یہ عجیب اتفاق ہے کہ دنیا جب پہلے ایٹمی دھماکے کا زخم سہہ چکی تھی اور ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان اس کا نوالہ بن چکے تھے تو میں پیدا ہوئی، ہوش سنبھالا تو شاید اخباروں کا کیڑا بن جانے کی وجہ سے مجھے علم ہوا کہ ایٹمی دھماکا انسانیت کے لیے کس قدر جان کاہ تھا۔
میں نے اس پر مضامین پڑھے، کتابیں نظر سے گزریں، نوعمری میں ابا جان مجھے اس موضوع پر کئی فلمیں دکھانے لے گئے اور اس کے بعد تو کتابیں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کی آزادی رہی۔ موسمیاتی تبدیلی کے معاملات بھی اب ان ایٹمی دھماکوں سے جڑ گئے ہیں۔ لگ بھگ بیس برس پہلے ایک فلم Day After دیکھی۔ یہ فلم میں نے اس وقت کی خاتون اول مرحومہ کلثوم نواز کے مشورے پر دیکھی تھی اور دل کی دنیا تہس نہس ہوگئی تھی۔ ہیروشیما میں ’’ امن پارک ‘‘ کے شمال میں وہ پسماندہ علاقہ ہے جو ’’ ایٹمی جھونپڑ پٹی ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ جھونپڑ پٹی دریائے اوٹا تک پھیلی ہوئی ہے اور یہاں تقریباً ایک ہزار خاندان رہتے ہیں جو چار ہزار افراد پر مشتمل ہیں۔ اس جھونپڑ پٹی میں بیشتر وہ لوگ رہتے ہیں جو ایٹمی حملے سے متاثر ہوئے۔ یہاں اور ہیرو شیما کے دوسرے پسماندہ علاقوں میں آج بھی ایٹمی حملے کے وہ بیمار موجود ہیں جو 6 اگست 1945 سے بستر پر پڑے ہیں۔
تابکاری کا شکار ہونے والے ان معذوروں اور مجبوروں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا کبھی کوئی علاج نہ ہوا۔ وہ لحظہ لحظہ مرتے ہیں اور پھر بھی زندہ ہیں۔ انھوں نے کبھی ’’ اٹامک بم اسپتال ‘‘ کی شکل نہیں دیکھی، اس کی دہلیز بھی پار نہیں کی کیوں کہ وہ غریب تھے۔ اتنے غریب کہ اپنا علاج کرانے کے بھی اہل نہ تھے۔ ایسے لوگ ہیروشیما کی کسی کھنڈر بستی میں چھپر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں یا تنگ اور پرہجوم گلیوں کے کسی کونے میں پڑے رہتے ہیں اور مٹھی بھر چاول کے لیے گزرنے والوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ وہ بچے جو اس مہیب سانحے کے مہینوں اور برسوں بعد پیدا ہوئے، ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی طور معذور ہیں۔ کوئی اندھا ہے، کسی کی عمر 40 سال ہے لیکن ذہنی عمر 40 مہینے سے زیادہ نہیں، کسی کے پاؤں مڑے ہوئے ہیں اور کسی کی انگلیاں ٹیڑھی ہیں۔
یہ بچے ’’ہیروشیما‘‘ کے بچے کہلاتے ہیں اور اپنے ساتھ ڈاکٹروں کے وہ تصدیق نامے لیے پھرتے ہیں جو ان کی پیدائش کے بعد ان کی ماؤں کو دیے گئے تھے اور جن میں لکھا گیا تھا ’’ایٹمی تابکاری کا وہ شکار جو 6 اگست 1945 کو رحم مادر میں موجود تھا ‘‘ یہ تصدیق نامے دو چار یا دس پانچ کی نہیں، ہزاروں کی تعداد میں جاری کیے گئے تھے۔ ان میں ہزاروں سسک سسک کر ختم ہوئے لیکن ہزاروں اب بھی زندگی کی تہمت پوری کر رہے ہیں۔ ان دو شہروں پر جو کچھ گزری اس کا ایک مظہر تو لاشوں کے ڈھیر، جھلسے ہوئے بدن ، مسمار عمارتیں اور خاکستر باغات تھے اور دوسری طرف وہ نفسیاتی اثرات ہیں جو اس عظیم سانحے سے بچ رہنے والوں پر مرتب ہوئے۔ ان متاثرین کو کس نام سے یاد کیا جائے؟ شاید ان کے لیے ’’ زندہ مقتول ‘‘ کا لفظ مناسب رہے گا۔
ابتدائی دنوں میں ان میں سے بیشتر افراد کو اس بات کا احساس یا علم ہی نہ ہوتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔ بدن کے کسی حصے میں یا ہر حصے میں ناقابل برداشت درد ہی انھیں زندہ ہونے اور جاگنے کا یقین دلاتا تھا۔ کبھی وہ آدھی رات پر دن ہونے کا گمان کرتے اور کبھی آدھی رات کو سمجھتے کہ دن نکل آیا ہے۔ان میں سے بعض کے لیے جسمانی اذیت اس قدر ناقابل برداشت ہوجاتی کہ وہ چیخ چیخ کر روتے۔ پاس سے گزرنے والوں کی منتیں کرتے، گڑگڑاتے کہ انھیں جان سے مار دیا جائے۔ انھیں زندگی نہیں چاہیے۔
ان زندہ مقتولوں کے لیے ماں باپ، بھائی بہنوں، شوہر بیوی، بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کا چشم زدن میں یوں صفحہ ہستی سے غائب ہو جانا اور خود ان کا جو کہ امیر، خوشحال یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، بھکاری بن جانا، ایک ایسا ذہنی صدمہ تھا جس نے ان میں سے بیشتر لوگوں کو ذہنی طور پر پھر کبھی متوازن نہیں رہنے دیا۔ ان لوگوں کے دل امید سے خالی ہوگئے اور ان کی زندگی سے رشتے منہا ہوگئے۔ اب کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں وہ جا سکتے ہوں۔ اب کوئی شخص ایسا نہ تھا جسے وہ ’’ اپنا ‘‘ کہہ کر پکار سکتے ہوں۔
