ہوم << دائروں کا سفر - مفتی منیب الرحمن

دائروں کا سفر - مفتی منیب الرحمن

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یاد کرو !جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو چیر دیا ، پھر تمھیں نجات دی اور ہم نے فرعونیوں کو غرق کردیا اور تم (یہ منظر) دیکھ رہے تھے،(البقرہ:50)‘‘۔الغرض اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے سمندر کے بیچ راستہ بنادیا ، انھوں نے اپنی قوم کے ہمراہ آسانی سے سمندر پار کرلیا ،پھر ان کی دیکھا دیکھی فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ اُن کے تعاقب میں سمندر میں جونہی داخل ہوا.

اللہ تعالیٰ نے سمندر کورواں کر دیااوروہ اپنے لشکر کے ہمراہ سمندر میں غرق ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ مقدس سرزمین میں داخل ہوں ،اللہ انھیں فتح عطا فرمائے گا، لیکن انھوں نے بزدلی دکھائی ، اللہ کے حکم کو نہ مانا اور موسیٰ علیہ السلام سے کہا:’’ آپ اور آپ کا رب جاکر اُن سے لڑ لیں ، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے ‘‘، اس نافرمانی کی پاداش میں وہ چالیس برس تک فاران سے شرقِ اُردن تک کے علاقے میں بھٹکتے رہے ،اسی عرصے میں اُن کے بیشتر لوگ وفات پاگئے ، حضرات موسیٰ وہارون نے بھی وفات پائی، پھر حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل مقدس سرزمین میں داخل ہوئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’(موسیٰ علیہ السلام نے کہا:)اے میری قوم !اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ نہ دکھانا ورنہ تم خسارے میں رہوگے،کہنے لگے: اے موسیٰ! اس زمین میں بڑی جابر قوم ہے ، جب تک وہ اس سرزمین سے نکل نہ جائیں ،ہم اس زمین میں ہرگزداخل نہیں ہوں گے ،البتہ اگر وہ اُس سے نکل جائیں توہم ضرور اس میں داخل ہوجائیں گے، اللہ کا خوف رکھنے والے دو انعام یافتہ آدمیوں نے کہا: تم دروازے سے اُن پر داخل ہوجائو، جب تم دروازے سے داخل ہوجائو گے تو بے شک تم ہی غالب رہوگے اوراگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی بھروسا رکھو ، کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ اُس میں رہیں گے، ہم اُس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے ، جائیے!

آپ اور آپ کا رب ان سے جنگ کرلیں ، بے شک ہم یہیں بیٹھے رہیں گے، موسیٰ نے کہا: اے میرے رب! بے شک مجھے صرف اپنا اور اپنے بھائی کااختیار ہے، تو ہمارے اور نافرمان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمادے،اللہ نے فرمایا: یہ سرزمین چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی ، یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے ،سو آپ ان نافرمان لوگوں پر افسوس نہ کریں، (المائدہ:21-26)‘‘۔

پس ہم پاکستانی بھی پچھتر سال سے بھٹک رہے ہیں ،ابتدائی 9سال میں ہم اپنا دستور بھی نہ بناسکے، پھر 1956میں ون یونٹ پر مبنی دستور بنا۔قومی اسمبلی میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی مساوی نمائندگی کا فارمولا طے پایا، 1958میں مارشل لا نافذ ہوا اوروہ دستور منسوخ کردیا گیا۔ پھر 1962میں بنیادی جمہوریت کے اصول پر مبنی ایک نیا دستور بنا، 1969میں دوسرے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ وہ بھی منسوخ ہوگیا۔1971میں جب پاکستان دولخت ہوگیااوراُس وقت کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹرجنرل یحییٰ خان نفرت کی علامت بن گئے ،انھوں نے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کیا ، انھوں نے 1972میں عبوری آئین دیا ،پھر پہلی بار پاکستانی پارلیمنٹ نے 1973میں ایک متفقہ وفاقی پارلیمانی دستور تشکیل دیا۔

1977میں جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کرکے دستورکو معطل کردیا حتیٰ کہ 1988میں وہ کئی سرکردہ شخصیات کے ہمراہ طیارے کے حادثے کا شکار ہوئے ، پھر 1988میں 1973کے دستور کے مطابق انتخابات ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ 1990میں اُن کی حکومت معزول کردی گئی اورنواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ 1993میں اُن کی حکومت بھی معزول کردی گئی اور دوبارہ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں، پھر1996میں اُن کی حکومت دوبارہ معزول کردی گئی۔ 1997میں نواز شریف دوسری باربھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوئے،پھر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ان کی حکومت کومعزول کرکے انھیں پابندِ سلاسل کردیا.

