ہوم << جلال الدین خوارزم شاہ، اک بزدل باپ کا بہادر بیٹا - فہد کیہر

جلال الدین خوارزم شاہ، اک بزدل باپ کا بہادر بیٹا - فہد کیہر

ترکی اور ازبکستان کی مشترکہ سیریز میں جلال الدین خوارزم شاہ کا کردار

تاریخ کا مطالعہ کرنے والے بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ منگولوں کو پہلی شکست 1260ء میں فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر ہوئی تھی۔ جہاں مشہور مملوک جرنیلوں سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس نے منگولوں کو شکست کا مزا چکھایا تھا۔ لیکن درحقیقت یہ کارنامہ اِس سے کہیں پہلے ستمبر 1221ء میں جلال الدین خوارزم کی افواج انجام دے چکی تھیں۔

یہ تاریخی جنگ 'معرکہ پروان' کہلاتی ہے جو موجودہ کابل کے قریب لڑی گئی تھی۔ جلال الدین بذاتِ خود بھی بہت بہادری سے لڑا اور ایک غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ تھی منگولوں کی پہلی شکست، جس کے ساتھ ہی یہ تاثر تو ختم ہو گیا کہ وہ ناقابلِ شکست ہیں۔

یہ موقع تھا ایک فیصلہ کُن لڑائی کا، لیکن عین اسی موقع پر جلال الدین خوارزم شاہ کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جھگڑا مالِ غنیمت کی تقسیم پر شروع ہوا تھا اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گیا کہ فوج کے افغان دستے الگ ہو گئے اور سلطان کے پاس آدھی سے بھی کم فوج رہ گئی۔ اس صورت حال میں بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ اب تعاقب میں کوئی اور نہیں خود چنگیز خان تھا، بنفسِ نفیس!

چنگیز خان کا ایک مجسمہ

ایک عظیم فرار

یہاں سے وہ Great Escape یعنی عظیم فرار شروع ہوتا ہے جس کا اختتام بالآخر دریائے سندھ کے کنارے پر ہوا۔ 24 نومبر 1221ء کو اٹک کے قریب نیلاب کے مقام پر ایک خونریز معرکہ ہوا۔ جلال الدین یہاں بھی بڑی بہادری اور دلیری سے لڑا، لیکن منگولوں کی عددی برتری انہیں کامیابی کے بہت قریب لے آئی۔ یہاں جلال الدین نے وہ فیصلہ کیا جس نے چنگیز خان کو بھی حیران کر دیا۔

دراصل اس جنگ کا مقصد ایک ہی تھا جلال الدین خوارزم شاہ کو پکڑنا۔ اس ہدف کو دیکھتے ہوئے جلال الدین نے ایک عجیب فیصلہ لیا، اپنے گھوڑے سمیت دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ دوسرے کنارے پر پہنچ بھی گیا۔ یہ مقام آج بھی گھوڑا ترپ کہلاتا ہے، یعنی وہ جگہ جہاں سے گھوڑے نے چھلانگ لگائی۔

یوں جلال الدین چنگیز خان کے ہاتھوں میں آتے آتے نکل گیا۔ خود چنگیز کا درباری مؤرخ ملک جوینی "تاریخ جہاں کشا" میں لکھتا ہے کہ تب چنگیز نے اپنے دو بیٹوں سے مخاطب ہو کر جلال الدین کی طرف اشارہ کیا اور کہا "بیٹا ہو تو ایسا!"