ان میں سے بیشتر جھلس گئے تھے۔ ان لوگوں کے ’’ مسخ چہرے ‘‘ ان کے سکڑے ہوئے اور سیاہ بدن کو دوسرے جب غور سے دیکھتے تو انھیں صحت مند لوگوں سے نفرت ہوتی۔ انھیںدنیا زہر لگتی اور دنیا والے قاتل۔ ان میں سے بہتوں نے اپنے آپ کو اسپتال کے کمروں یا حکومت کی طرف سے فراہم ہونے والی رہائش گاہوں میں قید کرلیا۔ وہ پہروں آئینے کے سامنے کھڑے رہتے اور ان میں اپنی کھوئی ہوئی صورت ڈھونڈتے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے شاداب چہرے کے بجائے ایک ایسا چہرہ ہوتا جسے وہ خواہش کے باوجود کسی طور نہ پہچان پاتے۔ جلی ہوئی بھنویں، جلے ہوئے بال، آنکھوں کے ڈلے باہر کی طرف نکلے ہوئے، ہونٹوں کا تناسب بگڑا ہوا۔ چہرے کی کھال کہیں سے سمٹی اور کہیں سے لٹکی ہوئی۔
زندہ رہ جانے والوں میں سے کچھ کو اس خیال نے زندہ رہنے پر مجبورکیا کہ وہ اپنے خاندان کے زندہ رہ جانے والے تنہا فرد ہیں اور یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ ختم ہوجانے والے عزیزوں کے نام پر خوشبوئیں جلائیں اور ان کی نجات کی دعائیں کریں۔ یہ زندہ مقتول ہر وقت نفسیاتی دباؤکا شکار رہے اور آج بھی رہتے ہیں کہ تابکاری کے دور رس اثرات جانے کب ان پر حملہ کردیں۔ وہ اپنے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کی طرف سے ہر وقت پریشان رہتے ہیں کیونکہ ایسی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں تابکاری سے متاثر ہونے والے والدین کے بظاہر صحت مند بچوں پر پیدائش کے برسوں بعد تابکاری کے اثرات رونما ہوئے۔
ان لوگوں کو اس بات کا بھی ہمیشہ احساس رہا اور رہتا ہے کہ ان کے وہ ہم قوم جو دوسرے شہروں میں آباد تھے اور جو اس سانحے سے قطعاً متاثر نہیں ہوئے، وہ ان میں اور اپنے آپ میں فرق کرتے ہیں اور انھیں بہ نظر ترحم دیکھتے ہیں، یا کبھی کبھار کسی کا رویہ ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے انھیں چھوت کی کوئی بیماری ہو۔ طاقت کے نشے میں چور ہو کر ان دو شہروں کو جس طور ذبح کیا گیا ، اس کی لفظوں سے تصویر کھینچی ہی نہیں جاسکتی۔ اس ذبح عظیم کا اندازہ ان تصویروں سے کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض اس سانحے کے چند گھنٹوں بعد، دوسرے دن، چند دنوں، چند مہینوں اور چند برسوں بعد کھینچی گئیں۔
ایٹمی حملے کے متاثرین نے اپنے ذہن پر نقش ہو جانے والی موت، انسانی بے چارگی، درد اور اذیت کو جس طور کینوس پر نقوش اور رنگوں سے ابھارا ہے، وہ بھی دیکھنے اور محسوس کرنے والی چیزیں ہیں۔ اس سانحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایٹمی ہتھیار تیار ہی نہیں کیے جاتے لیکن اس کے بجائے زیادہ ’’ بہتر‘‘ اور زیادہ ’’ موثر ‘‘ ایٹم بم بنائے جانے لگے۔ تمام بڑی طاقتوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی دوڑ شروع ہوگئی اور اس کے حق میں دلیل یہ دی گئی کہ ’’عالمی امن‘‘ برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی ہتھیار نہایت ضروری ہیں اور یہ بھی کہ زیادہ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار امن عالم کی ضمانت اور علامت ہیں۔
آج دنیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جن میں جنگی جنون کو اور ایٹمی قوت بننے کی خواہش کو ہوا دی جاتی ہے۔ ان ملکوں کے ننگے اور بھوکے عوام کو ’’ عظیم طاقت ‘‘ بننے کے سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے اپنی مٹھی کے چاول اور اپنے ہاتھ کی روٹی سے بھی دستبردار ہوجائیں کیونکہ وہ اپنے دشمن سے اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں جب کہ وہ ایٹمی طاقت ہوں۔ میرے خیال میں ایسے تمام ملکوں میں ہیرو شیما اور ناگاساکی کے کھنڈرات، انسانی ڈھانچوں کے ڈھیر، بچ رہنے والوں کے جھلسے ہوئے جسموں اور ان کے مسخ چہروں کی تصویریں ابتدائی جماعتوں سے نصاب میں شامل ہونی چاہئیں۔
بچوں کو، ان کے والدین اور اساتذہ کو معلوم تو ہو کہ جوہری ہتھیار کیا ہوتے ہیں اور وہ انسانوں پر جہنم کے کون کون سے در کھولتے ہیں۔ اس عذاب پر میں نے ایک کہانی ’’ تنہائی کے مکان میں‘‘ لکھی تھی لیکن اس وقت وہ مل نہیں رہی، آیندہ کسی محفل میں اس کا اقتباس پیش کروں گی۔
تبصرہ لکھیے