ہوم << جن کی آنکھوں میں آنسو ہوں - سعد الله شاہ

جن کی آنکھوں میں آنسو ہوں - سعد الله شاہ

کیا علاقہ ہے انہیں گہر و الماس کے ساتھ ذہن و دل میں جو اتر جاتے ہیں احساس کے ساتھ ظاہر ہے اس وقت سب سے اہم معاملہ سیلاب زدگان کا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس آفت کی یلغار کو کیسے روکا جائے۔ جب بھی ہمیں کوئی ایسا سانحہ جگاتا ہے تو ہم آئندہ کے خواب بن کر پھر سو جاتے ہیں.

یعنی اتنے سالوں میں کبھی نہیں سوچا کہ پیش بندی کیسے کی جائے اور اس بے رنگ پانی کو کہیں سٹور کرنے کا سوچا جائے۔ اب جو صاحب فرما رہے ہیں کہ اگر ڈیم بنتے اتنی تباہی نہ ہوتی کوئی پوچھنے والا پوچھے کہ آپ کے اپنے سنہرے عہد میں آپ کو کس نے اس کام سے روکا تھا قومی فکر کا سخت فقدان ہے: میں ادھیڑا کروں جلد اپنی کریدا کروں زخم اس نے ناخن بھی جڑے کیسے مرے ماس کیساتھ وہی کہ آفتیں آنی ہوں ٹوٹنا ستاروں کا ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے بہرحال قوموں پر آزمائش آتی ہے اور ہم پر بھی 2005ء کے زلزلے کے بعد یہ سب سے بڑی آزمائش ہے۔ بے چارے غریب لوگوں کے مال مویشی سب کچھ بہہ گئے جیسے قسمت کی سلیٹ صاف ہو جائے۔ سوات کے مناظر دیکھے نہیں جاتے کہ پانی کے ریلے کے سامنے دیو ہیکل عمارتیں بھی خس و خاشاک ثابت ہوئیں کوئی کہتا ہے کہ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دیں جواب میں کسی نے خوب کہا کہ اپنے اندر اذان دیں اپنے آپ کو بدلیں۔

کیا شک ہے کہ اپنے عمال میں ایسے ہیں آپ ایک کلو خالص دودھ حاصل نہیں کر سکتے زندگی بچانے والی دوائوں میں ملاوٹ ۔ چلیے یہ تو قدرتی آفت ہے کہ جس نے ہزاروں گھر ڈھا دیے اور لوگوں کو بے گھر کر دیا مگر جو لوگ اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں ان کے ساتھ حکومت وقت نے کیا کیا !آپ یقین مانیے کہ میں نے گوالے کے ڈیرے پر دودھ لینے والوںکو بددعائیں دیتے سنا اصل میں یہی پبلک پوائنٹس ہیں جہاں معلوم ہو سکتا ہے کہ کہتی ہے تجھ سے خلق خدا غائبانہ کیا، ایک بجلی کے بلوں نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی خود گوالا منور اپنا بل اٹھا کر مجھے دکھانے لگا سرجی دیکھو تے سہی پندرہ دناںدا بل 20ہزار روپے پتہ نہیں شاید اس نے قسط کروائی تھی وہاں موجود لوگ حکومت کے خلاف جو زبان بول رہے تھے وہ لکھی تو کیا سنائی نہیں جا سکتی۔