اب جلال الدین اور چنگیز خان کے درمیان دریائے سندھ حائل تھا، جسے عبور کرنے کی ہمت کسی چنگیزی میں نہیں تھی۔ ایک کنارے پر چنگیزی فوج تھی اور دوسری جانب تنہا سلطان، جس کا حوصلہ توڑنے کے لیے چنگیز نے اس کے تمام اہلِ خانہ کو دریا کنارے قتل کروایا، عورتوں، بچوں سب کو ۔

سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا دریائے سندھ عبور کرنا، ایک مصور کی نظر سے

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے

یوں جس تعاقب کا آغاز دریائے آمو سے ہوا تھا، بالآخر دریائے سندھ پر ختم ہو گیا۔ اب جلال الدین خوارزم شاہ کے قدم ہندوستان میں تھے۔ یہاں سلطانِ دلّی شمس الدین التتمش کی حکومت تھی۔ ایک جہاندیدہ حکمران، جسے بخوبی اندازہ تھا کہ جلال الدین کی آمد کے ساتھ کن خطرات نے ہندوستان کا رخ کر لیا ہے۔ اس لیے جلال الدین کی تمام تر کوشش کے باوجود التتمش نے اُس سے اتحاد نہیں کیا۔

جلال الدین تقریباً تین سال تک پنجاب اور سندھ میں مقیم رہا، اپنے پیچھے آنے والے ساتھیوں کی مدد سے کئی مقامی راجاؤں پر فتوحات پائیں۔ منگول اس کے تعاقب میں ملتان تک آئے بھی لیکن 40 دن سے زیادہ شہر کا محاصرہ نہیں کر پائے۔ ضرور گرمیوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔

خیر، جلال الدین دریائے سندھ کے کنارے ملتان سے دیبل تک ایک حکومت بنا چکا تھا، چاہتا تو اطمینان سے راج کر سکتا تھا لیکن وہ تو اس سے کہیں بڑی ریاست کا حکمران تھا، کم از کم اُس زمانے کے رائج قوانین کے مطابق تو اسلامی دنیا کی سب سے بڑی حکومت کا جائز اور حقیقی جانشیں تھا ہی۔

جلال الدین خوارزم شاہ کا ایک مجسمہ

ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر کر کے بالآخر 1224ء میں جلال الدین ایران کے شہر اصفہان پہنچ گیا۔ وہ خوش قسمت شہر، جو اب تک منگولوں کی دست بُرد سے محفوظ تھا۔ جلال الدین نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے شہر پر حکومت حاصل کی اور پھر بغداد سے رابطہ کیا، جہاں اب بھی اسی خلیفہ ناصر الدین اللہ کی حکومت تھی۔ اس نے جلال الدین کے مطالبات پر کان ہی نہیں دھرے۔ بلکہ الٹا اُن پر جنگ مسلط کر دی، وہ الگ بات کہ بُری طرح شکست بھی کھائی اور خوارزم شاہ کے خلاف یہی کدورت لیے اگلے سال مر بھی گیا۔

سلطان جلال الدین نے دیگر مسلم حکمرانوں سے مدد طلب کی کہ آؤ، اس مشترکہ دشمن یعنی منگولوں کے خلاف مل کر لڑیں لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ دراصل خوارزم شاہی سلطنت کی شہرت آس پڑوس میں اچھی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی حکومت سلجوقوں، قراخانیوں، غوریوں اور غزنویوں بلکہ سب سے لڑ کر بنائی تھی۔ وہ تو عباسی خلافت کے بھی درپے تھے۔ اس لیے جب ان پر بُرا وقت آیا تو کسی نے مدد کو ہاتھ نہیں بڑھایا۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ اگر جلال الدین کامیاب ہو جاتا تو وہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا حکمران بن جاتا، جو شاید ایک مرتبہ پھر اپنی تمام پڑوسی ریاستوں کے لیے خطرہ بن جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ سلاجقہ روم کے علا الدین کیقباد کے سوا کسی نے حوصلہ افزا جواب نہیں دیا۔

جلال الدین کی پُر اسرار موت

تب جلال الدین تقریباً 7 سال وسطی و شمالی ایران میں مسیحی، باطنی عناصر اور اپنے مخالفین کے خلاف جدوجہد کرتا رہا اور بالآخر 1231ء میں منگولوں کے ایک شب خون میں شکست کھائی۔ اُس دن کے بعد اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