وہ خود ہی چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے ملک کے چیف ایگزیکٹیو بن گئے اور فوجی وردی میں2008تک اقتدار پرفائز رہے۔دریں اثنا 2002میں قومی انتخابات ہوئے اور ایک اطاعت گزار جمہوری نظام قائم کردیا گیا، سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ کردیا گیا،خواتین اور اقلّیتوں کے لیے ایک بار پھربڑی تعداد میں بالواسطہ انتخاب پر مبنی نشستیں مختص کردی گئیں۔2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے، اپریل2012میں سپریم کورٹ نے انھیں نا اہل قرار دیدیا ، ان کی بقیہ مدت راجہ پرویز اشرف نے پوری کی۔ پھر عام انتخابات کے نتیجے میں 2013میں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے اور 2017میں سپریم کورٹ نے انھیں تاحیات نا اہل قرار دیدیا، ان کی بقیہ آئینی مدت شاہد خاقان عباسی نے پوری کی۔

2011سے سائیڈ لائن میں پروجیکٹ عمران خان لانچ ہوا ،اسٹبلشمنٹ کے ذریعے اُن کوایک نجات دہندہ کے طور پرپیش کیا گیااور 2018ء میں انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے وہ وزیر اعظم بنے۔اس لحاظ سے اُن کے دور کو مثالی کہا جاتا تھا کہ وہ اسٹبلشمنٹ کا انتخاب تھے، اقتدار تک پہنچانے کے لیے اُن کے حق میں تمام اسباب سازگار بنادیے گئے۔خود اُن کے بقول ادارے اُن کے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کردیتے تھے ،ہرمشکل مرحلے پر ارکانِ اسمبلی کو وہی گھیر کر خان صاحب کی خدمت میں پیش کرتے تھے، ’’ایک صفحے‘‘کی گردان تسلسل کے ساتھ جاری رہی ۔ لیکن پھر اچانک آئینے میں بال آگیا ، وہ ایک صفحہ پھٹ گیا ، خان صاحب کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ، انھوں نے اس کی راہ میں ہر قسم کی غیر آئینی رکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن چونکہ آسمانوں پر فیصلے ہوچکے تھے، اس لیے انھیں مطلوبہ غیبی امداد میسر نہ آئی ،آخر کار تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوئی اور متحدہ اپوزیشن کی حکومت قائم ہوگئی۔

یہ تبدیلی آئین کے مطابق تھی ، لیکن خان صاحب اسے اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہیں ، کیونکہ اُن کے نزدیک اُن کی ذاتِ والا صفات اس لائق ہے کہ طاقت کے تمام مراکز اُن کی ظاہری و باطنی اعانت کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہیں ،اُن کے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہر ممکن تدبیر کریں ۔لیکن چونکہ اس بار اسٹبلشمنٹ نے غیرجانبدار رہنے کافیصلہ کرلیا تھا ، اس لیے انھیں سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے خان صاحب نے اُن کی غیر جانبداری پرکئی فتوے لگائے،مثلاً: ہینڈلر ،سازشی، میر جعفر، میر صادق ، جانوراور غدار وغیرہ،نیز فلور کراسنگ یعنی اپنی ذات سے بے وفائی کو انھوں نے شرک سے تعبیر کیا۔ الغرض اسٹبلشمنٹ پراُن کی اپنی یہ پروڈکٹ بہت بھاری پڑی۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے سمیت پچھتر سالوں میںاداروں کی ایسی توہین اور تحقیر نہیں ہوئی ،جو خان صاحب کے ہاتھوں ہوئی ، اب سنا ہے پسِ پردہ پھر رابطے ہورہے ہیں ، واللہ اعلم بالصواب۔

یہ پس منظر ہم نے اس لیے بیان کیا کہ پاکستانی قوم پچھتر سال سے بنی اسرائیل کی طرح ایک دائرے میں سفر کر تی رہی ہے، جمہوریت کا سفر دوقدم آگے بڑھا تو چار قدم پیچھے آگیا، نظام کو تسلسل نہ ملا ، کبھی بھی آئین پر لفظًاو معناً عمل نہیں ہوا، کبھی براہِ راست فوجی اقتدار قائم ہوا، کبھی تابع فرمان جمہوریت چلائی گئی اور آخری تجربہ ایک ایسی جمہوریت کا تھا ،جس کے نظم کو نادیدہ ہاتھ پسِ پردہ رہ کر چلارہے تھے ، ہم اسے ’’بندوبستی جمہوریت ‘‘کہہ سکتے ہیں، یہ غیبی ہاتھ اتنے نادیدہ بھی نہ تھے ، داغ دہلوی نے کہا تھا:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں بندوبستی جمہوریت کا نقصان یہ ہوا کہ خان صاحب اسٹبلشمنٹ کی تمام تر حمایت کے باوجود ایک مدبّر، حلیم الطبع ، دوراندیش، صاحبِ بصیرت اور عملی سیاست دان نہ بن سکے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد اُنھیں شکایت رہی کہ پہلے کی طرح اسٹبلشمنٹ نے اُن کے اقتدار کو کیوں نہ بچایا۔ یہ دراصل اُن کی جانب سے اپنی نا اہلی کا اعتراف ہے کہ وہ خود اپنے مخالف سیاست دانوں سے نہ مکالمہ کرسکتے ہیں ،نہ مشکل حالات میں کوئی راستہ نکال سکتے ہیں، جیساکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کیا کرتے تھے۔

اپنے مخالفین سے ملنا ، اُن سے مکالمہ کرنا ، اُن کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنا ، اُن کو منتخب نمائندوں کی حیثیت سے احترام اور جائز مقام دینا ،خان صاحب کی افتادِ طبع اور فطرت کے سراسر خلاف ہے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد بھی اُنھوں نے یہ پسند نہ کیا کہ تھوڑی دیر رک کر اپنے طرزِ حکومت اور طرزِ عمل کا جائزہ لیں، اپنی اوراپنی ٹیم کی ناکامیوں اور کمزوریوں کا ادراک کریں، اسٹبلشمنٹ کے بغیر اپنے بل پر نظام کو چلانا سیکھیں اور دوبارہ ایک پختہ کار اور مدبر سیاست دان کی حیثیت سے مخالفین کے مقابل میدان میں اتریں۔ اس کے برعکس انھوں نے اپنے لیے ایک ہیجان خیز ،جذباتی ،غضب ناک اور مشتعل رہنما کا کردار پسند کیا،وہ اپنے لیے ایسی فضا چاہتے ہیں جس کی تصویر کشی پنجابی شاعر نے بخوبی کی ہے:

’’حجرے شاہ مقیم دے ،اک جٹی عرض کرے٭میں بکرا دیواں پیر دا،جے سر دا سائیں مرے٭پنج ست مرن گوانڈناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے٭ہٹی سڑے کراڑ دی،جتھے دیوا نِت بلے٭کتّی مَرے فقیر دی،جیڑی چوں چوں نِت کرے ٭سنجیاں ہو جان گلیاں،وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اب کہا جارہا ہے:’’فوج نے سیاست سے دوری اختیار کرکے اپنے آئینی کردار پر قناعت کرلی ہے اور جمہوری نظام میں غیر آئینی دخل اندازی سے توبہ کرلی ہے‘‘۔ اللہ کرے یہ بات لفظاًاورمعناًدونوں اعتبار سے صحیح ہو، لڑکھڑاتے ،ڈگمگاتے چلتے ہوئے ملک کا جمہوری نظام آخرِ کار مستحکم ہوہی جائے گا، ادارے مضبوط ہوں گے ، دنیا کو معلوم ہوگا کہ اس ملک کی زمامِ کار درحقیقت کس کے ہاتھ میں ہے۔

فوج کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ پر بھی لازم ہے کہ وہ ملک کے آئینی اداروں اور ایگزیکٹیو کو اپنی حدود کے اندر چلنے دے ، جو حدود سے تجاوز کرے ،اُس پر نظر رکھے ، اُس کی گرفت کرے ،اُسے راہِ راست پر لائے۔ لیکن اپنے آپ کوبھی آئین وقانون کی حدود میں رکھے ، خود آئین وقانون لکھنے نہ بیٹھ جائے ، کیونکہ یہ اس کا دائرۂ اختیار نہیں ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کی طرح مولا جٹ بن کر چھاپے نہ مارے ، از خود نوٹس کے لیے کوئی معیار مقرر کرے ۔

اپیلٹ کورٹ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لے، لیکن پاناما لیکس کی طرح خود تحقیقی وتفتیشی ادارہ یعنی ٹرائل کورٹ نہ بنے، ماتحت عدالتوں پر نگراں جج بٹھا کر انھیں ڈکٹیٹ نہ کرے ،بلکہ انھیں ریگولیٹ کرے، یعنی آئین وقانون کا پابند بنائے۔