میرا خیال ہے عمران خاں کو تو اب کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا لیکن اس نے بھی تو سیلاب زدگان کے لئے کچھ نہیں سوچا۔ ہمارے لکھنے لکھانے کے بعد پتہ چلا ہے کہ وہ آفت زدہ لوگوں کے ساتھ رجوع کرنا چاہتے ہیں ہماری بے حسی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ ہمارے میڈیا پر بھی سوائے شہباز گل کے کچھ نہیں تھا دونوں طرف سے پراپیگنڈا میڈیا کے شور شرابے میں کئی دن تک متاثرہ لوگوں کی چیخیں دبی رہیں آگے آئے تو وہی الخدمت اور جماعت اسلامی فلاح انسانیت والے۔ فوج کا تو میں تذکرہ اس لئے نہیں کر رہا کہ وہ تو ہر صورت میں ہمیشہ سب سے بڑا حوصلہ ہوتی ہے اب اچھا لگا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ تنظیمیں میدان میں آئی ہیں لبیک یارسول اللہ والے بھی جماعت اہل حدیث بھی، بہرحال جو بھی اس میں شامل ہے اپنی ہی عاقبت سنوار رہا ہے۔ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں ہماری مرغذار کالونی میں ہر دل عزیز صدر محمد شہزاد چیمہ نے اپنی کالونی کا کیمپ قائم کیا اور تمام مساجد میں اعلان کروایا کہ امداد میں حصہ ڈالیں ۔

واقعتاً اب یہ کام نچلی سطح پر کرنے والا ہے کہ اس حوالے سے اپنا اثر و سرخ استعمال کریں قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایدھی بہت یاد آئے کہ وہ تو فٹ پاتھ پر آ کر کپڑا بچھا دیتے تھے اس وقت لوگوں کو موٹی ویٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ اب آخر میں مجھے ایک تقریب کا تذکرہ بھی کرنا ہے کہ اس میں بھی یہی موضوع رہا شاعروں اور ادیبوں کا یہ اکٹھ پلاک میں تھا یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پلاک پنجابی لینگویج آرٹ اینڈ کلچر پنجابی کی ترویج و ترقی کے لئے بنایا گیا تھا جس کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف ہیں۔ پلاک خوبصورت عمارت پرویز الٰہی صاحب کا کارنامہ ہے جب وہ وزیر اعلیٰ تھے اور وہ اب بھی وزیر اعلیٰ ہیں مجھے تو وہ شاندار تقریب بھی یاد ہے جس اس کا افتتاح ہوا تھا بنیادی طور پر تو یہ ادارہ پنجابی زبان اور ثقافت کے فروغ کے لئے ہے مگر اچھی بات ہے کہ ڈاکٹر صغریٰ صدف اس حوالے سے متعصب ہرگز نہیں۔پلاک کے ہال میں کئی دوسرے پروگرامز بھی ہو جاتے ہیں اصل میں یہ ادارے لوگوں سے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے ہمیشہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس ادارے کو ہمیشہ فعال رکھا پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ادارے کی گرانٹ بڑھائے جو کہ اس وقت ناکافی ہے وہ جیسے تیسے ہال کرائے پر دے کر گزارہ کرتے ہیں اور فنکاروں میں کی کٹوتی کرتے ہیں.

آپ اندازہ لگائیں کہ رواں مہینے میں یعنی اگست میں ڈاکٹر صغریٰ صدف دو مشاعرے کروائے ہیں پہلے میں نذیر قیصر کی صدارت تھی اور غلام حسین ساجد مہمان خصوصی ۔دوسرا مشاعرہ کل رات تھا جس میں اس خاکسار کی صدارت تھی اور اومان سے آئے ہمارے دوست شکیل جاذب مہمان خصوصی تھے بڑے اچھے اچھے اشعار سنن کو ملے:

ہم تو قاتل سمجھتے ہیں ان کو

وہ جو شاخوں سے پھول توڑتے ہیں (نصیر احمد)

کوئی ملتا نہیں گریباں چاک

اس کا مطلب ہے قیس مر گیا ہے (شکیل جاذب)

خود کو آزاد کیا دل سے اتاری دنیا

منہ پہ دنیا کے بڑے زور سے ماری دنیا (محمد آصف انصاری)

تیرگی سے اس قدر جو روشنی کا فیض ہے

ہے اکیلا آدمی تو آدمی کا فیض ہے (افضل پارس)

خواہش ہے میں خرید لوں غالب کا خستہ گھر

اور معجزہ ہو صحت سے اردو نکل آئے (ڈاکٹر دانش)

Comments

Click here to post a comment