ہوم << ٹرانس جینڈر ایکٹ، خواتین کے حقوق پر ڈاکہ لبرل منافقت اور ایل جی بی ٹی کی کھلتی راہیں - محمدعاصم حفیظ

ٹرانس جینڈر ایکٹ، خواتین کے حقوق پر ڈاکہ لبرل منافقت اور ایل جی بی ٹی کی کھلتی راہیں - محمدعاصم حفیظ

ٹرانس جینڈر ایکٹ چند سال پہلے منظور ہوا اور اب اپنے اثرات دیکھا رہا ہے ۔ اس طرف توجہ ہوئی تو معاشرے میں خاموشی اور تکنیکی بنیادوں پر ہونیوالے واقعات سامنے آ رہے ہیں ۔ اس کے تحت بھرتیاں ہو رہی ہیں اور اس کے بعد بہت سی کہانیاں ۔

یہ حقیقت ہے کہ دراصل یہ اقوام متحدہ کے تحت منظور ہونیوالے ایل جی بی ٹی ایجنڈے کا حصہ جس میں ایسی قانون سازی کرائی گئی ہے جو ہم جنس پرستی ۔ ٹرانس جینڈر ۔ اسقاط حمل وغیرہ کے متعلق ہے ۔ 2020ء میں عورت مارچ کے موقعے پر اس حوالے سے لکھا تھا ۔ آئیے اس کو دوبارہ پڑھتے ہیں ۔۔ تقریبا تین سال پہلے کے خدشات اب سچ ثابت ہو رہے ہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل عالمی ادارہ ہے اس کے ویژن 2020 میں ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل شامل ہے ۔میرا جسم میری مرضی کے یہی دو بڑے مقاصد ہیں ۔

اس ویژن 2020کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل جن تین ٹارگٹس پر کام کرے گی۔ان میں ہم جنس پرستی کا فروغ اور دنیا بھر کے ممالک میں اس کو قانونی حیثیت دلانا ہے۔دوسرا پوائنٹ اسقاط حمل کو قانونی طور پر منظور کرانا ہے۔جبکہ تیسرا پوائنٹ دنیا بھر کے جن ممالک میں اب بھی سزائے موت کا قانون موجود ہے اس کو ختم کرانا ہے۔اسی ویژن کے تحت مختلف این جی اوز اور اداروں کو ٹارگٹ دئیے جاتے ہیں۔عالمی ادارے کے ان ٹارگٹس کے پیچھے بڑے ممالک فنانسرز ہوتے ہیں۔جو ہر ملک میں موجود این جی اوز کے ذریعے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔عالمی سطح پر اس مہم کا LGBT کے پلیٹ فارم سے شروع کیا گیا ہے ۔یہ کن کا مخفف ہے اس سے آپ مقاصد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

L=Lesbian،

G=Gay،

B=
Bisexual،

T=Transgender

یعنی ان کی پروموشن تحفظ اور ان کی مالی و قانونی مدد کے لیے عالمی مہم شروع کی گئی ہے ۔جس کے تحت ہر ملک میں سرگرمیاں منعقد کی جا رہی ہیں ۔پاکستان میں ہم جنس پرستی کے سیمینارز کئی سالوں سے مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے تعاون اور سرپرستی میں منعقد ہو رہے ہیں۔برطانیہ نے پاکستانی ہم جنس پرست جوڑوں کو شہریت اور امیگریشن دی ہے ۔خواجہ سراؤں کے حوالے سے قوانین بن چکے ہیں۔ ان کےلئے نوکریاں اور مخصوص سینٹرز کا اہتمام ہو چکا ہے ۔۔آپ شائد حیران ہوں گے کہ خواجہ سراؤں کے لئے قائم خصوصی سنٹرز کا اصل مقصد ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے۔

اور ایسے افراد کو ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے۔ایک کمیونٹی بنائی جا رہی ہے جو کہ LGBT ہو گی ۔اس کے لئے معاشرے سے ایسے افراد کو جمع کرکے انہیں مضبوط بنایا جائے گا ۔ان کےلئے مراعات ہوں گی ۔ بڑے فنڈز ہوں گے ۔ این جی اوز کی مدد ہو گی ۔ قانونی تحفظ ہو گا ۔" اس ویژن کے مطابق مقاصد حاصل کئے گئے ۔۔اور آج کے پاکستان میں ٹرانس جینڈر قانون حقیقت ہے ۔ شادی کی عمر بڑھا دی گئی ۔ سزائے موت کا قانون تقریبا معطل ہے اور ٹرانس جینڈر کی آڑ میں ہم جنس پرستی کی راہیں کھل چکی ہیں .

