ہوم << اصحاب کمال میں 8 کا اضافہ - عبداللہ طارق سہیل

اصحاب کمال میں 8 کا اضافہ - عبداللہ طارق سہیل

دو روز پہلے عمران خان صاحب نے اپنے انٹرویو میں فرمایا کہ مجھے جلد الیکشن کرانے کی کوئی جلدی نہیں۔ دراصل یہ حکومت کے لیے پیغام تھا اور یہ پیغام حکومت تک پہنچ بھی گیا ہے۔ جوں ہی حکومت تک پیغام پہنچا، اس نے فوراً ہی وفاقی کابینہ میں 8 وزیر (بعنوان معاون) اور رکھ لئے۔

یوں کابینہ کی گنتی 75 تک پہنچ گئی۔ یہ بھی گویا حکومت کا جوابی پیغام تھا کہ آپ کو الیکشن کی جلدی نہیں تو ہمیں بھی جانے کی جلدی نہیں۔ ڈٹ کر اگلے اگست تک حکومت کریں گے اور اگست میں سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے۔ جس کی طرف مولانا فضل الرحمن نے یہ دلچسپ مطالبہ کر کے اشارہ کیا ہے کہ ”ایکسٹینشن“ کی بات چل رہی ہے تو کیوں نہ موجودہ قومی اسمبلی کو بھی سال بھر کی ایکسٹینشن دے دی جائے۔

کابینہ کے ارکان کی تعداد 8 کے اضافے کے ساتھ 75 ہو گئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ نئے آٹھ وزیر کیا کریں گے۔ جواب یہ ہے کہ یہ بھی کمال کریں گے۔ جیسا کہ پہلے والے کر رہے ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا کمال کریں گے تو جواب ہے کہ مجرّد کمال کریں گے۔ مزید سوال یہ ہے کہ کمال سے کیا مراد ہے تو اس کا جواب مبینہ طور پر مرزا غالب بہت پہلے دے چکے۔ مبینہ طور پر اس لیے کہ دیوان غالب میں ان کا یہ شعر موجود نہیں ہے لیکن یار لوگوں نے اسے مرزا غالب ہی سے منسوب کر رکھا ہے اور ہم یار لوگوں کی بات کی تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہرحال مرزا کا جواب جس شعر میں ہے، اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔

جواب اس مصرے میں آ گیا ہے۔ شعر کا مصرعہ اوّل نظریہ اضافت سے متعلق ہے اس لیے اس کا یہاں لکھنا قطعی غیر ضروری ہے۔ تو کہنے کی بات یہ ہے کہ پہلے 68 وزیر کمال کرتے تھے، اب 75 کیا کریں گے۔ ہر طرف کمالو کمال ہو جائے گی۔ ہاں، ایک تھوڑی سی تصحیح ضروری ہے جو اب یاد آئی۔ 75 کے 75 صاحب کمال نہیں ہیں، ایک وزیر ان میں ایسا ہے جو بہت کچھ کام کر رہا ہے، دن رات محنت کر رہا ہے، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے میں جٹا رہتا ہے۔ اس وزیر کا نام مفتاح اسمعٰیل ہے۔

اب یہ بات ہم سے نہ پوچھئے کہ وہ کون سا کام ہے جن میں مفتاح اسمعٰیل رات دن جٹے رہتے ہیں حتی کہ چھٹی کے دن بھی آرام نہیں کرتے۔ یہ بات پوچھنا ہے تو غلام سے پوچھئے جس پر ان وزیر موصوف کی کارکردگی صبح و شام ہتھوڑے کی طرح برستی ہے۔ چند روز پہلے موصوف ایک پریس کانفرنس میں اپنی اور اپنے والد محترم کی بے پایاں دولت مندی کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے۔ چند سیکنڈ تک ان پر گریہ طاری رہا، پھر حالات معمول پر آ گئے۔ کوئی قیافہ شناس اور رمّال ابھی تک سامنے نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ موصوف پر یہ گریہ شادمان طاری ہونے کا سیاق و سباق کیا تھا

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات یہ رونا آیا

گریہ والی پریس کانفرنس کے نتائج البتہ دو روز بعد سامنے آئے جب جولائی کے مہینے کے بجلی کے بلوں پر مزید پونے پانچ روپے کا ایڈجسٹمنٹ بل شامل کر دیا گیا۔ یہ اضافی ایڈجسٹمنٹ ستمبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔

یہ راز اپنی جگہ ہے کہ جولائی پر ماہانہ ایڈجسٹمنٹ پہلے ہی لیا جا چکا ہے۔ اب اس ماہانہ کو پھر سے کیوں دہرایا گیا؟ ستمبر میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا بل بھی آئے گا۔ یوں ستمبر انوکھا مہینہ ہو گا جس میں ایک اضافی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ جولائی کی ، ایک ایڈجسٹمنٹ اگست کی اور ایک ایڈجسٹمنٹ سہ ماہی والی وصول کی جائے گی۔ ہر ایڈجسٹمنٹ 5 روپے فی یونٹ ہوتی ہے، سہ ماہی 15 روپے کی ہوئی گویا 25 روپے فی یونٹ اضافی بل۔ مگر یہ والی سرکار نے بجلی کا یونٹ پہلے ہی 55 روپے کر دیا ہے، یہ 25 ملا کر گویا ستمبر کا بل 80 روپے فی یونٹ کے حساب سے آئے گا۔ ستمبر کی اپنی ایڈجسٹمنٹ اکتوبر کے بلوں میں لی جائے گی۔ اگر یہ والی سرکار مناسب سمجھے تو ایڈجسٹمنٹ بلوں کا نفاذ 2001ءسے کر دے یعنی پچھلے 22 سال کی وصولی بھی کر ڈالے۔

اس کے بعد انہیں پریس کانفرنس میں رونا نہیں پڑے گا، جبین بھی خنداں ہوئی، لب و دنداں بھی خنداں۔

خان صاحب نے ، پی ٹی آئی کے حامی ٹی وی میزبانوں کے مطابق آرمی چیف کو توسیع دینے کا مطالبہ کر کے ایسا ماسٹر کارڈ کھیلا تھا کہ حکومت کے متعدد طبق روشن ہو گئے تھے اور یہ ماسٹر کارڈ کھیل کر انہوں نے گویا امریکی سازش سے بننے والی حکومت کو دن میں تارے دکھا دئیے تھے۔ لیکن داد و تحسین کی ڈونگرہ باری ابھی جاری تھی کہ خان صاحب نے یہ ماسٹر کارڈ یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا کہ میں نے ایسا کب کہا تھا۔

اب ڈونگرہ بار حضرات کیا کریں گے؟ کیا کریں گے یہی کہ خان صاحب نے جھوٹے انٹرویو کی تردید کر کے ایک اور ماسٹر کارڈ کھیل دیا، حکومت کو دن میں تارے دکھا دئیے اور اس کے جملہ ناپاک عزائم کو دھول چٹا دی۔ یقین نہیں آتا تو فواد حسین چودھری سے پوچھ لو۔فواد چودھری سے پوچھنا اس لیے بھی دلچسپ ہو گا کہ ماسٹر کارڈ کھیلنے کے نتائج کا تجربہ انہیں گزشتہ روز، یعنی محض 24 گھنٹوں میں دو بار ہوا۔

پہلی بار اس طرح کہ جب بنی گالہ میں امریکی لابی اسٹ رابن رافیل کی خان صاحب سے ”برقع پوش“ ملاقات کی خبر لیک ہوئی تو خان صاحب نے اس کی فوراً تردید کر دی اور حکومت کی شدید مذمت کی کہ وہ جھوٹ گھڑ کر پھیلا رہی ہے، لیکن ٹھیک 12 گھنٹے کے بعد خان صاحب نے ایک دوسرے خان صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کر دی، پھر اسی انٹرویو میں جب خان صاحب نے آرمی چیف کو توسیع دینے کی بات کی تو فواد چودھری نے اس ”ماسٹر کارڈ“ کا دفاع اور ماسٹر کارڈ کھیلے جانے کی تصدیق یوں کہہ کر کی کہ خان صاحب نے یہ تجویز دینے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر، بہت حکمت کاری اور ملکی مفاد کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیا ہے۔

ابھی ان کی تحسین کی نم ناکی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ خان صاحب کا اگلا ماسٹر کارڈ سامنے آ گیا، یہ کہ میں نے ایسا کب کہا تھا!

بلیک لیبل اسلامی شہد والے مشہور سماجی کارکن علی امین گنڈاپور نے کم مشہور سماج دشمن وائس چانسلر گومل یونیورسٹی پروفیسر افتخار احمد کو اپنی ”نشست“ پر رکھ لیا ہے اور انہیں دو بار یہ حکم دیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ ان کے انکار پر اب سماج سیوک گنڈاپور نے ان کے خلاف راست اقدام کا فیصلہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سخت سزا ملے گی۔

سماج سیوک کو گومل یونیورسٹی کی بعض عمارتیں پسند آ گئی ہیں۔ وہ ان عمارتوں کو اپنی ”حراست“ میں لے کر سماج سیوا بعنوان زرعی یونیورسٹی انجام دینا چاہتے ہیں لیکن وائس چانسلر کو یہ منظور نہیں۔

ملاحظہ فرمائیے، کیسی ”لاقانونیت“ ہے کہ ایک معمولی وی سی کو بھی یہ جرا¿ت ہو گئی کہ وہ اتنے بڑے سماج سیوک، اسلامی بلیک لیبل شہد والے بطل عظیم“ کو انکار کر دے؟۔ خدایا ، اس ملک کا کیا بنے گا۔

Comments

Click here to post a comment