ہوم << ہمارے عہد کے یوسف کا قصّہ -شعیب محمد خان

ہمارے عہد کے یوسف کا قصّہ -شعیب محمد خان

کفِ دستِ شب پہ جو قرض ہے،
بڑی کیمیا ہے وہ روشنی،
وہی اک دِیا تھا جو مہرباں،
سبھی دان کر کےچلا گیا۔
(شاعر، عاطف جاوید عاطف)

کون سوچ سکتا تھا کہ اورنگزیب کی فوج میں شامل ہونے کے لیے قندھار سے نکلنے والے پختون قبائل کی نسلوں میں سے ایک درخشاں ستارہ تین سو سال بعد اس خطے کی تقدیر کا ضامن بن جائے گا۔

لکھنا شروع کریں تو شاید فلموں جیسی غیر یقینی کہانی بن جائے۔ سنائیں تو فارسی کی 'ہزار داستان' پر اکیلے ہی بھاری پڑ جائے، لیکن فی الواقعہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور متحدہ ہند کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کے لیے جب سپاہ اور رسالداروں کو بھرتی کرنا شروع کیا تو قندھاری پٹھانوں کو عام پختون قبائل پر ترجیح دی۔ شاید اس کی ایک وجہ منگول اور خٹک قبائل کے درمیان پیدا ہونے والی ناچاقی بھی ہو، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ قندھاریوں نے اورنگزیب کی فوج میں جس جرات اور بہادری کا ثبوت دیا ، اس کے نتیجہ میں متحدہ ہندوستان میں سترہویں اور اٹھاروہیں صدی کے آس پاس کئی چھوٹی اور بڑی ریاستیں تسخیر ہوئیں جن میں دوست محمد خان کی ریاست بھوپال اور دلیر محمد خان کی ریاست کوروائی قابل ذکر ہیں۔

'بھوپال' اور 'کوروائی' یہ دونوں ریاستیں اپنے جغرافیائی اعتبار سے بھارت کے بالکل وسط اور انتہائی زرخیز زمینی علاقہ میں ہونے کی باعث بیشتر ہند و افغان قبائل کا مسکن بن گئیں اور وسط میں ہونے کی وجہ سے شمال، جنوب، مشرق و مغرب سے آنے والے قافلوں کی اہم گزر گاہ کہ ساتھ ساتھ ایک اہم کاروباری مرکز کی حیثیت بھی اختیار کرگئیں۔

کہانی دلچسپ ہے لیکن ہے طویل، قصہ مختصر کہ اورنگزیب کے بعد تیزی سے بکھرتی ریاست کو سنبھالنے کے لیے مغل شہزادوں نے متحدہ ہندوستان کو ریاستوں میں بانٹنا شروع کردیا اور دہلی کی حیثیت ایک علامتی حکومت کی سی ہو کر رہ گئی ، البتہ سکہ ابھی تک دہلی کا ہی چل رہا تھا۔ نوابیاں پھیلیں تو مال و دولت کی لالچ نوابوں اور راجوں مہاراجوں کے دلوں میں سرایت کرتی گئی، یہاں تک کہ ایک وقت کو مراٹھا ریاست شمال میں پھیلتے پھیلتے ناگپور اور اندور سے بھی آگے نکل کر بھوپال کا در جھانکنے لگی۔ مرہٹوں سے جان چھڑائی تو انگریز ہندوستان میں اتر چکا تھا اور آہستہ آہستہ زمین و دولت غصب کرتا جارہا تھا۔

شاید یہ وہ موقعہ تھا جب بھارت کی کچھ نواب شاہی ریاستیں جنگ آزادی میں مغل بادشاہوں کی بجائے اپنی آزاد حیثیت میں انگریز راج کو قبول کرنے کوتیار تھیں۔ بھوپال کے نواب نے بھی یہی فیصلہ کیا، اس کے برعکس کوروائی کے نواب کا انگریزوں کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ بالآخر ریاست کی تحلیل پر منطبق ہوا۔
۔خدائی واقعی پراسرار ہے۔
قوموں اور ریاستوں پر ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری عظیم ترین مشکلات آتی گئیں۔ کہاں کل کے مغل شہزادے، آج ہاوڑا برج کے چماروں کی طرح زمین پر بیٹھے، بوٹیوں پر لڑتے نظر آنے لگے، کل کی مغل شہزادیاں آج کپڑے کاڑھ کر زندگی گزارتیں۔۔۔۔۔ اور حالت ایسی ہوتی کہ بدبو اور گھن کی باعث کوئی قریب آتے بھی ڈرتا تھا۔
ہند کے مسلمان کے حالات اس نہج پر آرہی کہ بقول اقبال
حمیت نام تھا جسکا، گئی تیمور کے گھر سے۔۔
ادھر رائے احمد نواز خان کھرل شہید کی مخبریاں کر کے جاگیریں لی جارہی تھیں تو کہیں مسلمانوں کو یہ بتایا جارہا تھا کہ
'پڑھو فارسی اور بیچو تیل۔۔۔۔'
مسلمانان ہند کے اذہان پر گویا آخری اور سب سے کاری ضرب سنہ 1911 میں پہلے خلیفہ عبد الحمید کی معزولی کی صورت اور اس کے بعد سنہ 1923 میں خلافت عثمانیہ کا باقاعدہ خاتمہ کی صورت لگائی گئی۔

