ہوم << دینی مدارس اور والدین - عقیل شہزاد قریشی

دینی مدارس اور والدین - عقیل شہزاد قریشی

عقیل شہزاد قریشی آج پھر صبح صبح وہی ہو رہا تھا جو پچھلے 3 ماہ سے ہوتا آیا تھا. معمول کے مطابق بچہ مدرسے جانے کو تیار نہ تھا. باپ اسے زبردستی گاڑی میں ڈالتا اور وہ ہاتھ چھڑا کر واپس گھر کی طرف بھاگتا. ذرا سا پیچھا کر کے باپ نے پھر پکڑ لیا، اور اس بار غصہ کچھ زیادہ تھا، چنانچہ تھپڑوں اور لاتوں کا استعمال کیا جارہا تھا اور ساتھ میں ورد جاری تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے. آخر اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا ؟؟ ظاہر ہے کوئی باپ اتنا بے رحم کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ شخص (باپ ) غریب لگتا تھا نہ بچہ ذہنی مریض اور نہ اس کی ماں مرگئی تھی. بالعموم غریب والدین مدراس میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں یا وہ بچے جاتے ہیں جو یتیم یا ذہنی طور پر کمزور ہوں. اس بچے کا حال ذرا مختلف تھا، یہ گھروالوں کو تنگ کرتا تھا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مدرسے میں بھیج دیا جائے، مولوی صاحب اس کو سیدھا کردیں گے.
غریب والدین کے پاس غربت کا علاج اور مسئلے کا آخری حل مدرسہ ہوتا ہے. وسائل کی عدم موجودگی میں بچوں کو اچھے سکول میں پڑھا لکھا نہیں سکتے تو مدرسے کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں تعلیم اور باقی سہولیات مفت ملتی ہیں اور ساتھ ہی خیال بھی ہوتا ہے کہ آخرت بھی سنور جائے گی. یتیم بچوں سے ان کے قریبی عزیز محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو کسی اچھے مدرسے میں بھیجنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور پھر انھیں وہاں بھیج دیا جاتا ہے اور وہی ان کےلیے بہترین گوشہ عافیت ثابت ہوتا ہے.
آج کے دور میں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر اور انجینئر بنے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ میرا بیٹا عالم بنے، حافظ قرآن ہو، اگر لاڈلا ذہین نہ نکلے تو دین کی یاد آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امتحان میں پاس تو ہو گا نہیں، اسے کسی مدرسے میں چھوڑ دو۔ جب عالم بننے کے لیے کمزور ذہن کا انتحاب کیا جائے گا تو عالم نہیں مولوی ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ دین دار والدین اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم پر زور دیتے ہیں. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا اور آخرت کو سمبھتے ہیں اور اپنے بچوں کو مناسب تعلیم فراہم کرتے ہیں. ان کے بچے مولوی نہیں عالم بنتے ہیں جن کی دنیا اور آخرت میں خیر ہی خیر ہے.
حکومت پاکستان مدارس کو اپنی تحویل میں لینے یا ان کی سرپرستی کرنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن یہ وہ خواہش ہے جو شاید کبھی نہ پوری ہو کیونکہ پاکستان میں اتنے مدارس ہیں کہ حکومت دو وقت کی روٹی تو دور ایک وقت کا پانی بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ مدارس کی صرف اصلاح کی جا سکتی ہے، ان میں جدت لائی جا سکتی ہے، باقی مدارس انتظامیہ جانے اور ان کا کام. اور حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے.
آخر میں اس بچے کا ذکر، باپ جسے مار مار کر مدرسے چھوڑ آیا تھا، آج وہ پھر وہاں سے بھاگ آیا ہے اور اس بار اپنے دو ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ بھگا لایا ہے. اس کا جو حال ہوگا وہ تو پتا ہے، ان دو بےچاروں کا بھی اب اللہ ہی حافظ ہے

Comments

Click here to post a comment