ہوم << ہمارے رہنما حضرت محمدﷺ ۔اسوہ بتول

ہمارے رہنما حضرت محمدﷺ ۔اسوہ بتول

طائف میں مقدس خون ٹپکا مکہ میں کبھی پتھر کھائے
بس ایک تڑپ تھی، کیسی تڑپ؟ انسان ہدایت پا جائے
ہر غم کو لگا کر سینے سے درماں کے طریقے سے سکھلائے
کیا قہر ہے یہ انسان اسی محسن کو بھلا کر کھو جائے

حضرت محمد ﷺ نے زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ آپ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی سنتوں پر عمل کرنے کے فائدے جدید تحقیقات کی روشنی میں معلوم ہو رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں دوست اور دشمن سے حسن سلوک کرنا سکھایا۔ آپ کے حسن سلوک کو دیکھ کر آپ کے دشمن بھی مسلمان ہو جاتے تھے۔ تنگدستی اور خوشحالی آپ ﷺ نے ہمیں صبر و شکر کرنا سکھایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
"بے شک اللہ کے رسول میں، تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔" (سورہ احزاب:21)
دعوت اسلام کے بعد مشرکین کی مخالفت سے جو بات آپ ﷺ کو رنجیدہ کرتی تھی، وہ یہ نہیں تھی کہ مشرکین نے آپ کو اذیت پہنچائی بلکہ وہ یہ بات تھی کہ مشرکین ایمان نہ لائے، تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
آپ اخلاق فاضلہ کے مالک تھے۔ قبیلوں میں امن رکھنے والے، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر رکھنے والے، کما کر مفلسوں کو کھلانے والے، بے مثال مہمان نوازی کرنے والے اور ہر وقت حق کا ساتھ دینے والے تھے ۔غرض یہ کہ آپ ہر کسی سے اچھا سلوک کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔
"بے شک آپ اخلاق کے اعلی درجے پر فائز ہیں۔"(سورہ القلم :4)
آپ نے اپنے مثالی اخلاق سے ہماری رہنمائی فرمائی۔ آپ نے جو اخلاقیات ہمیں سکھائی ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
دیانتداری: حضرت محمد ﷺ کو نبوت سے پہلے ہی الامین کا لقب دے دیا گیا تھا۔ تمام مشرکین آپ کے پاس اپنی امانتیں جمع کرواتے تھے۔آپ ﷺ اتنے دیانت دار تھے کہ انہوں نے ہجرت مدینہ کے وقت ان لوگوں کی امانتوں کی ادائیگی کا اہتمام فرمایا جو آپ کی جان کے درپے تھے۔
ایفاۓ عہد: صلح حدیبیہ کے موقع پر جب معاہدہ ہو چکا تھا اور حضرت ابو جندل زخموں سے چور زنجیروں میں جکڑے ہوئے آپ کے پاس آئے، تو آپﷺ نے شفیق ہونے کے باوجود حضرت ابو جندل کو اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو جندل کو ایسی حالت میں دیکھنا آپ ﷺ کے لئے اور باقی مسلمانوں کے لیے بھی بہت مشکل تھا لیکن صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پیش نظر سب نے صبر سے کام لیا ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ ﷺ کو ایک جگہ پر کچھ رقم لانے کا وعدہ کیا۔ وہ شخص یہ بات بھول گیا اور آپ ﷺ تین دن تک وہیں بیٹھے رہے۔
سخاوت و ایثار: حضرت محمد ﷺ کے ایثار کیا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کے پیٹ پر بھوک سے پتھر بندھے ہوئے ہوتے تھے، لیکن پھر بھی وہ دوسروں کو کھلا رہے ہوتے تھے۔ بعض اوقات کئی ہفتوں تک آپ ﷺ کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا لیکن پھر بھی آپ ﷺ کے گھر سے کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں گیا۔ ایک مرتبہ انہوں نے جانور ذبح کیا اور تھوڑے سے گوشت کے علاوہ تمام گوشت تقسیم کر دیا۔
سچائی: حضرت محمد ﷺ نبوت سے پہلے ہی اپنی سچائی کی وجہ سے صادق کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے یہاں تک کہ مزاح کرتے وقت بھی سچ ہی بولتے تھے۔
انصاف: حضرت محمد ﷺ نے انصاف کے معاملے میں بلاامتیاز تمام نسل انسانی میں مساوات قائم کرنے کا حکم دیا۔ ایک مرتبہ ان کو لگا کہ انہوں نے کسی کو غلطی سے تکلیف دی ہے تو انہوں نے اس کو بدلہ لینے کی اجازت دے دی۔ آپ ﷺ آپ نے سب صحابہ کو اس طرح محبت اور عزت دیتے کہ سب کو یہی لگتا تھا کہ وہی آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔آپ قانونی اور کاروباری معاملات میں بھی انصاف کرتے اور گھر کے اندر بیویوں کے درمیان بھی انصاف کرتے تھے۔
حیاء :آپ ایک پردے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ ہنستے تو منہ پھاڑ کر نہ ہنستے تھے بلکہ اپنی مسکراہٹ کو ہی گہرا کر لیتے تھے۔ اگر صحابہ کے کسی کام سے آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہوتی تو وہ حیا کی وجہ سے ان سے کچھ نہ کہتے تھے۔ ان کے اٹھنے ،بیٹھنے، رہنے اورھنے اور گفتگو میں بھی حیا نظر آتی تھی ۔ نامحرموں سے معاملات میں نظر نیچی رکھنے اور سیدھی اور صاف بات کرنے کے قرآنی اصولوں پر سب سے پہلے وہ کار بند تھے۔

حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا اتباع کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ قرآن میں تیرہ مقامات پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
" رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔" (سورہ آل عمران: 132)
حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن ان تعلیمات کو ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی قوم کا رویہ دیکھیں تو وہ ان کی تعلیمات و ہدایات کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے انصاف کا یہ حال ہے کہ آج اونچے طبقے کے لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہیں اور غریب کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے۔ ایفاۓ عہد ایسا ہوتا ہے کہ سیاست دان سینکڑوں وعدے کر کے بھول جاتے ہیں۔ دیانتداری کا یہ عالم ہے ایک دیانتدار آدمی کو بدھو سمجھا جاتا ہے اور بد دیانتی قابل فخر سمجھی جاتی ہے۔ حیا کے معاملے میں آج حیا والی لڑکی کو کانفڈنس کی کمی کا شکار سمجھا جاتا ہے اور بے حیا لڑکی کو بولڈ کہ کر سراہا جاتا ہے۔ سخاوت اور ایثار کا یہ حال ہے کہ لوگ خود تو اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور غریبوں کو اتنے پھٹے ہوئے کپڑے دیتے ہیں جو پہننے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ بڑی بڑی دکان پر مہنگا بل بھی پی کر دیتے ہیں لیکن سبزی والے سے معمولی پیسوں پر بحث کرتے ہیں۔ اور جھوٹ کے بغیر تو ہر کام نامکمل ہے۔ جھوٹ بولنے کو بہت ہلکا لیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے معاشرے کو بدلنا ہے۔ ہم سب کو مل کر کر حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو پھیلانا ہے۔ نیکی کو عام کرنا ہے اور برائی کو اجنبی بنانا ہے۔ شمس نوید عثمانی کہتے ہیں

آباد ہوئی عشرت گاہیں، ویران مساجد روتی ہیں
طاری فضا پر موسیقی، پامال اذان ہوتی ہیں
برباد خزاں ہے مستقبل، ماضی کی بہاریں سوتی ہیں
پھولوں کے بجائے کانٹوں میں، شبنم کے شکستہ موتی ہیں
یہ وقت عمل کردار ہیں شل، کیا دست دعا پھیلاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتے شرماتا ہوں۔

Comments

Click here to post a comment