مسلم تاریخ کے اِس افسانوی کردار کی موت پر بھی اسرار کے کئی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ چند مؤرخین کہتے ہیں کہ جلال الدین منگولوں کے خلاف میدان ہی میں شہید ہو گیا۔ کچھ کہتے ہیں میدان سے فرار کے بعد اس نے کُرد پہاڑی علاقوں کا رخ کیا، جہاں ایک دیہاتی نے لباس اور جواہر کے لالچ میں سوتے ہوئے قتل کر دیا۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ جلال الدین نے ایک صوفی درویش کا رُوپ دھار لیا تھا اور اپنی باقی زندگی زاہدوں کی طرح گزاری۔ بہرحال، آخری جنگ کے وقت اس کی عمر محض 31 سال تھی. یوں منگولوں کے خلاف مزاحمت کی علامت کا خاتمہ ہو گیا اور اب مسلم دنیا میں انہیں روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ 1258ء میں سقوطِ بغداد بھی ہو گیا، وہ شہر سے منگولوں کو خوارزم شاہ پر حملے کی دعوت دی گئی تھی، اس بُری طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ دوبارہ کبھی پرانی شان و شوکت حاصل نہ کر سکا۔

جلال الدین خوارزم شاہ کا اصل کارنامہ

منگول سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں

جلال الدین کا اصل کارنامہ کیا ہے؟ کیا محض منگولوں سے فرار کو ایک کامیابی قرار دینا چاہیے؟ ہر گز نہیں۔

لیکن اُس زمانے میں جب کوئی منگول طاقت کے سامنے کھڑا نہیں ہوا، جلال الدین وہ واحد شخص تھا جس نے منگول طوفان کا مقابلہ کیا، انہیں شکستیں بھی دیں، خود بھی ہارا لیکن منگولوں کی توجہ کسی اور جانب نہیں ہونے دی۔ چنگیز خان تو 1227ء میں جلال الدین کو پکڑنے کا ارمان دل میں لیے ہی مر گیا، لیکن جلال الدین 1231ء تک منگولوں کے سینے پر مونگ دلتا رہا۔ اگر وہ اپنے باپ کی طرح بھگوڑا ہوتا تو کبھی سندھ سے دوبارہ اُن علاقوں کا رخ نہ کرتا اور منگولوں کو نہ للکارتا۔

پھر مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ جلال الدین کے تعاقب کی وجہ سے منگولوں نے اپنی بڑی قوت اور صلاحیت یہیں گنوا دی۔ اُن کے قدم جس تیزی سے وسطِ ایشیا میں بڑھے تھے، اتنی رفتار سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کئی سالوں تک منگول یلغار سے محفوظ رہی اور سب سے بڑے کر حجازِ مقدس۔ اگر منگول یلغار کی پہلی لہر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہتی تو عین ممکن تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ کی طرف بڑھنے کی جسارت بھی کرتے۔

خوارزمی، فاتح بیت المقدس

سلطان جلال الدین کے ساتھ خوارزمی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ جو ساتھی بچ گئے وہ اصفہان، پھر سلاجقہ روم کے علاقوں میں اور پھر آزاد حیثیت میں عرصے تک خطے میں موجود رہے، یہاں تک کہ سلطان الصالح ایوب نے انہیں اپنی فوج میں شامل کر لیا۔ یہاں انہوں نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ 1244ء میں بیت المقدس فتح کر لیا جو چھٹی صلیبی جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر مسیحی قبضے میں چلا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہی الصالح ایوب تھا جو ملکہ شجر الدر کا شوہر تھا، وہی کہ جس نے بعد ازاں مصر میں مملوک سلطنت کی بنیاد رکھی۔

جلال الدین خوارزم شاہ کی زندگی پر بنائی گئی ترکی اور ازبکستان کی مشترکہ سیریز کا پوسٹر

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment