ہوم << عشق نچایا - دائود ظفر ندیم

عشق نچایا - دائود ظفر ندیم

دائود ظفر ندیم پاکستانی ثقافت اور تشخص کو جو پہلو دوسری قوموں اور دوسرے ممالک سے الگ تشخص دیتے ہیں، ان میں پاکستانی ٹی وی ڈرامہ ایک اہم پہلو ہے۔ جس وقت لاہور کے ٹیلی وژن نے کام کرنا شروع کیا تو 1964ء کے اواخر کا زمانہ تھا۔ ٹیلی وژن کے لیے لکھتے ہوئے پاکستانی ادیبوں کو محسوس ہوا کہ ان کے بیان کے لیے جو وسعت درکار تھی وہ انہیں مل گئی۔ ٹیلی وژن نے انھیں ایک بحر بیکراں سے ہم کنار کر دیا۔ انھوں نے جب پاکستان ٹیلی وژن کے لیے لکھنا شروع کر دیا تو ان میں خداداد صلاحیتوں کی کمی نہیں تھی۔ ٹیلی وژن کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ادیبوں کے حقیقی جوہر ٹیلی وژن پر آ کر کھلے ۔ پاکستانی ٹیلی وژن نے لاتعداد سپر ہٹ ڈرامے پیش کیے جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔
ریڈیو اور ٹی وی سرکاری ادارے ہوتے تھے اور ان کی ایک خاص پالیسی ہوتی تھی اور ہر ادیب کو یہاں کچھ اصول و قواعد کے اندر رہ کر لکھنا پڑتا تھا۔ لیکن یہاں ادیبوں نے یہ کمال دکھایا کہ ایسے ایسے نادر اور یگانہ روزگار ڈرامے لکھے کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ادبی رسالوں کے لیے افسانے اور ڈرامے لکھ رہے ہوں۔ اُنھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایسے ایسے کردار عطا کیے جنھوں نے لوگوں کو مسحور کرلیا۔ دیکھنے والوں کوشاید پہلی بار احساس ہوا کہ وہ ٹیلی وژن پر اپنے آپ کو چلتا پھرتا باتیں کرتا دیکھ رہے ہیں. لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہونے سے پانچ دس منٹ قبل ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ جتنی دیر تک ڈرامہ نشر ہوتا کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ان ڈراموں میں ادیبوں کا فن اور اس کی فنی اور تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی تھیں۔ شوکت صدیقی، اشفاق احمد، منوبھائی، امجد سلام امجد، یونس جاوید، حسینہ معین، اصغر ندیم سید، عطالحق قاسمی اور بہت سے ادیبوں، جن کے نام فوری طور پر ذہن میں نہیں آرہے، نے اپنا حصہ ڈالا۔ نجی چینلز کی آمد کے بعد بھارتی چینلز کے ذریعے بھارتی ڈراموں اور اس کے ساتھ ترکی ڈراموں کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ دیر ایسے لگا جیسے پاکستانی ڈرامہ اپنی افادیت کھو رہا ہے مگر یہ تاثر بہت جلد دور ہوگیا۔ پاکستانی ڈرامے کی روایت بہت مضبوط اور بہت گہری تھی۔ جلد ہی ناظرین کو اندازہ ہوگیا کہ ہمارا ڈرامہ ابھی بھی توانا اور پراثر ہے اور کسی بھی دوسرے ملک کے ڈرامے سے مقابلہ کر سکتا ہے.
پاکستان کے بہت سے نجی ٹی وی چینلوں نے بھی بہت اعلی معیار کے ٹی وی ڈرامے پیش کیے ہیں۔ پاکستان میں اچھے لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں، انھیں میں ایک نام ظفرعمران کا ہے۔ ظفرعمران کے تحریر کردہ ڈرامے مختلف ٹی وی چینلوں پر پیش کیے جا چکے ہیں۔ آج کل بھی ان کا ایک ڈرامہ عشق نچایا کے نام سے ایک نجی ٹی وی چینل پر پیش ہو رہا ہے۔ ظفرعمران اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذہنوں کو شکیل عادل زادے جیسے عبقری نے اپنی تحریروں سے متاثر کیا۔ ظفر عمران کو ڈرامہ لکھنے کی خداداد صلاحیت سے ایسے لگتا ہے جیسے اسے رب نے اسی کام کے لیے تخلیق کیا ہے۔ ظفرعمران اس سے پہلے شہریار شہزادی جیسا کامیاب ڈرامہ پیش کرچکا ہے۔ وہ ایک عام سی کہانی کےاتنے رخ دکھلاتا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے، وہ کرداروں کی منافقت، عیاری، سادگی اور بعض اوقات تقدیر کے ہاتھوں بے بسی کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ ڈرامہ دیکھنے والا خود کہانی کے سحر میں کھو جاتا ہے اور وہ خود کو بھی ڈرامے کا کردار محسوس کرنے لگتا ہے۔ شہریار شہزادی بلاشبہ ایسا ہی سحر انگیز ڈرامہ تھا جس نے ظفر عمران کی تخلیقی طاقت کی بھرپور طریقے سے نشاندہی کی۔
اب ظفر عمران کا عشق نچایا بھی ایک عام سی کہانی سے شروع ہوا ہے. بظاہر یہ ایک سہ رخی محبت کی کہانی نظر آتی ہے مگر آنے والی قسطوں میں اندازہ ہوگا کہ اس میں انسانی نفسیات کو کس طریقے سے ظاہر کیا گیا ہے اور کس طرح ٹی وی ڈرامے کی اس اعلی اور شاندار روایت کے ساتھ خود کو جوڑا گیا ہے۔ ظفر عمران کے ڈرامے کی خاص خوبی عام روزمرہ کی زبان کا استعمال ہے۔ دیکھنے والے جہاں ڈرامے کی کہانی اور سچولیشن کا لطف اٹھاتے ہیں وہاں وہ کرداروں کے مکالمے اور ان کی زبان سے بھی لطف اندوز ہوتے ہین۔
میں پاکستانی ڈرامے کی کامیابی کے لیے ہمیشہ ہی دعاگو رہا ہوں۔ یہ ایک پاکستانی کی حیثیث سے ہمارا فخر ہیں اور ظفر عمران جیسے ادیب اس فخر کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں. تاہم یہاں یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ میرے خیال میں ظفر عمران نے اپنا آدھے سے زیادہ ادبی ٹیلنٹ ٹی وی کی نذر کر دیا ہے۔ اگر ظفر عمران اپنے کرداروں کو ایک ناول کی شکل میں بیان کرتا تو میری رائے میں اس کا درجہ جدید اردو ادب کے ناولوں میں کسی طرح کم نہ ہوتا

Comments

Click here to post a comment

  • برادر داؤد ظفر ندیم صاحب نے محترم ظفر عمران صاحب کے تازہ ڈرامے "عشق نچایا" پر بہت شاندار اور بھرپور تبصرہ کیا ہے. بلاشبہ ظفر عمران صاحب ایک عام سی کہانی کے بہت سے روپ سامنے لا کر سامعین کو محسور کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں. بظاھر یہ عشق و محبت کی ایک سادہ سی کہانی ہے لیکن خالص محبت اور مادی اشیا یا آسائشوں کے حصول کی خواہش کے درمیان کشمکش نے اسے بہت دلچسپ، رنگین اور سبق آموز بنا دیا ہے. داؤد ظفر ندیم صاحب درست فرماتے ہیں کہ ظفر عمران صاحب کو ڈراموں کے ساتھ ساتھ ناول نگاری پر بھی توجہ دینی چاہئیے. ناولوں کے ذریعے وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچا سکیں گے. یوں بھی ناول کی کہانی کو بعد میں ڈرامے کی صورت میں پیش کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے.