ہوم << منگول قدم ہندوستان میں - فہد کیہر

منگول قدم ہندوستان میں - فہد کیہر

منگولوں کا خطرناک ترین ہتھیار، شہ سوار تیر انداز

چنگیز خان نومبر 1221ء میں دریائے سندھ کے کنارے سے نامراد لوٹا اور پھر کبھی ہندوستان میں قدم نہیں رکھے۔ یہ تاریخ کے بڑے رازوں میں سے ایک ہے کہ آخر چنگیز نے ہندوستان پر دوبارہ حملہ کیوں نہیں کیا؟

بہرحال، چنگیز کے بعد بالآخر منگول اتحاد پارہ پارہ ہوا اور چار آزاد منگول ریاستیں بن گئیں: چین میں یوآن خاندان حکمران ہوا، شمال اور مغرب میں آلتن اوردہ یعنی سنہری لشکر کی حکومت قائم ہوئی، جنہیں خانانِ قپچاق بھی کہتے ہیں، جنوب مغرب میں ایل خانی سلطنت اور اِن سب کے درمیان میں خانانِ چغتائی کی حکومت تھی۔

چنگیز خان کی عظیم منگول ریاست بعد میں چار ریاستوں میں تقسیم ہوئی

یوآن خاندان کے پاس تاخت و تاراج کرنے کے لیے پورا جنوب مشرقی ایشیا تھا ۔ خانانِ قپچاق نے یورپ کا رُخ کیا اور وسطِ ایشیا سے مشرقی یورپ تک کے علاقوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ایل خانیوں نے مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا سیلاب برپا کیا۔ لیکن چغتائی کیا کرتے؟ کیا اپنے چاروں طرف موجود منگول حکومتوں سے ہی لڑتے رہتے؟ اُن پاس آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ تھا: ہندوستان! جہاں اُس وقت خاندانِ غلاماں کی حکومت تھی۔

منگول پیش قدمی اور خاندانِ غلاماں

رضیہ سلطانہ کی موت کے بعد آنے والے بادشاہوں بہرام شاہ، علا الدین مسعود اور ناصر الدین محمود، سب کے ادوار میں پنجاب منگولوں کی کار روائیوں کا مرکز بنا رہا۔ یہاں تک کہ کشمیر، لاہور اور ملتان تک اُن کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ حالات تب بدلے جب 1266ء میں غیاث الدین بلبن تختِ دلّی پر بیٹھا۔ اس نے آتے ہی چند بہت اہم فیصلے لیے، مثلاً 40 افراد پر مشتمل کمیٹی تُرکانِ چہل گانی کا خاتمہ کر دیا جو اس نازک صورت حال میں بھی "کنگ میکر" بننے کی کوششیں کر رہے تھے اور پھر بلبن نے 20 سال تک بلا شرکتِ غیرے حکومت کی۔

بلبن کے دور میں ہندوستان وہ طاقت بنا جو منگولوں کو ٹکر دے سکتی تھی۔ اس نے منگولوں کے حوالے سے گزشتہ حکمرانوں کی پالیسی کو ترک کیا اور انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں غیاث الدین نے لاہور منگولوں سے واپس چھین لیا۔ اس سے منگول خطرہ بجائے گھٹنے کے مزید بڑھ گیا۔ اب صرف چغتائی ہی نہیں بلکہ ایل خانی منگول بھی ہندوستان کی جانب بڑھنے لگے تھے۔ 1285ء میں منگولوں کے خلاف دریائے بیاس کا معرکہ ہوا جس میں منگول پیش قدمی تو روک دی گئی، لیکن بلبن کا عزیز بیٹا شہزادہ محمد خان مارا گیا، جس کا اسے اتنا غم تھا کہ دو سال میں خود بھی چل بسا۔

غیاث الدین بلبن کی قبر پر کندہ آیات اور تفصیلات

یوں خاندانِ غلاماں کی حکومت کا عملاً خاتمہ ہو گیا کیونکہ اگلا حکمران معز الدین کیقباد بہت کمزور ثابت ہوا۔ بالآخر 1290ء میں اُس کے اہم جرنیل جلال الدین فیروز خلجی نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ یوں خلجی خاندان کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔

خلجی دور، منگولوں کی پے در پے شکست کا عہد

گو کہ جلال الدین خلجی کی عمر اُس وقت بھی 70 سال تھی لیکن اس کی فوجی صلاحیتیں قابلِ رشک تھیں۔ اس کے دور میں 1292ء میں ہلاکو خان کے پوتے عبد اللہ کی زیر قیادت ہندوستان پر ایک بڑا حملہ ہوا۔ دریائے سندھ کے کنارے ایک مقام پر دونوں افواج آمنے سامنے آئیں، کچھ جھڑپیں ہوئیں بھی۔ لیکن ابتدائی حملوں میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد بالآخر صلح ہو گئی اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ اسے جلال الدین کی ایک بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسے 'معرکہ بر رام' کہلاتا ہے۔

جلال الدین خلجی کے خلاف 1296ء میں اس کے اپنے بھتیجے اور داماد علا الدین خلجی نے بغاوت کر دی اور بالآخر اسے قتل کر کے خود تخت پر بیٹھ گیا۔ علا الدین بہت سخت حکمران تھا، جس نے 22 سال ہندوستان پر راج کیا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، تو منگولوں جیسے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہندوستان پر علا الدین جیسے جابر حکمران ہی کی ضرورت تھی۔

خلجی خاندان کی حکومت۔ فتوحات اور منگول لشکروں کی آمد کے راستے

افسانوی حیثیت رکھنے والا سالار ظفر خان

علا الدین خلجی جیسے زبردست جرنیل بادشاہ کے دور میں ہندوستانیوں نے ایک نہیں بلکہ کئی بار منگولوں کو شکست دی۔ اسے تخت پر بیٹھے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ چغتائی حکمران دووا تیمور خان کے حکم پر ایک بہت بڑا لشکر ہندوستان میں داخل ہو گیا۔ علا الدین نے سالار بدر الدین ظفر خان اور اپنے بھائی اُلغ خان کو اُن کے مقابلے کے لیے بھیجا، جنہوں نے جالندھر کے قریب منگولوں کو ایک تاریخی شکست سے ہمکنار کیا۔ اسی ظفر خان نے بعد ازاں 1299ء میں سندھ میں بھی منگولوں کو ہرایا اور یوں ایک افسانوی کردار بن گیا۔

ان دو شاندار فتوحات نے جہاں ظفر خان کی شہرت میں بہت اضافہ کیا، وہیں اس کے حاسدوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ خود علا الدین کا بھائی اُلغ خان بھی ان میں شامل تھا۔ مؤرخین کے مطابق ظفر اب علا الدین کی نظروں میں بھی کھٹک رہا تھا، کیونکہ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ملوکیت کے اس نظام میں ہر مقبول شخص بادشاہ کے لیے براہِ راست خطرہ ہوتا ہے۔

علا الدین خلجی کا لشکر ایک مصور کی نظر سے

ہدف پر دلّی

منگول لشکر پیش قدمی کرتے ہوئے

بہرحال، سندھ سے منگولوں کو نکالا ہی تھا کہ اُسی سال یعنی 1299ء میں چغتائی خان دووا تیمور کا بیٹا قتلغ خواجہ ایک بہت عظیم لشکر لے کر ہندوستان کی جانب بڑھا۔ اس بار منگولوں کا ہدف نہ سرحدی علاقوں میں لوٹ مار تھا اور نہ ہی پنجاب و سندھ کے زرخیز میدانی علاقے، بلکہ اب تو وہ تختِ دلّی پر قبضہ کرنے آئے تھے۔ راستے میں انہیں کئی جگہ پر چھاپہ مار کار روائیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اپنی روایت سے بالکل ہٹ کر منگولوں نے کسی سے چھیڑ خانی نہیں کی بلکہ تیر کی طرح سیدھا دلّی پہنچے کیونکہ وہ اپنا وقت اور قوت اِدھر اُدھر ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ راستے میں پنجاب میں ظفر خان نے قتلغ خواجہ سے جنگ کی کوشش بھی کی لیکن اُس نے ایک ہی جواب دیا "بادشاہ صرف بادشاہوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔"

جب اس لشکر جرّار کی آمد کی اطلاع پہنچی تو خوف کے عالم میں دلّی کے ارد گرد سے ہزاروں افراد نے دار الحکومت کا رخ کیا۔ شہر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

یہاں وزرا نے علا الدین خلجی کو مشورہ دیا کہ اتنے بڑے لشکر سے براہِ راست جنگ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ یوں دشمن کی توانائیاں محاصرے ہی میں ضائع ہو جائیں گی اور وہ بالآخر زچ ہو کر چلا جائے گا۔

لیکن علا الدین منگولوں جیسا شاطر دماغ رکھتا تھا، اسے پورا اندازہ تھا کہ اس فتنے کا خاتمہ صرف ایک ہی طریقے سے ممکن ہے۔ اپنے وزرا کے سامنے اعلان کیا کہ اگر ہماری منگولوں سے دشمنی ہے تو اُن سے لڑائی سے گریز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے جنگ ہوگی اور میدان میں ہوگی۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment