کوئی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر ملک سے بڑا ہو سکتا ہے نہ ملک سے بڑھ کر اُس کا احترام و اکرام کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر کی پہچان اور تشخص اُس کے ملک کی وجہ ہی سے ہوتی ہے ۔
کوئی لیڈر اگر ملک اور ملکی اداروں کا احترام اور لحاظ ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا تو وہ خود بھی احترام و محبت کا حقدار نہیں کہلا سکتا۔ ایسے شخص کی عزت کی ہی نہیں جا سکتی۔ جناب عمران خان کو اِس ملک، اِس ملک کے ممتاز ترین اداروں اور اِس ملک کے عوام نے جتنی محبت اور احترام بخشا ہے، شومئی قسمت سے خان صاحب نے اِن محبتوں کا جواب مثبت نہیں دیا ہے۔یہ دیکھ کر شدید مایوسی ہوتی ہے۔
یہ عوامی اور ادارہ جاتی محبت کی انتہا تھی کہ عمران خان کو وزیر اعظم کی بلند ترین انتظامی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ وہ پونے چار سال اِس محترم کرسی پر تشریف فرما تو رہے لیکن سوائے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسنے، اُن کا گلا دبانے اور چور چور کے نعرے لگانے کے کوئی مثبت اور دیرپا عوامی و ملکی خدمت انجام نہ دے سکے۔ مایوسی بڑھی تو وطنِ عزیز کی اکثریتی سیاسی جماعتوں نے مل کر اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کی اور یوں اقتدار ، آئینی طریقے سے، عمران خان سے واپس لے لیا گیا۔
اقتدار چھِن جانے کے بعد عمران خان غصے اور طیش میں آپے سے مسلسل باہر ہو رہے ہیں۔ حالانکہ وہ دُنیا کے پہلے اور انوکھے وزیر اعظم نہیں تھے جس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہُوئی اور اقتدار اُن کے ہاتھ سے جاتا رہا ۔ اقتدار چھِن جانے سے پہلے بھی خان صاحب نے اداروں کو دھمکی دیتے ہُوئے کہا تھا ’’ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو مَیں زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا۔‘‘ یعنی وہ ’’خطرناک ‘‘ تو پہلے ہی تھے اور اقتدار سے نکالے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔
انھیں اقتدار و اختیار سے فارغ ہُوئے پانچ ماہ سے اوپر کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اِس عرصے میں اپنے عمل اور بیانات کی شکل میں مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعدواقعی معنوں میں ’’زیادہ خطرے ناک‘‘ ہو رہے ہیں ۔خان صاحب اپنے تئیں’’خطرناک‘‘ ہوکر عوام اور ملک کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں، اپنا بہت کچھ بگاڑ نے کا موجب بن رہے ہیں۔ وہ ریاست اور طاقتور ریاستی اداروں کے بالمقابل کھڑے ہو کر خود کو تو نیچا ثابت کر سکتے ہیں، ریاست اور ریاستی اداروں کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔
انھوں نے ریاست اور ریاستی اداروں کو حسبِ منشا اپنے ڈھب پر لانے کے لیے کبھی کسی کو ’’جانور‘‘ کے قابلِ گرفت لفظ سے یاد کیا اور کبھی کسی کو ’’میر جعفر‘‘ اور’’ میر صادق‘‘ کے بدنامِ زمانہ القابات سے نوازا ۔ جذبات کی رَو میں بہہ کر وہ ایٹم بم مارنے کی بات بھی کہہ بیٹھے۔ انھوں نے اسلام آباد عدالت کی ایک محترم جج صاحبہ کے بارے میں بھی مبینہ طور پر دھمکی اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔خان صاحب کو یہ سب کہنا زیب نہیں دیتا ہے ۔ وہ مگر ڈھیل ملنے پر مسلسل اپنے پاؤں آگے ہی آگے پسارتے رہے ۔ انھوں نے اپنے خلاف کوئی عدالتی ، تادیبی کارروائی نہ ہونے اورعوامی محبت و مودت کا بے جا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے، اور اب جج صاحبہ کے بارے اپنے الفاظ پر اظہارِ افسوس کرتے پائے جا رہے ہیں۔
