اسلام آباد: ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ کرنسی کی قدر میں 8 بینکوں نے ہیر پھیر کر کے ناجائز پیسہ بنایا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر، وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش بھی پیش ہوئیں۔
کمیٹی اراکین نے سوال اٹھایا کہ ڈالر 245 سے بھی اوپر کیسے چلا گیا، اسٹیٹ بینک نے بطور ریگولیٹر بینکوں کیخلاف کاروائی کیوں نہیں کی جبکہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں 10 روپے کا فرق بھی دیکھا گیا ہے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر میں 8 بینکس نیشنل بینک، میزان بینک، بینک الحبیب، حبیب میٹرو، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، ایچ بی ایل، یو بی ایل اور الائیڈ بینک ملوث ہیں، جنہوں نے ناجائز پیسہ کمانے کی خاطر ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا اور پاکستان کے بیرونی قرض کو بڑھایا جس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
ڈالر ریٹ سے ناجائز پیسہ کمانے والے بینکوں کی فہرست کمیٹی میں پیش ہوئی تو خزانہ کمیٹی میں ارکان گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ پر برس پڑے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ آگے بڑھے گا اور مکمل شواہد کے ساتھ بینکوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔’لوگ اسحاق ڈار کو ایس ایچ او کہتے ہیں جن کے آتے ہی ڈالر کی قیمت کم ہوگئی‘ قبل ازیں برجیس طاہر نے کہا ہے کہ لوگ اسحاق ڈار کو ایس ایچ او کہتے ہیں جس کے آتے ہی ڈالر چند روز میں 14 روپے تک سستا ہوگیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر برجیس طاہر نے سوال کیا کہ اسھاق ڈار کے آنے سے کون سا طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ ڈالر نیچے آگیا، لوگ کہتے ہیں ایس ایچ او اسحاق ڈار آیا اور ڈالر ٹھیک ہوگیا، اسحاق ڈار کے آنے سے ڈالر ایک ہفتے میں 12 سے 14 روپے سستا ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کہتے تھے سیاسی عدم استحکام کے باعث ڈالر بے قابو ہے تو پھر وزیر خزانہ کی تبدیلی اور اسحاق ڈار کی واپسی پر اس کی قیمت میں کمی کیسے ہوئی۔
تبصرہ لکھیے