ہوم << فن حدیث کا مختصر سا تعارف - عبدالمتین

فن حدیث کا مختصر سا تعارف - عبدالمتین

1۔حدیث کی تعریف:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے

1۔قول

2۔فعل

3۔تقریر

کو حدیث کہتے ہیں۔

2۔حدیث کا موضوع

حدیث کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک ذات ہے۔

3۔حدیث کی ضرورت

انسان زندگی گزارنے کے لیے نظریہ اور عمل دونوں کا محتاج ہے اسی لیے اللہ رب العزت نے انسانوں کی نظریاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے "قرآن کو نازل فرمایا۔اور اس نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے "حدیث" کا سلسلہ جاری فرمایا ۔ قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(احزاب) ترجمہ: تمہارے لیے آپ علیہ السلام کی زندگی ایک بہترین عملی نمونہ ہے۔

جیسے اللہ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ فرمایا اقیموا الصلوة یعنی نماز قائم کرو، لیکن پورے قرآن میں نماز کا طریقہ نہیں لکھا جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے نماز کا "نظریہ" دیا اور نماز کب کہاں کس طریقے سے پڑھی جائے گی یہ سب کا سب آپ علیہ السلام کے عمل نے سکھلایا جو کہ ہمیں "حدیث" کی صورت میں دستیاب ہے۔

منکرین حدیث کی تعریف:وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دین سمجھنے کے لیے ورف "قرآن" کافی ہے معاذ اللہ حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔اس طرح وہ قرآن کا نام لے کر چالاکی سے حدیث کا انکار کرتے ہیں اسی لیے ان کو "منکرین حدیث" یعنی حدیث کا انکار کرنے والے لوگ کہاجاتا ہے جو کہ "کافر"ہیں۔منکرین حدیث ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کو اسلامی زندگی نظریے تک محدود کرکے عمل سے جان چھڑائی جائے اور کافروں کے طریقے کے مطابق مسلمانوں کا عمل محدود ہوجائے۔ کیونکہ حدیث میں جو عمل ذکر کیا گیا ہے وہ ہماری زندگی کے درج ذیل حصوں پر مشتمل ہے

1۔عبادات

2۔اخلاقیات

3۔معاشرت

4۔معاملات

5۔سیاسیات

منکرین حدیث چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی سے یہ پانچ چیزیں نکل جائیں تاکہ ان کی زندگی کافروں کے مطابق ہوجائے۔

چند اہم اصطلاحات:

سند کی تعریف: حدیث کو بتلانے والے لوگوں کی لسٹ جس کی کڑیاں زنجیر کی طرح ایک ایک راوی سے ہوتے ہوتے تابعی صحابی پھر یہاں تک کہ آپ علیہ السلام تک جاملتی ہیں اس پورے سلسلے کو "سند" کہا جاتا ہے۔

سند متصل کی تعریف: وہ سند جس کی مکمل کڑیاں آپس میں جڑی ہوئی ہوں ایک بھی بیچ سے کٹی نہ ہو یعنی حدیث کو بتلانے والے تمام لوگ سند کی لسٹ میں پہلے سے لے کر آخر تک مقجقد ہقں کوئی ایک بھی کم نہ ہو۔

راوی،مروی کی تعریف: حدیث بیان کرنے والے کو "راوی" کہتے ہیں۔ راوی جس حدیث کو بیان کررہا ہے اسے "مروی" کہتے ہیں جس کی جمع "مرویات" ہے ۔

صحیح،ضعیف،موضوع

حدیث صحیح ہے یا ضعیف ہے یا موضوع ہے اس کا پتہ سند سے چلتا ہے سند میں راوی جیسے ہوں گے ویسا ہی حدیث کا درجہ ہوگا۔

حدیث کی تین بنیادی اقسام :

1۔ صحیح حدیث

وہ حدیث جس کے اندر تین خوبیاں ہوں:

1۔ سند متصل ہو

2۔ راوی کا حافظہ(memory) مصبوط ہو یعنی بھولتا نہ ہو۔

3۔ راوی کا کردار اچھا ہو یعنی پکا سچا ایماندار اور نیک ہو۔

جس حدیث کی سند میں سب راوی موجود ہوں اور ان میں اوپر والی سب خوبیاں ہوں تو وہ "صحیح حدیث" کہلاتی ہے۔

ضعیف حدیث کی تعریف

وہ حدیث جس کی سند میں ایسے راوی ہوں جن کا حافظہ کمزور ہو یا وہ اتنے نیک نہ ہوں جتنا ہونا چاہیے(جیسے صحیح والے ہیں)۔

موضوع حدیث کی تعریف

وہ حدیث جس کی سند میں ایسے راوی ہوں جو "جھوٹ" بولتے ہوں۔ اسی لیے موضوع حدیث بیان کرنے والا بہت زیادہ گناہ گار ہوتا ہے۔

صحاح ستہ کی تعریف

"صحاح" یہ صحیح کی جمع ہے اور "ستہ" عربی زبان میں چھ کو کہتے ہیں لہذا "صحاح ستہ" کا مطلب ہے : "حدیث کی وہ مشہور چھ کتابیں جن کی اکثر احادیث کی سند "صحیح" ہے۔

اہم بات: یہ چھ مشہور حدیث کی کتابیں ہیں "فقہ" یعنی مسائل کی نہیں لہذا دین کے مسائل سمجھنے کے لیے فقہ کی کتابیں پڑھنا بھی ضروری ہے۔

نوٹ: حدیث کی کتابیں ہزاروں ہیں صرف "صحاح ستہ نہیں" ہیں بس اتنا فرق ہے کہ یہ چھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں۔

صحاح ستہ کا مختصر تعارف

1۔صحیح بخاری

یہ محمد بن اسماعیل بخاری رح نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 194 ہجری میں اور وفات 256 ہجری میں ہوئی۔

2۔صحیح مسلم

یہ مسلم بن حجاج نیشاپوری رح نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 202 ہجری میں اور وفات 261 ہجری میں ہوئی۔

3۔سنن ابو داود

یہ ابوداود سلیمان بن اشعث رح نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 202 ہجری اور وفات 275 ہجری میں ہوئی۔

4۔جامع سنن ترمذی

یہ ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی رح نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 209 ہجری اور وفات 279 ہجری میں ہوئی۔

5۔سنن نسائی

یہ ابو عبداللہ احمد بن شعیب نسائی رح نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 214 ہجری اور شہادت 303 ہجری میں ہوئی۔

6۔ سنن ابن ماجہ

یہ محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ نے ترتیب دی ہے جن کی پیدائش 209 ہجری اور وفات 273 ہجری میں ہوئی۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم

ان چھ میں بھی زیادہ اہم "صحیح بخاری اور صحیح مسلم" ہیں لہذا جو روایت ان دونوں کتابوں میں موجود ہو اسے "متفق علیہ" کہتے ہیں یعنی اس حدیث کی سند پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ وہ بالکل درست ہے۔