ہوم << ماہِ رَبیع الاوَّل اور تعلیماتِ نبوی ﷺ - انصر خان کھچی

ماہِ رَبیع الاوَّل اور تعلیماتِ نبوی ﷺ - انصر خان کھچی

لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُواْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍo (سورۃ آل عمران 3: 164) ترجمہ: ’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

حضور رحمت عالم ﷺربیع الاول کے بابرکت مہینے میں عالمِ جاودانی سے دنیائے فانی میں تشریف لائے ۔چالیس سال کی عمر میں اللہ نے آپ کو منصبِ رسالت سے نوازا۔وحیِ قرآنی کا نزول شروع ہوا ۔بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے وہ چشمہ فیض جاری ہوا جوتاقیامت تمام اعتقادی، روحانی ، اور اخلاقی امراض کے لیے شفائے کاملہ ہے ۔ماہ ربیع الاول میں رحمتِ عالم ﷺ کی آمد با سعادت پر جشن منایا جاتا ہے جس میں بہت سے لوگ سنت سے ہٹ کر ہی نہیں بلکہ سنت سے سراسر متصادم امور پر ڈھٹائی کے ساتھ جم کر عملاً اِس پیغامِ بعثت کا مذاق اڑاتے ہیں جس کی تشہیر وترویج ہی حضورِ اکرمﷺ کی تشریف آوری کا مقصدِاعظم تھا ۔کمالاتِ نبوت تو بیان کیے جاتے ہیں جنھیں سن کر وجد میں آنا ایک اِیمانی اور فِطری تاثرہے،مگراِسی تاثراور اسی اِنفعال کو اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی اور خوشنودی کی حتمی سند تصور کر لیاجاتاہے۔

یہ نہیں سوچا جاتا کہ کمالاتِ نبوت کا علم اگرتعلیماتِ نبوت پر عمل کرنے کا باعث نہ بنے تو اس کا اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں بلکہ ڈر ہے کہ یہ صورتحال تو ہمارے خلاف اتمامِ حجت کا ذریعہ نہ بن جائے اور ہماری پکڑ عام لوگوں سے کہیں زیادہ سخت نہ ہو جائے۔کمالاتِ نبوت کا علم ابوجہل،ابولہب،عقبہ بن ابی معیط اور عاص بن وائل جیسے متشدد کفار کو بھی تھا مگر اُنھوں نے یہ سب کچھ جاننے کے باوجود تعلیماتِ نبوت کو اپنے نفس کی خواہشات کے مقابِل کھڑادیکھاتو روگردانی اختیارکی اور "خسرالدّنیاولآخرہ"کا مصداق بن گئے۔آج ہمارے سامنے تعلیماتِ نبوّت کھلی کتاب کی طرح واضح ہیں۔کون نہیں جانتا کہ پنج وقتہ نماز فرض ہے ؟ کسے معلوم نہیں کہ جھوٹ،چوری،رشوت خوری اور بدعنوانی کی ان لامحدود شکلوں سے بچنا لازم ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

کون اس بات سے ناواقف ہوگا کہ شرم و حیاء،پردہ اور نِگاہ کی حفاظت جیسے مکارمِ اخلاق سے آپ ﷺ ہی نے دنیا کو متعارف کرایااور ان اسلامی اقدار و آداب کی خلاف ورزی سے انسان گناہ گار ہوکر آخرت کے لحاظ سے تو قابلِ مواحذہ ہوتا ہی ہے مگر دنیا ہی میں اس کے جو نقصانات سامنے آرہے ہیں،ان کی چند جھلکیوں سے روزانہ کے اخبارات بھرے ہوتے ہیں ۔مردوزن جب اسلامی اور فطری اخلاق سے بالاتر ہوکرباہم رابطے قائم کرتے ہیں اکثر اوقات نتائج طلاقوں، خودکشیوں،قتل و غارت گری،عمر بھر کی ذلّت اور خاندان کی بدنامی کی شکل میں نکلتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے چند آسان اصول وضوابط پر عمل ان تمام تر تباہ کاریوں سے بچنے کی ضمانت ہیں مگر عمل کون کرے؟

رسول اللہ ﷺ نے حلال کمائی کی تاکید فرمائی،حرام سے بچنے کا حکم دیا ،حرام کمانے کی مختلف شکلوں کو واضح کیا اور ان پر سخت وعیدیں سنائیں۔ان میں سے بہت سی شکلیں مسلمانوں کے معاشرے میں عام ہیںبلکہ انھیںکاروبارِزندگی کا اٹوٹ جزو مان لیا گیا ہے۔سودخوری،رشوت ستانی،بدعنوانی،نچلے طبقے سے اوپر تلک اور حکمرانوں سے عوام تک یوں جاری و ساری ہے جیسے اس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں۔مغربی دنیا جسے ہم بدقسمتی سے اپنا مقتدا قرار دے بیٹھے ہیں،ان میں سے بہت سی برائیوں کے بھیانک مضرات سے آگاہ ہوچکی ہے۔ان کے مفکرین اور دانشور ان اخلاقی برائیوں سے گلوخلاصی کی صورتیں تلاش کررہے ہیںجبکہ رسول اللہﷺ چودہ صدیاں قبل ان تمام تعلیمات کو تفصیل کے ساتھ ہم تک پہنچاچکے ہیں مگر ہم نے ان کی کیا قدر کی؟

ہم اس کے باوجود خود کو عاشق رسول کہلاتے ہیں۔ہم چند جلسے کرکے کچھ ریلیاں نکال کر اور ایک دو دن عوام سے سڑکوں کو اس طرح بھر کے کوئی جاں بلب مریض ہسپتال بھی نہ پہنچ سکے،سمجھتے ہیں کہ ہم نے عاشقی کی ایسی سند حاصل کر لی ہے کہ ہم جسے چاہیں عشّاق کے دائرے سے نکالنے کے بھی مجاز بن گئے ہیں ۔اگر کسی پابندِ صوم و صلوٰۃ، متبع شریعت،بزرگ نے بھی جلوس میں شرکت نہ کی ہو تو ہماری نگاہ میں وہ حبِ نبی سے بالکل عاری قرار پاتا ہے اور اگر کوئی پرلے درجے کا راشی اور بدعنوان افسرآکرہمارے مجمع کی شان بڑھادے تو ہم اسے عشاقِ نبوّت کے سرخیلوں میں شمار کرنے لگتے ہیں ۔

مسلم دنیا کے حکمرانوں کو دیکھیے تو اس موقع پر ان کی جانب سے بڑے جاں فزاں اور ایمان افروز بیانات سامنے آتے ہیںمگر ان کے عمل کو دیکھا جائے تو ان کی اکثریت میں عشقِ نبوی ﷺ تو کجا مبادیاتِ اسلام کی بھی کوئی جھلک نظر نہیں آتی، ان کے عمل کا قبلہ و کعبہ عالمی طاقتیں ہیں ۔کسی کا رُخ امریکہ کی طرف ہے تو کسی کا روس کی طرف ،کوئی چین اور بھارت پر تکیہ کرنا چاہتا ہے تو کوئی برطانیہ اور فرانس پر۔یہ قول و فعل کا تضاد اس وقت امّتِ مسلمہ کا سب سے بڑا روگ ہے ۔حضورِ اکرکم ﷺ اسی تضاد کو ختم کرنے کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے۔آپ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے تھے، وہاں لوگ اللہ کا انکار نہیں کرتے تھے۔ وہ اللہ کو مانتے تھے ۔ مصائب و تکالیف میں اسے یاد بھی کرتے تھے ۔

اس کے نام کی قسمیں کھاتے تھے۔وہ خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار بھی سمجھتے تھے۔خود کو ان کا وارث قرار دیتے تھے مگر ان کا عمل ان کے قول سے بالکل مختلف تھا کیوںکہ ابراہیم علیہ السلام نے جن غلط اور باطل تصورات سے دنیا کو بچانے کی کوشش کی ، عرب انہی تصورات کو اپنائے ہوئے تھے۔خلیل اللہ علیہ السلام نے جس اخلاق باختگی کو ختم کیا ،عرب اسی کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے۔ ان کے رسم و رواج ، خوشیاں غمیاں ،عادات و اطوار سب شرک کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔پس ان افعالِ بد کے ساتھ ان کا جھوٹے منہ خود کو ملت ابراہیمی پر قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ۔

یہ قول و فعل کا تضاد تھا۔یہ کذب بیانی اور دروغ گوئی تھی ۔ حضورِ اکرم ﷺنے تشریف لا کر اس تضاد کا پردہ چاک کیا۔ جھوٹ اور سچ کو الگ الگ کردیا۔جن سلیم الفطرت لوگوں کے اذہان پہلے سے اس تضاد کو محسوس کرچکے تھے اور وہ اندرونی طور پر ایک خلش محسوس کررہے تھے،وہ حقیقت سامنے آتے ہی سچ کا دامن تھام کر کھڑے ہوگئے۔انہوں نے قول و فعل کو یکساں کرلیا۔اس پر انھیں آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا پڑا مگر وہ دن بدن کندن بنتے گئے ۔پھر اس کھری قوم نے تضاد کی حامل ہرقوم کے تاج نیزوں پر اچھال دئیے اور ربع صدی کے اندر اندر عالم کی بساط پلٹ دی۔

مگر کس قدر افسوس کی بات ہے آج اسی نبی رحمت دو عالم ﷺ کی امت انہی تعلیمات کو جو انسانیت کو تضاد کی دلدل سے نکالنے، اسے سچ اور جھوٹ میں فرق سمجھانے اور اسے خالص سونے کی طرح کھرا بنانے کی ضامن ہیں ۔ ہم آپ ﷺ کی تعلیمات کو پشت ڈالے ہوئے ہے۔ہماری اس رو گردانی کی انتہاہے کہ ہم ہرسال ربیع الاوّل کے مہینے میںان تعلیمات کی دستک دل کی چوکھٹ پر سننے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ہمارا ہرجائی پن تو اس ربیع الاوّل میں زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے، جب ہمارے بہت سے لوگ سیرت کے جلسے جلوسوں میں نمازیں تک موخر یا قضا کر دیتے ہیں۔

اس تضاد نے ہمیں اندر سے خالی کر دیا ہے۔ 60ممالک کے دیس میں اسلامی پردیسی ہے۔امت مسلمہ جو بے شمار معدنی و افرادی وسائل سے مالا مال ہے ،ایک ایسے قلعے کی مانند ہے جس کی دیواریں اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہیں،ان دیواروں کی بھرائی حضورِ اکرم ﷺ کی سچی محبت سے کرنا ہوگی اور سچی محبت وہی ہوتی ہے جو سنت نبویہ پر عمل کی راہ پر ڈال دے۔

دل میں ترے حضور ہو ،سرِخم ترا ضرور ہو

وہ عشق ،عشق ہی نہیں ،جس کا نہ کچھ ظہور ہو