ہوم << جماعت اسلامی کا مستقبل؟ آصف محمود

جماعت اسلامی کا مستقبل؟ آصف محمود

کیاجناب سراج الحق جماعت اسلامی کو سیاسی نا آسودگی سے نکال کر کامیابی کی راہ پر ڈال سکیں گے؟ برادر محترم سراج الحق کے لیے سارے احترام کے باوجود اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ اگر امیر کی عالی مرتبت شخصیت ہی کامیابی کی ضمانت ہوتی تو سید مودودی جیسے جلیل القدر امیر کی قیادت میں لڑے جانے والے انتخابی معرکے کا نتیجہ اتنا مایوس کن نہ ہوتا۔ سید مودودی جیسی شخصیت اگر جماعت اسلامی کی کامیابیوں کا استعارہ نہ بن سکی تو سراج الحق سے، جو کسی بھی حوالے سے سید مودودی کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں، یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے؟
جماعت اسلامی کا مسئلہ اس کے امیر میں نہیں ، خود جماعت اسلامی کے اندر ہے۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں: تری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ جماعت اسلامی کا المیہ یہ ہے کہ یہ پے در پے ناکامیوں کے باوجود اپنے ڈھانچے میں موجود ’’ مکینکل فالٹ‘‘ پر توجہ دینے کے بجائے امت مسلمہ کو لاحق اس دیرینہ مرض کا شکار ہو چکی ہے کہ اک روز ایک شمشیر بکف مردِ صالح، سبک رفتار گھوڑے پر سوار آئے گا اور پھر اس کی قیادت میں ہم اٹھیں گے اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ سراج الحق صاحب سے وابستہ توقعات کے پیچھے بھی یہی نفسیات کارفرما ہیں :ایک منفرد مردِ صالح امیر بنا ہے، اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔
جماعت اسلامی کی پشت پر خوفناک تضادات کا بوجھ لدا ہے۔ جب تک اس بوجھ سے نجات حاصل نہیں ہوتی آگے بڑھنا مشکل ہے۔ پہلا تضاد جماعت اسلامی کی انتخابی سوچ ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کے انتخاب کے عمل کو دیکھیے۔ جماعت اسلامی کا ہر آدمی اس الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ صرف ایک محدود صالح اقلیت ہوتی ہے جو ووٹ ڈالنے کی اہل ہے۔ اب اگر آپ کے جملہ وابستگان اس قابل نہیں کہ آپ کے امیر کا انتخاب کر سکیں تو پھر آپ انتخابات میں ان سے اور دیگر عام گناہ گار مسلمانوں سے ووٹ کیوں مانگتے ہیں۔ ریاست کا وزیر اعظم تو ایک طرح سے پاکستان کے تمام مسلمانوں کا امیر ہوا، اس کے انتخاب میں گناہگاروں کے ووٹ مانگے جاتے ہیں اور ایک گروہ کے امیر کے انتخاب میں اپنی صفوں میں بھی فرق روا رکھ لیا جاتا ہے۔ یہ ایک خوفناک تضاد ہے۔ محدود رکنیت کے تصور سے پھوٹنے والی اس فکر نے جماعت اسلامی کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔جماعت اسلامی کو سوچنا چاہیے کہ جو لوگ امیر جماعت کے منصب کے لیے ووٹ نہیں دے سکتے، ان ساتھی بھائیوں سے اور دیگر گناہگار پاکستانیوں سے پھر آپ عام انتخابات میں ’ امیر المومنین‘ بننے کے لیے ووٹ کیوں مانگتے ہیں۔
جماعت اسلامی کا دوسرا تضاد یہ ہے کہ اس کے ہاں کوئی شخص خود کو امیر کے منصب کے لیے انتخابی عمل میں بطور امیدوار پیش نہیں کر سکتا۔ سید مودودی نے 1951ء کے انتخابی معرکے کے ہنگام خود کو الگ تھلگ رکھنے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا : جماعت اپنی انتخابی جدوجہد میں، خاص طور پر یہ بات عوام الناس کو ذہن نشین کرائے گی کہ امیدوار بن کر اٹھنا اور اپنے حق میں ووٹ مانگنا آدمی کے غیرصالح ہونے اور نااہل ہونے کی پہلی اور کھلی ہوئی علامت ہے۔ ایسا شخص جب کبھی اور جہاں کہیں سامنے آئے لوگوں کو فورا سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک خطرناک شخص ہے اور اس کو ووٹ دینا اپنے حق میں کانٹے بونا ہے۔‘‘جماعت اسلامی نے سید ساحب کی اس فکر کو اپنے امیر کے انتخابات کی حد تک تو قائم رکھا لیکن ملک کے عام انتخابات میں ان کے لوگ امیدوار بن کر اٹھتے اور اپنے حق میں ووٹ مانگتے ہیں۔ اب کیا آدمی انہیں غیر صالح ، نااہل اور خطرناک سمجھے؟ اب یا تو آپ عام انتخابات میں بھی ووٹ نہ مانگیں اور امیدوار نہ بنیں یا پھر اپنے امیر کے انتخاب میں بھی اس بات کی گنجائش رکھیں کہ اراکین میں سے کوئی امیر کا الیکشن لڑنا چاہے تو لڑ سکے۔ جب ایک جماعت اپنی داخلی صفوں میں امیدوار بن کر ووٹ مانگنے کے عمل کی اس طرح حوصلہ شکنی کرے گی تو اس جماعت کے لوگ عوام سے کیسے ووٹ مانگ سکیں گے اور ان کے رہنمائوں کا کوئی حلقہ انتخاب آخر کس طرح وجود میں آ سکے گا؟
