مند وجود کو بڑے بڑے چیلنج پیش کردیے ہیں اور دنیا کے دانشوران مستقبل کا تصور کرکے پریشان ہوجاتے ہیں۔ اور یہ کیفیت ہے کہ ’’لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب خشکی و تری پر فساد برپا ہوگیا ہے۔‘‘چودہ سو سال پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کو مبعوث فرمایا اس وقت کے معاشرہ کی صورت حال بھی یہی تھی ۔ مگر آپ ؐکے پیغام اور آپ کے احباب کی جدوجہد نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔
آج کے امریکہ کی طرح اس وقت کی سپر طاقتیں جنھوں نے کمزور انسانیت پر ظلم و جبر کی انتہا کررکھی تھی ان کے قدموں میں گرگئیں اور دنیا سے ظلم و جبر اور نا انصافیوں کا خاتمہ ہوگیا۔سماجی اور معاشرتی اعتبار سے ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’تمہارے لیے رسول اللہ ؐ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘یعنی رسول اللہ ؐکی سیرتِ پاک کی پیروی ہی میں دنیا کے تمام مسائل کا حل اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
تبصرہ لکھیے