اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا، ہم شروع سے ایسے ہی ہیں جیسے آج، کیونکہ لیاقت علی خان کے قتل، ایوب خان کے ماشل لا، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سلوک پر یہ قوم نہیں نکلی. سقوط ِڈھاکہ ہونے پر بھی اس کا رد عمل سامنے نہیں آیا. بھٹو کی پھانسی، ضیاء الحق کا مارشل لا، آتی جاتی جمہویت، پرویزمشرف کا ڈبل مارشل لا بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا. پھر دہشتگردی کے خلاف اس کو ایک ساتھ کھڑے ہونے میں دس سال سے زائد کا عرصہ لگا. پھر چاہے تھر کے لوگ بھوک پیاس سے مریں، وکی لیکس آجائیں یا پانامہ لیکس، اس قوم میں اُٹھنے کی ہمت و طاقت نہیں ہے.
اگر میڈیا یا کوئی ریاستی ادارہ یہ سمجھ رہا ہے کہ کچھ ہوگا ، کوئی نکلے گا تو یہ ان کی بھول ہے. آئے دن ہم کوئی نہ کوئی سانحہ ہوتا ہے مگر ہر طرف خاموشی ہے. لہذا میرا ماننا یہ ہے کہ اب عوام اور حکمران طبقے کوایک دوسرے کو معاف کرنا چاہیے اور ایک قانونی معاہدہ کرکے تمام پاکستانی سیاسدانوں کو دنیا بھر سے وطن واپس بلا کر عام معافی دی جائے اور اگلے الیکشن میں سب کو موقع دیا جائے چاہے وہ کسی بھی طرز کی سیاست کرتے ہوں، سب کوقومی دھارے میں لا کر ہتھیار کی سیاست ختم کروا دینی چاہیے اور سب کو مل کر پاکستان کا نیا معاشرتی نظام تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، یہی پاکستان کی بقا کا راستہ ہے۔ غداری و کفُر وغیرہ کے الزامات ختم کرنے چاہیے اور دھرنوں، ہڑتالوں، احتجاجوں سے پرہیز کرنا چاہیے. کشمور سے مستونگ اور کراچی سے خیبر تک شاہراہیں بچھا کر امن وسکون بحال کرنا چاہیے.
لکھنے والوں کی تحریریں، سیاستدانوں اور محب ِوطنوں کی تقریریں، اساتذہ کی تعلیمات اب تک تو اس ملک کو کچھ نہیں دے سکے. ایسے کرنے سے شاید کچھ تبدیلی آئے. اس کی بنیاد اس فقرے پر ہو”ایک خدا کی ایک قوم“ . مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان کے حالات تیزی سے بدلیں گے اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکیں گے۔
تبصرہ لکھیے