مزید حیرت ہمیں اس وقت ہوتی ہے کہ بھٹو کے ساتھ انتخابی معرکہ ہوا تو سید مودودی نے اسے غزوہ تبوک کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا :یہ بعینہ وہی وقت ہے جب خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی نے آج تک وضاحت نہیں کی۔ اگر امیر جماعت کے لیے امیدوار بننا ناجائز ہے تو ایم این اے کے منصب کے لیے جائز کیسے ہو گیا اور ایم این اے کے منصب کے لیے ووٹ مانگنا جائز ہے تو امیر جماعت کے منصب کے لیے ناجائز کیسے ہوگیا۔ آپ اپنے لوگوں کی تربیت ہی اس طرز پر کریں گے تو وہ عوام سے ووٹ کیسے لے سکیں گے۔ وہ تو یہ کام بے دلی سے کریں گے اور اندر سے یہی سمجھیں گے کہ یہ نامناسب کام ہے۔ پھر آپ کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں تو اس میں قصور کس کا؟
تضادات سے کوئی بھی پاک نہیں ہوتا۔بہت سے تضادات اصل میں ارتقاء ہوتے ہیں۔ جماعت بھی اپنے تضادات کو ارتقاء کہہ کر اس بوجھ سے جان چھڑا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے ہر تضاد کا دفاع کیا اور اسے شرعی بھی قرار دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے کہا گیا کہ ان انتخابات کی اہمیت جو بھی ہو، ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم ان اصولوں کی قربانی دیں جن پر ہم ایمان لائے لیکن بھٹو سے مقابلہ پڑا تو یہ اصول بھول گئے اور نہ صرف الیکشن لڑا گیا بلکہ اسے بعینہ غزوہ تبوک قرار دیا گیا۔ بے نظیر کی مخالفت کی گئی کہ عورت الیکشن نہیں لڑ سکتی تو یہ بھی اسلامی اصولوں کے تحت اور مادرملت کی حمایت کی گئی تو یہ بھی فقہ کے اصولوں کے مطابق۔ نواز شریف کا ساتھ دیا گیا تو یہ بھی سربلندی اسلام کے لیے اور ان کی مخالفت کی گئی تو یہ بھی شریعت کے اصولوں کی خاطر، ضیا مارشل لاء کی حمایت بھی اسلام کی خاطر اور مشرف کی مخالفت بھی اسلام کے لیے، پرائیویٹ جہاد کا آغاز کیا تو یہ بھی ٹھیک کیا اور اب سراج صاحب فرماتے ہیں بندوق کا نہیں قلم کا دور ہے تو یہ بھی صحیح، یعنی حق صرف وہ ہے جو آپ کہیں۔ آپ کی مخالفت کرنے والا کم بخت بڑا ہی پرلے درجے کا ناعاقبت اندیش ہے، عظمت کے ایسے ہمالہ پر براجمان ہو کر سیاست نہیں ہو سکتی۔
جماعت اسلامی نے اس ملک میں ٹھوس سیاست کرنا ہے تو اسے اسلامی جمعیت طلبہ کی افادیت کے طلسم ہوشربا کی بھول بھلیوں سے نکل کر حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں سے اتنے فرزندان توحید جمعیت نے نہیں نکالے جتنوں کو جماعت اسلامی سے ہمیشہ کے لیے متنفر کر کے نکالا۔ یہی نوجوان جب عملی زنگی میں آتے ہیں تو جمعیت کے ردعمل میں وہ جماعت اسلامی کو سینگوں پر لیے پھرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقات کو جماعت اسلامی سے دور کرنے میں جتنی خدمات اسلامی جمعیت طلبہ نے دی ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔جماعت اسلامی کو فیصلہ کرنا ہو گا وہ کب تک اس بوجھ کواٹھا کر پھرے گی۔
مجھے نہیں معلوم، میری ان معروضات کا صالحین کیا حشر نشر کریں گے، لیکن مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنے تئیں جو درست سمجھا، لکھ دیا۔ جماعت اسلامی اپنی طبعی مدت پوری نہیں کر چکی تو اسے جان لینا چاہیے اسے خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • میرا خاندان mqm سے تعلق رکھتا ہے لیکن میں جمعیت کے باعث جماعت کا رکن ہوں ۔۔ جمعیت کے باعث جماعت کو فائدہ ہی ہوا ہے نقصان نہیں ۔۔۔