ہوم << مدد کریں، مدد کریں اور مدد کریں- محمد اکرام چودھری

مدد کریں، مدد کریں اور مدد کریں- محمد اکرام چودھری

پاکستان کو تاریخ کے بڑے سیلاب کا سامنا ہے ملک بھر میں سیلاب سے آنے والی تباہی کے نشان مٹانے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ ایک تباہی تو یہ ہے کہ پانی کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ کچے مکان، پختہ ہوٹل، تاحد نگاہ فصلیں، زندگی بھر کی جمع پونجی سب کچھ پانی میں بہہ گیا کہیں معصوم بچے پانی کی لہروں کی نذر ہوئے تو کہیں بچوں سے والدین کا سایہ چھن گیا۔ کئی ہفتوں سے پانی نے ملک میں تباہی مچا رکھی ہے۔ کہیں بارشوں کی وجہ سے ہے تو کہیں کسی اور وجہ سے، جھیلیں بے قابو ہیں ڈیم بھر گئے، دریا بپھر گئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے بڑے حصے کا بنیادی ڈھانچہ پانی میں بہہ چکا ہے۔

یہ تو سیلاب سے آنے والی تباہی کی ایک شکل ہے جس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر سے مالی امداد تو آ رہی ہے یقیناً یہ امداد ناکافی ہو گی۔ ملک کو اس تباہی سے نکالنے کے لیے ہمیں مالی امداد کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی کرنا ہے۔ ہر شخص نے اپنا حصہ ڈالنا ہے اگر دو تین افراد مل کر بھی کسی ایک متاثرہ گھرانے کا خرچہ اٹھائیں تو بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ کوئی ایک سو روپے دے سکتا ہے تو اسے ایک سو روپے کی مدد کرنی چاہیے۔ کوئی ایک کروڑ کی استطاعت رکھتا ہے تو اسے ایک کروڑ کی مدد کرنی چاہیے۔ اس معاملے میں کسی بھی طورسستی کوتاہی یا شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کم مقدار میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں لیکن اس بحالی پروگرام کا حصہ ضرور بنیں۔ جن کا سب کچھ پانی میں بہہ چکا ہے وہ ہمارے منتظر ہیں۔ ان کی آنکھیں ہماری راہ تک رہی ہیں۔ ان بے بس افراد کی زندگی ہماری بروقت مدد کے ساتھ جڑی ہے۔

میرے ایک دوست جو ملک کے ایک بڑے سیاستدان اور کاروباری شخصیت ہیں وہ کسی تشہیر کے بغیر خطیر رقم امدادی سرگرمیوں پر خرچ کر چکے ہیں گذشتہ روز ہی میرے علم میں آیا کہ انہوں نے لگ بھگ پچیس کروڑ کے راشن باکسز سیلاب متاثرین کے لیے بھجوائے ہیں۔ یہ امدادی سامان یا امدادی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے وہ اس کے علاوہ بھی مختلف انداز سے سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے ہیں لیکن نہ وہ اس کی تشہیر کر رہے ہیں، نہ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں، نہ ٹیلیویژن کوریج کا سہارا لے رہے ہیں، نہ اخبارات کے لیے تصاویر جاری کر رہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر دن رات سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔ راشن باکسز ان امدادی سرگرمیوں کا ایک حصہ تھا جو گذشتہ روز میرے علم میں آیا یہاں ذکر بھی اس محب وطن اور مصیبت زدہ بھائیوں کا درد محسوس کرنے والے اس شخص کی اجازت کے بغیر کر رہا ہوں۔

یہ لکھنے کا مقصد صرف یاد دہانی اور ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش ہے۔ عین ممکن ہے کوئی شخص پڑھے اس کے دل کی دنیا بدلے اور وہ اللہ کی رحمت سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے میدان میں نکل آئے۔ میرے یہ دوست جن کے فلاحی کاموں اور سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کا ذکر یہاں کر رہا ہوں وہ خاموشی سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں طریقہ کار ہے یہ ملک کے مختلف شہروں میں ان کی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ امدادی ٹیموں کی طرف سے براہ راست لوگوں کو ان کی ضرورت کا سامان پہنچایا جاتا ہے۔ امدادی ٹیمیں کسی پر انحصار کرنے کے بجائے خود متاثرین سے مل کر ضرورت کے سامان کا تخمینہ لگاتی ہیں اور پھر لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔

اس کے علاوہ اگر کوئی انفرادی طور پر بھی رابطہ کرتا ہے تو اس کی ضرورت بھی پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس کاروباری شخصیت جو کہ ایک کامیاب سیاست دان بھی ہیں انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں راشن اور دیگر ضروری چیزوں کے علاوہ بھی بحالی کے کام میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں دوسرے مرحلے میں ان لوگوں کو معمول کی زندگی پر واپس لانے کے لیے کام کیا جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑی نیکی اور قومی خدمت ہے قارئین سے ایسے کام کرنے والوں کی صحت اور نیک مقاصد میں کامیابی کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔ جہاں تک تعلق امدادی سرگرمیوں اور ان کی تشہیر کا ہے کہیں کہیں یہ ضروری بھی ہوتا ہے لیکن اس سارے عمل میں متاثرین کی عزت کا خیال رکھنا سب سے اہم ہے ۔

آٹے کے ایک تھیلے کے ساتھ تصویر نہ بنائی جائے اور کیمرہ نہ چلایا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بعض اوقات سامان وصول کرنے والوں کی خواہش نہیں ہوتی کہ ان کی تصویریں بنائی جائیں لیکن ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہوتا اس لیے وہ خاموش ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی خاموشی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے امدادی کاموں کو تیز کرنا ہے تاکہ جلد از جلد سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں معمول کی زندگی واپس آ سکے۔ ہم جن کی مدد کر رہے ہیں وہ ہمارے بھائیوں جیسے ہیں ان کی عزت نفس کا خیال سب سے اہم ہے جیسے ہم اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں ویسے ہی ان بے بس سیلاب متاثرین کی عزت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

سیلاب میں اب تک سترہ لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں اتنی بڑی تعداد میں تباہ حال گھروں کی دوبارہ تعمیر اور آباد کاری بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح سوا تین کروڑ سے زائد متاثرین کو معمول کی زندگی کی طرف واپس لانا بھی بہت بڑا امتحان ہے۔ ساڑھے سات لاکھ جانوروں کے ہلاک ہونے سے ناصرف روزگار کا ذریعہ محدود ہوا ہے بلکہ اس سے کئی اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے کئی بیماریوں کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سب کچھ معطل ہے۔ ان مشکل حالات میں ہر شہری کو اپنا فرض نبھانا ہے۔ ہم متحد ہو کر کام کریں گے تو یہ مشکل وقت بھی گذر ہی جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment