ہوم << جوانوں کو پیروں کا استاد کر- سعدیہ قریشی

جوانوں کو پیروں کا استاد کر- سعدیہ قریشی

امید کے دیے جلاتے یہ منظر ہم نے سوشل میڈیا کے آئینے سے دیکھے کہ دور دراز شہروں کے نوجوان کس جذبہ انسانیت سے اپنے ہم وطنوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ عادل مراد طیب قیصرانی ، شاہنواز مشوری عثمان کریم بھٹہ اوروہ تمام نوجوان جن کے مجھے نام نہیں آتے یہ سب ہمارے اصل ہیروز ہیں۔

میری مختصر بات چیت عثمان کریم بھٹہ سے ہوئی۔عثمان کریم بھٹہ فاضل پور ضلع راجن پور کے رہائشی ہیں پیشے کے اعتبار سے ایڈووکیٹ ہیں۔ اس وقت تندہی سے اپنے علاقے کے سیلاب زدہ مصیبت زدگان کی مدد میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں ضلع راجن پور کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے سوجھل دھرتی واس کے نام سے ضلع راجن پور کے پڑھے نوجوانوں پر مشتمل تنظیم بنائی جس میں ڈاکٹر انجینئر ز وکیل شامل تھے ۔بنیادی طور پر یہ ادبی اور ثقافتی تنظیم تھی۔ عثمان کریم بھٹہ اس تنظیم کے صدر ہیں۔ جبکہ انجنئیر شاہنواز مشوری اس کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے اپنے جیسے دوسرے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متحرک کیا اور صحیح معنوں میں ایک لیڈر کا کردار ادا کیا ۔ عثمان کریم نے بتایا کہ اول اول ہم نے امدادی کام اپنی جیب سے شروع کیا یہا ں اس قدر تباہی تھی۔

سرکار کی طرف سے صرف 1122 ناکافی وسائل کے ساتھ امدادی کام رہی تھی۔ یہاں پی ٹی آئی کا زور ہے۔تحریک انصاف کے ایم این اے نصر اللہ دریشک۔ جعفر لغاری۔ ریاض مزاری جو یہاں کے ووٹوں سے اسمبلیوں تک پہنچے منظر سے غائب تھے ۔صرف فوٹو سیشن کی حد تک انہوں نے متاثرین سیلاب سے ہمدرد جتائی ۔دوسری طرف تباہی اتنی تھی کہ سینکڑوں دیہات ملیامیٹ ہو گئے۔ لوگ بے گھر ہو کر سڑکوں پر پڑے تھے بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔مائیں اپنے بچوں کو لے کر کھلے آسمان تلے کسی مدد کی منتظر تھیں بچے دودھ اور بھوک سے بلک رہے تھے بزرگ نوجوان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں۔سرکار کی طرف سے متاثرہ کے کھانے یا ان جو خیموں میں پناہ دینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔اس صورت حال میں ہم میدان عمل میں کود پڑے۔ آغاز ہم نے اپنے پیسوں سے مدد کا آغاز کیا ہم جو بھی کام کرتے اس کی ویڈیوز بنا کر ہم نے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دی اس دوران ہم نے کسی سے کوئی ایک روپیہ نہیں مانگا لیکن اللہ کی طرف سے مدد ہونا شروع ہوئی۔

لوگوں کو ہمارے جذبے کی سچائی پہنچی تو لوگوں نے خود ہم سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ ہم فاضل پور لعل گڑھ اور راجن پور کے علاقے میں امدادی کام کرہے ہیں۔عثمان کریم نے بتایا کہ فاضل پور کو انڈس ہائی وے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہیں جس کا مشرقی حصہ اس وقت محفوظ ہے لیکن بجلی اور پانی نہیں ہے جبکہ مغربی حصہ پوری طرح پانی میں ڈوب چکا ہے ان علاقوں میں امدادی کارروائیاں کرنا بہت مشکل ہے۔پانی میں ڈوبے ہوئے علاقوں تک پکے پکائے کھانے پہنچانے کے لیے ہمیں کشتیوں پرجانا پڑتا یہاں تک کہ گھروں کی چھتوں پر محصور کتوں کو بھی ہم کھانا پہنچا رہے ہیں۔ ہماری تنظیم سوجھل دھرتی واس اس وقت روزانہ کی بنیاد اسی دیگیں چاول ستر دیگیں دال اور بیس پچیس دیگیں سبزی کی پکا کر متاثرین تک پہنچا رہی ہے۔ کھانا پکانے کا سامان ملتان اور ڈی جی خان سے لایا جاتا ہے جو کہ اپنی جگہ ایک مشکل کام ہے۔متاثرین میں قسم قسم کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں اس کیلئے ہم میڈیکل کیمپ بھی لگا رہے ہیں اور دوائیں تقسیم کر رہے ہیں۔

ہم نے عہد کیا کہ اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے" یہ صرف ایک نوجوان کا تذکرہ ہے ایسے بیسیوں نوجوان میدان عمل میں ہیں جن کا ذکر کالموں میں ہوتا رہے گا۔ ایک طرف سیاستدانوں کی بے حسی سے تعفن اٹھتا ہے۔ تو دوسری طرف عام پاکستانی نوجوانوں کی مصیبت میں پھنسے اپنے ہم وطنوں کے لیے ایثار اور قربانی کی روح گرما دینے والے مناظر دیکھ کر بے حسی کی اس تعفن زدہ تاریکی۔میں امید کے چراغ جلتے ہیں۔ لوگ روایتی سیاست دانوں کی سیاست گری سے بیزار ہیں۔ انہیں اپنے مسائل سے اس طرح لاتعلق دیکھ کر لوگ سیاستدانوں کے چہروں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔جبکہ مصیبت کی گھڑی میں ان کی مدد کو آگے بڑھتے ہوئے نوجوان ان کو اپنے مسیحا دکھائی دیتے ہیں۔

خاص طور پر جنوبی پنجاب کے شہروں تونسہ فاضل پور راجن پور اور ڈی جی خان میں نوجوانوں کو امدادی کارروائیوں میں منہمک دیکھ کر دل امید اور شکرانے سے بھر جاتا ہے۔دلدلی پانیوں میں اتر کے ڈوبتے ہوؤں کو بچانا کشتیوں میں دور دراز کھانا پہنچانا۔قدرتی آفات میں کسی قسم کی باقاعدہ تربیت کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنا موت اور بیماری کو اپنے سامنے دیکھنا آسان نہیں شب وروز کی محنت سے ان نوجوانوں کے جسم تھکے ہوئے اور دل بوجھل ہیں لیکن ان کے جذبے جوان ہیں۔

گاہے لگتا ہے جیسے حکیم الامت علامہ اقبال کی دعا قبول ہوگئی ہو:

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

جوانوں کو سوز جگر بخش دے

مرا عشق میری نظر بخش دے

مرے دیدہء تر کی بے خوابیاں

مرے دل کی پوشیدہ بے تابیا

ںیہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

میرے قافلے میں لٹا دے اسے

لٹادے ٹھکانے لگا دے اسے

ان نوجوانوں کے جذبوں کو سلام جنہوں اپنے دل جلا کر ناامیدی کی تاریکی میں روشنی کا اہتمام کیا۔ اس روشنی میں بڑے بڑے سیاستدانوں کے چہرے اپنی پتھریلی بے حسی کیساتھ بھیانک دکھائی دیتے ہیں:

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

Comments

Click here to post a comment