ہوم << یہ ہیں ہمارے اصل ہیرو - سعدیہ قریشی

یہ ہیں ہمارے اصل ہیرو - سعدیہ قریشی

یہ انسانیت کے لازوال جذبے سے چھلکتی عزم وہمت کی ناقابل فراموش داستان ہے ۔ کوہ سلیمان میں تمن قیصرانی کی بستیوں میں سیلابی ریلوں نے گھروں کو مٹی گارا کر دیا ،مکین بھوکے پیاسے گھروں کے ملبے پر بیٹھے ریاست کی طرف سے امداد اور مسیحائی کے منتظر تھے۔

سرکار تو کیا خبرگیری کرتی ،رضاکارانہ کام کرتی ہوئی کوئی امدادی ٹیم بھی ان تک نہ پہنچ پائی کہ مسلسل بارشوں اور رودکوہی کے سیلابی ریلوں نے اس طرف آنے جانے کے تمام راستے مسدود کر رکھے تھے۔فون کے نیٹ ورک تبا ہ ہوچکے تھے، سو تمن قیصرانی کے ان دیہاتوں پر بیتنے والی تباہی کی خبر ریٹنگ کی دوڑ میں شامل کسی ٹی وی چینل تک نہ پہنچی اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے ہوئے غریب دیہاتیوں پر بھوک کے بادل منڈلا رہے تھے بھوک پیاس سے نڈھال مصیبت زدوں پر ایک ایک لمحہ بھاری پڑنے لگا۔

بالآخر بستی کے ایک شخص کو تونسہ شہر کی طرف روانہ گیا کہ کسی امدادی ٹیم سے رابطہ کرے۔ وہ کوہ سلیمان کے علاقے تمن قیصرانی سے رودکوہیوں کے بپھرے بہاؤ سے گزرتا ہوا 10 گھنٹے پیدل چلتا ہوا تونسہ کے ایک ایسے نوجوان کے پاس پہنچا جسے تونسہ والے مسیحا کا درجہ دے رہے تھے اس نے وہاں کوہ سلیمان پر واقع دیہاتیوں پر بیتنے والی تباہی کی داستان سنائی۔اس نوجوان کا نام عادل مراد ہے۔یہ کہانی عادل مراد کی زبانی سنیے کہ وہ کن مشکلات سے گزرتے ہوئے ہوئے کوہ سلیمان کے پار تباہ شدہ بستیوں کے بھوکے پیاسے باسیوں تک پہنچے۔ "

ہم نے اپنا سفر بھاٹی قیصرانی کے علاقے سے دن ایک بجے شروع کیا ڈیڑھ سو رضاکاروں کا ایک قافلہ 30سے 40 کلو راشن کے تھیلے کندھوں پر اٹھا کر تمن قیصرانی کی طرف روانہ ہوا۔بارش ابھی بھی نہیں رکی تھی اور سیلابی پانی سے راستے دریا بنے ہوئے تھے۔ راستہ بہت خطرناک تھا دونوں طرف پہاڑ تھے جہاں بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ لینڈ سلائڈنگ ہورہی تھی۔ خطرناک سانپ بھی ان پانیوں میں تیررہے تھے ،تین چار سانپ ہم نے خود مارے ان حالات میں 10 گھنٹے کا طویل سفر سیلابی ریلوں کے درمیان پیدل طے کیا۔ جو بھاٹی قیصرانی سے تقریبا بیس کلو میٹر سفر بنتا ہے۔ ایک کھٹن مرحلے پر ہمارے رضاکاروں کو راشن کے بھاری تھیلے کندھوں پر اٹھائے ہوئے سیدھے پہاڑ وں پر چڑھنا پڑا۔

لگتا تھا موت ہمارے سامنے کھڑی ہے کیونکہ ہم کسی بھی لمحے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آسکتے تھے۔ اللہ کے فضل سے یہ سفر طے ہوا اور دن ایک بجے کے چلے ہوئے ہم رات کے بارہ بجے بھوکے پیاسے دیہاتیوں تک پہنچے۔ ان کی خوشی کا عالم ناقابل فراموش تھے۔ وہاں تین سو گھر تھے لیکن ہم دوسو گھروں کا راشن لے کر گئے تھے جو ہم نے نئے سرے سے تین سو گھروں میں تقسیم کیا۔بھوک سے نڈھال بچے ہم سے ایسے لپٹ گئے یہاں تک کہ ہم جو اپنے کھانے کا سامان لے کر گئے تھے وہ بھی ہم نے ان میں تقسیم کر دیا۔ہمارے لئے واپسی کا سفر خاصا مشکل تھا کیونکہ ہم نے خود کچھ خاص نہیں کھایا ہوا تھا راستے میں سیبوں کی پیٹی ملی توہم نے سیب کھا کر گزارا کیا۔

عادل مراد نے خاص طور پر اپنے ان ساتھیوں کا ذکر کیا۔ یاسر قیصرانی ،فیصل قیصرانی ،راشد قیصرانی ،عدنان قیصرانی اور عبدالمتین وہ جانثار ہیں جو کھٹن امدادی سرگرمیوں میں اپنی مصیبت زدوں کے لیے ڈھارس کا سامان کر رہے ہیں۔نون لیگ اور پی ٹی آئی کے تمام حاضر اور سابق ایم پی اے ایم این ایز کا رویہ سیلاب متاثرین کے ساتھ بہت شرمناک رہا ہے۔عثمان بزدار نے تین کروڑ کا سامان تونسہ کے کالج میں ذخیرہ کیااور پھر اپنے ہی لوگوں سے تالے توڑ کر ان میں تقسیم کروایا۔ نون لیگ کے سابق ایم پی اے میر بادشاہ قیصرانی نے ہمارے راشن تقسیم کی تصویروں سوشل میڈیا پر شئیر کر کے جھوٹی تعریفیں بٹوریں اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عادل مراد نے بتایا کہ اگلا مرحلہ سیلاب متاثرین کے مکان بنانے کا ہے ہم نے متاثرین کا سروے شروع کردیا ہے ،پہلے مرحلے میں ہم بیوائوں اور معذور افراد کے لیے گھر بنائیں گے۔اس کار خیر میں جو حصہ ڈالنا چاہیں وہ اس ای میل پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

adilmurad425@gmail.com۔عادل مراد اپنے جیسے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر گزشتہ ایک مہینے سے سیلاب متاثرین کی امداد کا کام کر رہے ہیں۔راشن سے لے کر۔مفت میڈیکل کیمپ لگانے تک وہ ہمہ وقت مصروف عمل ہیں ۔عادل مراد کی اپنی زندگی کی کہانی بھی نوجوانوں کے لیے بہت انسپریشنل ہے۔ عادل مراد کا تعلق تونسہ شریف کے گاؤں کوٹ قیصرانی کے غریب گھرانے سے ہے۔ 25000کی نوکری چھوڑ کر کر عادل مراد نے فری لانسنگ کے دنیا میں قدم رکھا اور فائور کے ٹاپ ریٹڈ فری لانسر بنے۔ وہ اپنی زندگی کے معاشی مسائل سے نکلے تو دوسرے نوجوانوں کو بھی فری لانسنگ کی ٹریننگ دینے کا ارادہ کیا۔

پیڈ کورسز کے ساتھ یوٹیوب پر مفت ٹریننگ کورسز شروع کیے اور ہزاروں نوجوانوں کو فری لانسنگ کی ٹریننگ دے کر غربت کی دلدل سے نکال رہے ہیں ۔پاکستان کے سب سے پہلے ممتاز سوشل میڈیا گرو ریحا ن اللہ والا عادل مراد کے اس جذبے اور کوششوں کے قدردان ہیں اور انہیں اپنے پلیٹ فارم سے سپورٹ کرتے ہیں۔تونسہ کی پسماندہ بستی کوٹ قیصرانی کا یہ نوجوان عادل مراد جس نے بطور ایک ڈیجیٹل ٹرینر کے بھی معاشرے میں نوجوانوں کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنا مثبت رول ادا کیا اور جب لوگوں پر مصیبت پڑی تو وہ اپنی دھرتی کے مصیبت زدوں کے لیے ایک مسیحا بن گیا۔

کوئی اور ملک ہوتا تو ایسے جی دار ایثار کیش نوجوان کو سرکاری اعزازات دئیے جاتے انہیں گارڈ آف آنر پیش جاتا ان کا تذکرہ کتابوں میں ہوتا جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کوہ سلیمان کے تین سو گھرانوں کو اس وقت بھوک سے بچایا جب ان کوئی پرسان حال نہ تھا۔ یہ ہیں ہمارے اصل ہیرو کاش سرکار بھی ان کی اس عظیم ایثار کیشی کی پذیرائی کرے۔

Comments

Click here to post a comment