یہ کوئی اچانک ہونیوالا معاملہ نہیں ایک لمبی پلاننگ سے عورت مارچ ۔ سیمینارز اور سول سوسائٹی کے نام پر کی گئی کارروائی ہے ۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سادہ ترین تشریح یہ ہے کہ ۔ ایک نوجوان لڑکا نادرہ کے دفتر جائے کہ اسکے والدین نے اسکی غلط جنس درج کرائی ہے ۔ وہ خود کو لڑکی محسوس کرتا ہے ۔ نادرہ اسے لڑکی کا شناختی کارڈ ایشو کرنے کا پابند ہے۔ اب وہ لڑکی کے طور پر کھیلوں ۔ تعلیمی اداروں ۔ نوکری سمیت تمام حقوق رکھتا ہے ۔ ایسا ہی ایشو پولیس ٹریننگ کالج لاہور میں سامنے آیا ہے ۔

پولیس ٹریننگ کالج لاہور کی جانب سے پولیس کے اعلی حکام کو خط لکھ کر آگاہ کیا گیا ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر کو اس کے ضلع رحیم یار خان سے عورت کے طور پر ٹریننگ کےلیے بھیجا گیا تھا، جی ہاں اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ اسے عورت کے طور پر بھیجا گیا تھا حالانکہ وہ جسمانی طور پر مرد تھا جسے اس کے ذاتی اظہارِ صنف کی کی بنا پر کاغذات میں عورت مان لیا گیا تھا۔ اب ٹریننگ کے دوران میں اس کی موجودگی سے دیگر ٹریننگ لینے والی خواتین کو مسائل پیدا ہوئے اور وہ اس کے ساتھ ایک جگہ رہائش پر آمادہ نہیں ہیں۔ چنانچہ مجبور ہو کر ٹریننگ کالج نے اس ٹرانس جینڈر کی ٹریننگ روک دی ہے اور اس کے متعلق ہدایات کےلیے اعلی افسران سے رہنمائی طلب کی ہے۔

یہ صرف ایک رخ ہے۔ اس معاملے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے ۔ یہ دراصل ایل جی بی ٹی کا ایجنڈا ہے ۔ یعنی ہر ایک کو ہر حوالے سے جنسی آزادی اور اس
کا قانونی تحفظ ۔ وہ چاہے تو محض ایک قانون کی آڑ میں اپنی جنس سے شادی کرے ۔ کسی تعلق میں رہے یا جو دل چاہے ۔۔ قانون اسے اجازت اور تحفظ دے گا ۔ یہ قانون خواتین کے حقوق پر بدترین ڈاکہ بھی ہے۔ مرد محض ایک قانون کی آڑ میں ان کی سیٹوں پر قابض ہو سکتے ہیں ۔ اوپر والی مثال میں ایک لڑکے نے محض قانونی دستاویز کے ذریعے بطور لڑکی نوکری حاصل کی ۔

ظاہر ہے جسمانی لحاظ سے ایک لڑکا دوڑ ۔ ٹریننگ ۔ کھیل میں باآسانی لڑکیوں سے جیت سکتا ہے ۔ اس قانون کے تحت آپ کھیل اور دیگر میدانوں میں لڑکوں کو محض قانونی کی آڑ میں خواتین کا استحصال کرتے دیکھیں گے ۔اور یہ ہو بھی رہا ہے ۔یورپ میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جہاں مرد ۔ خود کو لڑکی ظاہر کرکے ان کے کھیلوں میں جیت رہے ہیں ۔ جس پر احتجاج بھی ہوا ہے ۔ لبرل منافقت کا اظہار یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو عورت مارچ کرتے ہیں ۔ خواتین کے حقوق کا رونا روتے ہیں ۔ خواتین کی مظلومیت کی کہانیاں سنا کر فنڈز لیتے ہیں ۔

دوسری جانب ایسے قوانین کی حمایت صرف مغربی آقاؤں کے کہنے پر کرتے ہیں جس میں سراسر خواتین کا استحصال ہے ۔ ان کے حقوق ۔ ان کی سیٹوں ۔ ان کے کھیل ۔ تعلیم پر ڈاکہ ہے ۔ لیکن صرف اور صرف اس لئے کہ یہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایل جی بی ٹی ایجنڈا ہے ۔ اس لئے اس کی حمایت کرتے ہیں ۔۔ یہی لبرل منافقت ہے ۔

Comments

Click here to post a comment