کوئی اس کرب کا اندازہ نہیں کرسکتا، شاید اگر اس دور میں اقبال نہ ہوتے تو ہند کا مسلمان دنیا کے خس و خاشاک میں بہہ چکا ہوتا۔

چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافتِ کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیّاری بھی دیکھ

اور

نہ مصطفیٰ ، نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
(رضا شاہ پہلوی اور مصطفیٰ کمال پاشا کی جانب اشارہ)

کیا آپ سوچ سکتے ہیں اس وقت ہند کے مسلمانوں کی فکری و علمی استعداد کیسی ہوگی؟

لیکن اللہ نے اسی معاشرہ میں سے ایک ایسا جوان مرد پیدا کیا کہ آج سارے ہند کے مسلمان اس پر ناز کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ پورے عالم اسلام کو اس پر ناز ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

بھوپال کے اسکول ماسٹر جناب عبد الغفور صاحب کہ گھر عبد القدیر صاحب کی ولادت ہوئی۔ اور یہ بھی اتفاق نہیں بلکہ تقدیر کا فیصلہ ہے کہ سنہ 1952 میں ہی ان کے والد اپنی زوجہ سمیت پاکستان آگئے۔ باقی ماندہ بھارت کے مقابل، بھوپال اور حیدرآباد کے لوگ اس دور میں آسودہ حال تصور کِیے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود عبد الغفور صاحب نے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دی۔

سن چھپن میں یونیورسٹی سے فارغ ہوکر خان صاحب سرکاری نوکر ہوگئے، عمدہ گاڑی ملی، بہترین تنخواہ، آسودگی تھی، لیکن خان صاحب کا خواب تھا کہ وہ پروفیسر بنیں، اسی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ مغربی جرمنی گئے اور برلن سے مٹیریل سائنسز میں سکالرشپ پر تعلیم شروع کی۔ طبعیت کے سیلانی پن نے ستایا تو نیدرلینڈ چلے گئے جہاں سے بیلجئیم آکر پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا اور 1972 میں ڈاکٹر آف انجینئیرنگ کا ٹائٹل ملا۔

چھتیس سالہ جواں سال خوبرو جوان، جس کے سامنے پہاڑوں جیسا شاندار کیرئیر دروازہ کھولے کھڑا تھا، روپیہ پیسے کی ریل پیل تھی، زندگی آسائشوں سے بھری ہوئی تھی، یکایک اسے مشرقی پاکستان پر افواج پاکستان کی ہزیمت انگیز شکست نے آن لیا۔ اس نے وقت کے سربراہ مملکت کو لکھ بھیجا اور سیدھا پاکستان چلا آیا۔ پاکستان میں حالات دیکھے۔۔۔۔ تو یوں سمجھ لیں اس وقت بھی حالات پاکستان جیسے ہی تھے۔ کچھ کام ذیلی لوگوں کے ذمہ لگائے، کچھ مقاصد سرکار کے نام کیے اور اس وعدہ پر کہ چند سالوں میں آپ ان کاموں کی تکمیل یقینی بنائیں، وہ واپس یورپ آگیا۔

وعدہ کے مطابق وہ واپس پاکستان آیا تو پاکستانیوں نے اسے ذرا 'مایوس' نہیں کیا بلکہ اپنے معیار پر پورا اترتے ہوئے پاکستانیوں نے اس کی ایک بھی نہیں سنی اور ایک شیڈ میں دس پندرہ لوگ میز کرسیاں لگائے ایٹمی ریسرچ پر کام کرتے نظر آئے۔

اس بار وہ اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ مکمل ارادہ باندھا کہ اب یورپ جاؤں گا تو نہیں آونگا لیکن بھٹو صاحب اس کے پیروں کی بیڑیاں بن گئے۔ اس بے سر و سامان نوجوان نے دس سالوں میں وہ کر دکھایا جو کسی معجزہ سے کم نہیں۔ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت لگ بھگ 1980 کے آس پاس ہی حاصل کر لی تھی اور 1983 تک پاکستان کنٹرولڈ ٹیسٹ بھی کرچکا تھا۔ پھر 1986 میں پاکستانی حکومت کی ایماء پر کولڈ ٹیسٹ کا کامیاب تجربہ کیا گیا اور پھر بتدریج 1998 میں بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان نے چاغی کے مقام پر اسلحہ سازی کے لیے مستعمل ایٹمی تجربہ کر کے دنیا کو حیران کردیا۔

28 مئی 1998 کا وہ دن، وہ دوپہر، وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے، میں آج بھی سوچتا ہوں تو سرشار ہوجاتا ہوں۔ ہمارے گھر پر لگا انٹینا ان دنوں بھارتی ٹی وی چینلز کے سگنل کیچ کرلیا کرتا تھا، ہم سارے بہن بھائی فطری تجسس میں وہ چینل، ان کے ڈرامے، موسیقی، اشتہار، الغرض پر چیز دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت بھی شاید ایل کے ایڈوانی (یا کوئی اور بھارتی نامور لیڈر) لوک سبھا سے خطاب کر رہا تھا اور پاکستان کے متعلق ہزیان بک رہا تھا، کہ ہم آزاد کشمیر بھی فتح کریں گے، یہ بھی کریں گے وہ بھی کریں گے کہ یکایک ایک عورت بھاگتی ہوئی ہال میں داخل ہوئی اور تقریبا" چیختے ہوئے کہا کہ

'پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کردیا'

چند لمحوں کے لیے تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے، خیر نشریات وہاں سے منقطع ہوگئیں تو اب ہمارا اگلا پڑاؤ واپس پی ٹی وی تھا، یہ البتہ صحیح سے یاد نہیں کہ اس کے فوراً بعد یا تھوڑی دیر بعد ہی نیوز براڈ کاسٹ آئی کہ پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربہ کردیا۔

بھارتی لوک سبھا کے لوگوں کی حالت دیدنی تھی اور اس وقت جو خوشی اور طمانیت کا احساس ہمارے رگ و پے میں تھا اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے بڑے فخر سے اسکول میں سب کو یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خانؒ اور ہمارے بزرگوار ایک ہی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب سب کچھ تھا تو پہلے بھارت کیوں چھوڑا، پھر پاکستان میں سب کچھ مل گیا تو اعلی تعلیم کے لیے پہلے جرمنی، پھر نیدر لینڈ اور پھر بیلجئیم کیوں گئے؟ اور جب چلے ہی گئے تھے تو کیا ایسی 'آفت'آن پڑی تھی کہ واپس آو۔ اور اگر آ ہی گئے تھے اور کوئی بات نہیں بن رہی تھی تو واپس چلے جاتے۔

اس قربانی کا اندازہ دنیا میں کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ فطری امر ہے کہ انسان جس گھر میں پیدا ہوتا ہے، پلتا بڑھتا ہے، نوجوانی کی حدود تک پہنچتا ہے ساری حیات اسے ہی اپنا مسکن اور اپنا گھر تصور کرتا ہے۔

لیکن عبد القدیر خانؒ صاحب نے اپنا سب کچھ اپنے اختیار کردہ وطن پر قربان کردیا۔

اور ہم نے اس آدمی کو کیا دیا؟ اسیری، ذلت، دھوکہ اور فریب؟

جس وقت پاکستان کے چور حکمران ماہوار لاکھوں کی تنخواہ اور گاڑیاں حلال کر رہے تھے تو اس خطہ کا یہ عظیم سپوت لوگوں سے ادھار قرض مانگ کر زندگی کے دن پورے کر رہا تھا۔
چار ہزار روپے کی پنشن جسے بڑھا کر انیس ہزار روپے کردیا گیا!
کیا ہی خوب حاتم طائی کے پیٹ پر لات ماری ہے جناب!
آج وہ ففتھ جنریشن وار کا بھاشن دینے والے بھی اٹھ اٹھ کر حب الوطنی کے بھاشن دیتے ہیں جو ٹی وی پہ بیٹھ کر اپنی بزدلی کا اقرار یوں کر چکے ہیں۔
"ذرا سا پٹاخہ ادھر یا ادھر ہوسکتا تھا ، مَیں اسی لیے پاکستان سے بھاگ گیا تھا"
جس آدمی نے پاکستان کو تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود، استعماری دباؤ کے باوجود، معاشی عدم استحکام کے باوجود پاکستانی دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا، وہ اس ریاست اور مملکت کے لیے کیا نہیں کرسکتا تھا۔

مَیں ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو پاکستان کے لیے قدرت کا تحفہ سمجھتا ہوں، ایسا تحفہ جسے ہم نے خود نوچ کر اکھاڑ کر پھینک دیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ نے خود ہی یہ شعر کہا تھا۔۔۔
گزر تو خیر گئی ہے تِری حیات، قدیر
ستم ظریف، مگر کوفیوں میں گزری ہے