جناب عمران خان پاکستان اور پاکستان کے محترم اداروں سے ہر گز بلند نہیں ہیں۔ اداروں کے خلاف وہ لب کشائی کریں گے تو ادارے بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ خاموش رہنا بھی نہیں چاہیے کہ ایک شخص کو بے لگام گفتگو کرنے کی اجازت دیے رکھنا دراصل اوروں کو بھی ریاست کے خلاف بے لگام ہونے کی شہ اور ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ خان صاحب کے جلسوں میں خلقت کے اُمنڈ آنے سے انھیں شاید غلط فہمیاں ہو گئی ہیں ۔
یقیناً اسلام آباد، جہلم، سرگودھا ، گجرات ، فیصل آباد ، بہاولپور، چشتیاں اور پشاور میں اُن کے اچھے جلسے ہُوئے ہیں ۔اِس کا مطلب مگر یہ نہیں ہے کہ وہ اداروں پر پِل پڑیں۔ 4ستمبر2022 بروز اتوار فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں ہونے والے جلسے میں خان صاحب کچھ زیادہ ہی غیر محتاط ہو گئے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ الفاظ کہے :’’ نومبر(2022 ) میں نیا آرمی چیف آنے والا ہے ۔
آصف زرداری اور نواز شریف ایسا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں جو اُن کے حق میں بہتر ہو۔ زرداری اور نواز شریف نے پیسے چوری کیے ہیں۔ یہ ڈرتے ہیں کہ تگڑا اور محبِ وطن آرمی چیف آ گیا توان سے پوچھے گا۔ یہ دونوں اس لیے اِدھر بیٹھے ہیں کہ مل کر اپنا آرمی چیف مقرر کریں گے ۔‘‘ اِس توہین آمیز بیان کی بھلا کوئی کیا ترجمہ اور تشریح کرے؟ یہ بیان اپنی زبان میں خوداپنے معنی اور نیت عیاں کررہا ہے۔ سوائے پی ٹی آئی کے، وطنِ عزیز کی سبھی سیاسی جماعتوں، اداروں، سیاستدانوں اورعوام نے خان صاحب کے اِس بیان کی مذمت بھی کی ہے اور اِس پر اظہارِ ناپسندیدگی بھی کیا ہے۔
6ستمبر کے صرف ایک اخبار (روزنامہ ایکسپریس) کے فرنٹ اور بیک صفحات پر خان صاحب کے اِسی بیان کے ردِ عمل میں بیانات بھرے پڑے ہیں۔مثال کے طور پر:افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، نے کہا: ’’عمران خان کا بیان توہین آمیز، فوج میں شدید غم و غصہ ہے ۔‘‘وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا: ’’عمران خان افواجِ پاکستان پر زہریلے الزامات لگا رہے ہیں ۔‘‘اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا: ’’عمران خان کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آرمی چیف محبِ وطن ہے یا نہیں۔‘‘ آصف علی زرداری،بلاول بھٹو زرداری،وفاقی وزیر جاوید لطیف، وزیر دفاع، خواجہ آصف اور نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، نے بھی خان صاحب کے دل آزار بیان کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے ۔
ان مذمتی بیانات کی موجودگی میں صرف اکیلے عمران خان کو کیسے سچا اور درست کہا جا سکتا ہے ؟ کیسے اُن کے بیان کی حمایت کی جا سکتی ہے ؟ بھارتی میڈیا خان صاحب کے مذکورہ بیان کے پیش منظر میں پاکستانی اداروں کے خلاف تالیاں بجا رہا ہے۔ خان صاحب تنہا کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ خان صاحب کے سابق وفاقی وزیر، فواد چوہدری، نے گول مول سا جواب دیا ہے :’’ عمران خان نے تو صرف میرٹ کی بات کی ہے۔‘‘خان صاحب کے 2سابق وفاقی وزرا( شاہ محمود قریشی اور اسد عمر) نے تو صاف ہی کہہ دیا ہے کہ ہم نے عمران خان کا یہ بیان سُنا نہ دیکھا۔ صدرِ مملکت، عارف علوی، نے بھی یہ کہہ کر خان صاحب کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کر دی ہے :’’فوج محبِ وطن ہے۔
عمران خان آرمی چیف بارے اپنے بیان کی خود وضاحت کریں۔‘‘ خان صاحب نے وضاحت نہیں کی۔ وہ اپنے بیان پر ڈٹے ہُوئے ہیں۔ انھوں نے 6ستمبر کو پشاور میں اپنے جلسے میں ایک بار پھر کہا: ’’ مَیں نے آرمی چیف کے میرٹ پر انتخاب کی بات کرکے کونسی غلط بات کہی ہے ؟‘‘ اِس’’مستقل مزاجی‘‘ پر آدمی کیا کہے؟
عمران خان کے اِس سوچے سمجھے بیان پر ملک بھر سے سخت ردِ عمل آیا ہے اور آ رہا ہے ۔ سوائے پی ٹی آئی کے تقریباً ہر شخص، ہر ذمے ادارے، ہر سیاستدان اور ہر سیاسی جماعت نے پی ٹی آئی چیئرمین کے اس دل آزار بیان کی مذمت بھی کی ہے اور ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے ۔
تبصرہ لکھیے