ہوم << جماعت اسلامی کا مستقبل، حقائق کیا ہیں؟ شمس الدین امجد

جماعت اسلامی کا مستقبل، حقائق کیا ہیں؟ شمس الدین امجد

برادر آصف محمود رائٹ ونگ یا اسلامسٹ کالم نگار کے طور پر معروف ہیں اور گمان یہی ہے کہ اس کے بارے میں درست معلومات اور اس کی بنیاد پر درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہی ان کے جماعت اسلامی کے بارے میں کالم میں مگر اس سے مختلف صورتحال سامنے آئی ہے۔ انھوں نے 'میکینکل فالٹ' کی طرف توجہ دلائی لیکن اس کی تفصیل وہی دہرا دی جو اس سے پہلے کئی دفعہ ڈسکس ہوچکی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ انھوں نے پورے اخلاص کے ساتھ ہی لکھا ہے، مگر عملاً ان سے وہی کام سرزد ہوا جس کے بارے میں انھوں نے جماعت کو توجہ دلانی چاہی ہے۔ میکینکل فالٹس پر بات کرنا زیادہ توجہ اور غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اپنی محفلوں میں ہم اس پر اظہار خیال کرتے ہیں، اس کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور حل بھی تجویز کیا جاتا ہے، مگر وہ وہ نہیں ہے جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے۔
مثال کے طور پر پہلے تضاد کو ہی دیکھ لیجیے جسے انھوں نے صالح اقلیت کا طعنہ بنادیا ہے۔ سید مودودیؒ سے کیا مشابہت، سراج الحق نے حلف اٹھاتے ہی اپنی پہلی تقریر میں خود واضح کردیا تھا کہ ان کا موازنہ کسی بھی سابق امیر سے نہ کیا جائے کہ وہ سراج الحق ہیں اور انھیں اپنی کم مائیگی کا پورا احساس ہے۔ گھڑسوار کی آمد و انتظار کی بات بھی شاید انھوں نے زیب داستاں کے لیے کہہ دی، ورنہ جو جماعت منظم ہو، ملک گیر ہو اور پون صدی سے میدان میں موجود ہو اور گلی محلے کو جدوجہد کا مرکز بنائے ہوئے ہو، اس کےلیے یہ بات کہنا کہ وہ کسی مسیحا کے انتظار میں ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔ ویسے تبدیلی کا منتظر رہنا یا اس کے بارے میں پرامید رہنا کوئی خامی نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جائے۔ حالیہ عرصے میں ہم نے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کو دیکھا ہے کہ تبدیلی یا کسی پارٹی یا قیادت کی مقبولیت کا ایک دن پہلے تک خیال نہیں تھا، مگر حالات پلٹے تو معلوم ہوا کہ تجزیے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اس میں جماعت سے زیادہ عمر والی اخوان المسلمون کی مثال بھی دی جاسکتی ہے اور قدرے نوآموز تحریک انصاف کی بھی۔ محنت مسلسل ہوتی ہے، عوام کے اندر نفوذ بھی جاری رہتا ہے مگر یہ درخت ثمربار کب اور کس وقت ہو، اس بارے میں بعض اوقات کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا۔
محدود رکنیت یا جماعتی امیر کے طریق انتخاب کو تضاد کہنا محل نظر ہے۔ اگر کسی ملک میں اور کسی پارٹی میں اس کے سربراہ کو پارٹی وابستگان کے علاوہ بھی کوئی منتخب کرتا ہے تو اس کی معلومات ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں، اگر برادر آصف محمود اس حوالے سے کچھ بنیادی معلومات فراہم کرسکیں تو اس سے جماعت کو اپنا فالٹ سمجھنے میں بھی قدرے آسانی ہوگی۔ پاکستان میں جماعتوں اور ان کی قیادت کے طریق انتخاب پر بعد میں آتے ہیں کہ صورتحال کا پتلا ہونا کیا، یہاں تو کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ حال ہی میں برطانیہ میں لیبرپارٹی نے جیرمی کوربن کو اپنا سربراہ منتخب کیا، اعلانات کے باوجود ممبرشپ چند لاکھ تک ہی پہنچ سکی اور اسی نے پارٹی لیڈر منتخب کیا۔ اس پر بھی بعض لیبر حلقوں نے الزام عائد کیا کہ کنزرویٹیو نے سازش کے طور پر اپنے لوگوں سے ممبرشپ کروائی کہ جیرمی منتخب ہو جائیں۔ اب اس پر کیا یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ منتخب محدود لوگوں نے کیا تو پوری قوم سے ووٹ کیسے مانگا جائے گا؟ یا لیبر کی ہار کی یہی وجہ ہوگی۔ امریکی صدارتی انتخاب ہورہے ہیں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پرائمریز کا الگ الگ انتخاب ہوتا ہے، ممبرشپ بھی الگ ہوتی ہے۔ یہی طریقہ ہر جگہ رائج ہے۔ پارٹی ممبر بالعموم ایک آدھ فیصد یا اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس حوالے سے کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں ہے کہ یہاں اول تو انتخاب ہوتا ہی نہیں۔ ہوتا ہے تو چند لوگوں کی ”مجلس عاملہ“ میں اور وہ بھی بس مذاق کہ ایک خاندان پر ہی مہر لگانی ہوتی ہے۔ اس کے لیے تو بعض اوقات نسبت بھی تبدیل کرلی جاتی ہے۔ اگر کم ممبرشپ یا اپنے ممبران سے پارٹی سربراہ کا انتخاب کوئی فالٹ ہے تو یہ اس سے زیادہ گہرائی کے ساتھ یہاں کی دوسری جماعتوں میں موجود ہے، مگر یہ امر ان کی انتخابی کامیابی میں مانع نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابی ناکامی کی وجوہات دوسری ہوں گی، وہ نہیں، برادر آصف محمود نے جس سے آغاز کیا ہے۔
جماعت اسلامی کا جو عمل فالٹ لائن کے طور پر بیان کیا گیا ہے، عملاً وہ اس کا حسن ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ انھیں جماعت کے طریق کار کے بارے میں معلوم ہوگا مگر اندازہ ہوا کہ وہ اس حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار ہیں یا انھیں بنیادی معلومات نہیں ہیں۔ جماعت کی ممبرشپ پاکستان کے ہر شہری کے لیے اوپن ہے، صالحیت کی اس میں کوئی قید نہیں ہے۔ کوئی بھی کارکن یا حامی فارم بھرکر شامل کارواں ہوسکتا ہے۔ اور نہ صرف ممبرشپ اوپن ہے کہ کوئی بھی اس کا ممبر بن سکتا ہے بلکہ اضافی طور پر اسے تنظیم میں سمونے، جگہ دینے، تربیت کرنے اور قیادت سونپنے کی بھی گنجائش ہے جو کہ ظاہر ہے کہ دوسری پارٹیوں میں نہیں ہے۔ اس کا طریق کار وضع کردیا گیا ہے، اس کو اپنانے سے یہ گنجائش موجود ہے کہ کوئی بھی عام شخص سراج الحق بن سکتا ہے۔ کوئی بھی فرد جو اس پراسس سے گزر کر رکن بنتا ہے، وہ صرف امارت کے انتخاب میں ووٹ دینے کا اہل ہی نہیں ہوتا بلکہ دستوری طور پر وہ خود امیر بننے کا بھی اہل ہوجاتا ہے۔
پھر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی اپنے امیر کا انتخاب کرتی ہے، امیر المئومنین کا نہیں، نہ اس پر جماعت کو دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کا امیر، امیرالمئومنین کے منصب پر فائز ہوگیا ہے اور سب کےلیے اس کی پیروی کرنا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بس تنظیمی امور چلانے کےلیے ایک امیر کا انتخاب ہے، اور بس۔ پارٹی سربراہ کے انتخاب کےلیے کسی ملک میں عوامی ریفرنڈم کا طریقہ رائج ہے نہ عام انتخابات کا، اگر کہیں رائج ہے تو کم از کم مجھے اس حوالے سے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں ہے۔ جیسا کہ گزارش کی کہ یہی مروج ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب قومی انتخاب میں جائیں گے تو سب سے اپیل نہیں کریں گے۔ وہاں سب سے کریں گے جیسا کہ سب پارٹیاں کرتی ہیں۔ ورنہ تو کوئی بھی پارٹی ووٹ کیا مانگے، الیکشن میں حصہ ہی نہ لے کہ پارٹی قیادت کے انتخاب میں قوم سے شرکت کی اپیل کی جاتی ہے نہ ووٹ مانگا جاتا ہے۔
یہ اعتراض کہ جماعت میں کوئی کسی منصب کی خواہش نہیں کرسکتا، بھی درست نہیں۔ یہ اصول جماعت کا وضع کردہ نہیں بلکہ سیرت نبوی ﷺ اور سیرت صحابہ سے اخذ کردہ ہے جس کی رہنمائی یہ ہے کہ طلب والے کو منصب سے دور رکھا جائے گا اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس ہدایت کو ایک لمحے کےلیے سائیڈ پر کرلیا جائے تو تنظیمی طور پر اس میں کئی مصلحتیں کارفرما ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اس سے پارٹی کسی قسم کی گروہ بندی کا شکار نہیں ہوتی، کئی دوسرے فوائد اپنی جگہ ہیں۔ برادر آصف محمود نے کافی تگ و دو سے کام لیا اور مولانا مودودیؒ کی 1951ء کی ایک تحریر بطور حوالہ نکال لائے حالانکہ اس محنت کی ضرورت نہیں تھی، شاید ان کے علم میں نہ ہو کہ یہ تو جماعت کے دستور میں درج ہے، اور اس کا تعلق جماعت کے عمومی معاملات کو درست رکھنے سے ہے۔
ان کا یہ خیال کہ تنظیمی طور پر خواہش پر پابندی عائد کرنے کے بعد جماعت کے امیدواروں کا قومی اور بلدیاتی انتخابات میں کھڑے ہوکر اپنے لیے ووٹ مانگنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ بھی اسی تناظر میں درست نہیں ہے۔ کوئی بھی پارٹی اپنے امور چلانے کےلیے حسب منشا و ضرورت دستور وضع کرسکتی ہے مگر وہ پارٹی دائرے کےلیے ہوتا ہے، بیرون کےلیے نہیں۔ پھر وہ اس نکتے کو بھول گئے یا شاید یہ بھی ان کے علم میں نہ ہو کہ جماعت میں آج بھی کوئی قومی و صوبائی اسمبلی یا بلدیات میں از خود امیدوار نہیں بن سکتا، جماعت اسے نامزد کرتی ہے۔ اس طرح بھی وہ اعتراض ختم ہوجاتا ہے کہ جب پارٹی اسے خود نامزد کرکے میدان میں اتار رہی ہے تو وہ الیکشن لڑنے کا اہل بھی ہوگا اور ووٹ بھی مانگے گا۔ اصلاً یہ وہ چیز ہے جو احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے، آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسی احساس ذمہ داری کے خوف سے کئی لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ آگے بڑھ بڑھ کر عہدے سمیٹنے اور ان کی بنیاد پر لوٹ مار کے اس دور میں یہ رویہ بھی ایک غنیمت ہے۔
مزید اعتراضات انھوں نے مختصر انداز میں گنوائے ہیں، مگر ان کی حقیقت بھی اوپر کے اعتراضات جیسی ہی ہے۔ مثال کے طور پر فاطمہ جناح اور بےنظیر بھٹو کی مثال، جماعت نے کبھی اس بنیاد پر بے نظیر بھٹو کی مخالفت نہیں کی جو انھوں نے بیان کی ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1988ء میں جماعت نے آئی جے آئی سے پہلے پیپلز پارٹی سے رہ و رسم بڑھائی تھی اور ایک تین رکنی وفد نے منصورہ کا دورہ بھی کیا تھا، کچھ اندرون خانہ مخالفت اور کچھ پیپلزپارٹی کے گریز کی وجہ سے جماعت کو آئی جے آئی کے پاس جانا پڑا۔ گزشتہ دنوں برادر جمال عبداللہ عثمان کے ہمراہ سینئر صحافی الطاف حسن قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی تو سوال جواب کی نشست میں انھوں نے 1988ء کے اس اقدام پر تنقید کی اور بتایا کہ انھوں نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی سے صلح کرنی ہے تو ہمیں جیلوں میں بھجوانے کی کیا ضرورت تھی۔ ضیاء الحق کی چند ماہ کی حمایت ہو یا پرویز مشرف کی مستقل مخالفت، نوازشریف سے اتحاد ہو یا راہیں جدا ہونا، اس میں ایک فرق کرنا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ یہ وقت اور حالات کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے کسی بھی پیش آمدہ صورت میں جماعت اپنے بنیادی نعرے یعنی اسلامی نظام کے نفاذ سے دستبردار ہوئی نہ اس کے لیے جدوجہد ترک کی۔ اب اگر جماعت اپنی بنیاد پر قائم ہے تو باقی سب کو حکمت عملی کے صحیح یا غلط ہونے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، نہ کہ بنیاد کو مطعون بنا دیا جائے۔
آخری بات یہ کہ برادر آصف محمود نے جماعت اسلامی کی سیاست اور انتخابی ناکامی کا جائزہ لیا ہے، جماعت اسلامی کے لیے سیاسی کامیابی اہم ہے، لیکن کل نہیں ہے، یہ اس کی ہمہ گیر نوعیت اور جدوجہد کے دائروں میں سے ایک دائرہ ہے۔ جماعت کی انتخابی ناکامی ایک مثال ہے، مگر نظریاتی دائرے سمیت دیگر دائروں میں اس کی کامیابی بےنظیر ہے اور خود مخالفین یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ کوئی دوسری جماعت اس کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے نہ اس ضمن میں کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ نظریاتی کامیابی کی گونج تو اب عالمگیر ہے اور ایک دنیا اس کی گواہی دے رہی ہے۔ سیاسی ناکامی کی اپنی وجوہات رہی ہوں گی مگر ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ برادر آصف محمود کے بارے میں تو یہ بات نہیں کہی جا سکتی مگر ہمارے ہاں کے معروف 'اسلامسٹ' کالم نویس جماعت کی ناکامی کا نوحہ پڑھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ کہیں واقعی عوام کے ذہن میں کامیابی کا خیال نہ آجائے اور جماعت واقعی کامیاب ہی نہ ہوجائے۔ ان کا شور مخصوص مواقع پر اتنا بڑھتا ہے کہ ان کی طرح عام لوگ بھی دوسری جماعتوں کی طرف نکل لیتے ہیں کہ جماعت ہے تو صالح اور کچھ نہ کچھ صلاحیت بھی ہے لیکن سیاست اس کے بس کا روگ نہیں۔ جہاں جماعت کو اپنی فالٹ لائنز تلاش کرنے اور انھیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے، وہیں اس رویے کی جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • محترم و مکرم شمس الدین امجد صاحب کی ساری باتیں بجا مگر اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جو بندہ جماعت اسلامی کی کسی خامی کی نشاندہی کرے ، کیا وہ اسلامسٹ نہیں رہتا؟
    (برادر آصف محمود رائٹ ونگ یا اسلامسٹ کالم نگار کے طور پر معروف ہیں اور گمان یہی ہے کہ اس کے بارے میں درست معلومات اور اس کی بنیاد پر درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہی ان کے جماعت اسلامی کے بارے میں کالم میں مگر اس سے مختلف صورتحال سامنے آئی ہے۔ انھوں نے ‘میکینکل فالٹ’ کی طرف توجہ دلائی لیکن اس کی تفصیل وہی دہرا دی جو اس سے پہلے کئی دفعہ ڈسکس ہوچکی ہے)