ہوم << سلاجقہ کا عروج اور طوفان سے پہلے کی خاموشی - فہد کیہر

سلاجقہ کا عروج اور طوفان سے پہلے کی خاموشی - فہد کیہر

سلجوق سلطنت، 1090ء میں اپنے عروج پر۔ ملک شاہ اوّل کے دور میں

الپ ارسلان اور اُس کے جانشیں ملک شاہ اوّل کا دور نظام الملک طُوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ ایک ایسا وزیر، جو کہنے کو وزیر لیکن در حقیقت اس سلطنت کا بے تاج بادشاہ تھا۔

اُس کا اصل نام ابو علی حسن بن علی طوسی تھا۔ طوسی کا مطلب ہے طوس کا رہنے والا، جو ایران کے شہر مشہد کے قریب واقع ہے۔ ابو علی حسن الپ ارسلان کے دور میں وزیر اعظم بنا اور نظام الملک کا خطاب پایا۔ پھر سن 1064ء سے 1092ء تک تقریباً 29 سال اس عہدے پر فائز رہا۔ الپ ارسلان کا جانشیں ملک شاہ کم عمری میں تخت پر بیٹھا تھا، اس لیے نظام الملک اپنے عروج پر پہنچ گیا بلکہ مملکت کے سیاہ و سفید کا مالک وہی تھا۔ اُس کی حیثیت وہی تھی جو عباسی سلطنت میں برمکی خاندان کی تھی یا مغل سلطنت میں خانِ خاناں بیرم خان کی، بلکہ اختیارات کے لحاظ سے نظام الملک وہ اُن سے بھی چار قدم آگے تھا۔

نظام الملک، ایک سیاسی، علمی و عملی شخصیت

دنیائے سیاست میں اہم مقام رکھنے کے علاوہ نظام الملک کی علمی حیثیت بھی نمایاں ہے۔ اُس کی معروف ترین کتاب "سیاست نامہ" تھی، جس میں اس نے حکومت کرنے کے اصول و ضوابط لکھے تھے۔ ایک بادشاہ کے فرائض کیا ہیں؟ پھر عوام کے حقوق و فرائض؟ شریعت کی پیروی کیسے کی جائے؟ عدل و انصاف کی فراہمی کے طریقے، تاجروں اور کاروباری اداروں کی نگرانی، دربار کے آداب، افواج کے نظم و نسق جیسے موضوعات کے علاوہ جاسوسی کی حوالے سے بھی پورا باب اِس کتاب کا حصہ ہے ۔ اُس نے وزیروں کے لیے ایک الگ کتاب "دستور الوزرا" بھی لکھی تھی۔

ایک کارنامہ، مدرسہ نظامیہ

خود علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے نظام الملک علم کی اہمیت بخوبی جانتا تھا۔ اس لیے بغداد میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کروایا جسے مدرسہ نظامیہ کہتے تھے۔ یہ دنیا میں اعلیٰ ترین تعلیم کا اوّلین باضابطہ ادارہ تھا، جس کی بعد میں کئی شاخیں بنیں۔ دارالحکومت اصفہان میں، پھر نیشاپور، بلخ اور ہرات میں بھی۔ یعنی یہ ایک عظیم الشان یونیورسٹی اور اس کے کئی کیمپس تھے۔ بغداد کا مدرسہ نظامیہ 60 ہزار دینار سے بنایا گیا لیکن اس کے سالانہ اخراجات چھ سے سات لاکھ دینار تھے۔ اتنے بھاری اخراجات کی وجہ یہ تھی کہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو وظائف دیے جاتے تھے یعنی وہ مکمل طور پر مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ تقریباً 300 سال تک اس مدرسے سے علم کی روشنی دنیا بھر میں پھیلتی رہی اور اس کا چرچا مشرق اور مغرب میں رہا۔

ملک شاہ اوّل نے نظام الملک کی مدد سے اصفہان میں علم و ادب کی خوب سرپرستی کی بلکہ وہ کسی بھی اس معاملے میں کسی بھی سلجوق سلطان سے زیادہ آگے تھے۔ 1079ء میں نیا شمسی کیلنڈر متعارف کروانے کے لیے بھی کام کیا۔ اصفہان میں ایک رصدگاہ بھی تعمیر کروائی اور عظیم ریاضی دان عمر خیام کو اُس کا سربراہ بنایا۔

جامع مسجد اصفہان، جس کا جنوبی گنبد نظام الملک سے منسوب ہے

نظام الملک کی شہادت

جعفر برمکی سے بیرم خان تک تاریخ کے کئی بڑے وزیروں کا انجام افسوس ناک ہوا۔ نظام الملک بھی تقریباً اسی سے دوچار ہوئے۔ اپنی وزارت کے آخری سالوں میں ملک شاہ اور نظام الملک کے تعلقات کافی کشیدہ ہو گئے تھے، خاص طور پر ولی عہد کی تقرری کے معاملے پر۔ نظام الملک برکیارُق کے حق میں تھا جبکہ ملک شاہ اپنی ملکہ کے کہنے کے مطابق محمد اوّل کے حق میں۔ کہتے ہیں کہ نظام الملک سے وزارت تک چھین لی گئی تھی، بس اُس کا کھلا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ملک شاہ واقعی کوئی "شاہانہ کار روائی " کر ڈالتا، اچانک ایک روز نظام الملک کا قتل ہو گیا۔ 14 اکتوبر 1092ء کو نظام الملک کو ایک فدائی حشاشین نے قتل کر دیا۔

حشاشین کون تھے؟

حسن بن صباح اور اس کے فدائی، جو اُس کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے

آپ نے انگریزی کا یہ لفظ ضرور سنا ہوگا Assassin، یعنی گھات لگا کر قتل کرنے والا۔ یہ لفظ عربی کے لفظ حشاشین سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے حشیش استعمال کرنے والا۔ اب یہ قاتل اور حشیش میں بھلا کیا نسبت ہوئی؟ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔

شیعہ اسلام کے دو بنیادی فرقے ہیں، ایک اثنائے عشری اور دوسرے اسماعیلی۔ انہیں امام اسماعیل بن جعفر کی نسبت سے اسماعیلی کہا جاتا ہے، جو امام جعفر صادق کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ مین اسٹریم شیعیت سے الگ راستہ اختیار کرنے والے ان اسماعیلیوں کی جدوجہد تب کامیاب ہوئی جب انہوں نے 909ء میں قاہرہ میں ایک علیحدہ ریاست قائم کر لی جو تاریخ میں فاطمی سلطنت کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن ملک شاہ اوّل کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے اسماعیلیوں کو بھی آپس میں تقسیم کر دیا۔

یہ گیارہویں صدی کے آخری سال تھے جب فاطمی سلطنت میں نزار بن مستنصر اور مستعلی بااللہ کی خلافت کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوا۔ جو اتنا بڑھا کہ اسماعیلی شیعہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ بالآخر نزار کے حامیوں نے شکست کھائی، اُس کے حامی تتر بتر ہو گئے۔ انہی میں سے ایک حسن بن صباح یا حسنِ صباح تھا، جو اپنے آبائی وطن ایران واپس آیا۔

حسنِ صباح نے 1091ء میں شمالی ایران میں ایک ایسی ریاست بنائی، جس کی دہشت کچھ ہی عرصے میں مشرق و مغرب تک پھیل گئی۔ آپ چاہیں تو اسے مسلح جدوجہدِ آزادی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن در حقیقت یہ ایک دہشت گرد ریاست تھی، جس نے دنیا کا پہلا خود کش حملہ آور گروہ تیار کیا۔ جی ہاں! حسنِ صباح کے پیروکار فدائی تھے۔ ایک زہریلا خنجر ہر وقت اُن کے پاس ہوتا۔ پھر جسے قتل کرنے کا ہدف دیا جاتا، اس کا خاتمہ کر کے دم لیتے اور پھر اسی خنجر سے اپنی جان بھی لے لیتے۔

شیخ الجبال اور اس کی جنّت

پہاڑی کی چوٹی جس پر قلعہ الموت کی باقیات موجود ہیں

حسن بن صباح کا گڑھ شمالی ایران کا ایک پہاڑی قلعہ 'الموت' تھا، جس کا مطلب ہے 'شاہین کا آشیانہ'۔ ایک ایسا ٹھکانہ، جسے نہ کبھی سلجوق زیر کر سکے اور نہ ہی اُن کے بعد خوارزم شاہی۔ یہاں تک کہ 1256ء میں منگول سالار ہلاکو خان نے اس قلعے کا خاتمہ کر دیا۔

کہا جاتا ہے کہ حسن بن صباح نے یہاں ایک مصنوعی جنّت بھی بنا رکھی تھی۔ اپنے پیروکاروں کو حشیش دے کر اور نشے کی حالت میں یہ جنّت دکھا کر اس میں داخل کرنے کا وعدہ کرتا۔ یوں ایسا فدائی گروہ تیار ہوا جو اپنی جان بھی دے سکتا تھا اور کسی کی جان بھی لے سکتا تھا۔

کیا واقعی قلعہ الموت میں ایسی کوئی جنّت تھی؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حسنِ صباح کی یہ تحریک خفیہ نوعیت کی تھی، جس کی وجہ سے اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں پھیلائی گئیں۔ بہرحال، عظیم سیاح مارکو پولو تک نے حسنِ صباح کی اس جنّت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں فدائیوں کو حشیش دے کر انہیں جنّت دکھائی جاتی تھی اور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے پر قائل کیا جاتا تھا۔

ایسی ہی پُر اسرار کہانیوں کی وجہ سے حسنِ صباح مغرب میں Old Man of the Mountain یعنی شیخ الجبال کہلایا۔ نہ صرف کتابیں کہانیاں لکھی گئیں بلکہ آج اِس جدید دور میں بھی کئی وڈیو گیمز میں اس کے حشاشین شامل ہیں۔ مثلاً Assassin’s Creed اور Stronghold Crusader میں۔

حشاشین کی ہائی پروفائل کار روائیاں

ایک فدائی نے 1272ء میں شاہِ انگلینڈ ایڈورڈ اوّل پر قاتلانہ حملہ کیا، لیکن کامیاب نہ ہو سکا

نظام الملک کا قتل حشاشین کا واحد 'ہائی پروفائل مرڈر' نہیں تھا۔ انہوں نے کئی بڑی اور اہم شخصیات کا خاتمہ کیا اور تاریخ کے بڑے نام اُن کے زہریلے خنجروں کی زد میں آئے۔ سلجوق سلطنت کے کئی اہم گورنر، فوج کے سالار، امیر سپاہ، کئی شہروں کے قاضی، مفتی اور شیخ الاسلام اُن کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ پھر یہ دائرہ مزید پھیلا، دو عباسی خلیفہ المسترشد باللہ اور الراشد باللہ تک حشاشین کے ہاتھوں قتل ہوئے اور پھر قاہرہ میں فاطمی خلیفہ الامر باحکام اللہ بھی۔

اس کے علاوہ حشاشین نے سلجوق سلطان احمد سنجر ، عظیم فاتح صلاح الدین ایوبی اور امام رازی پر قاتلانہ حملے کیے یا انہیں مارنے کی دھمکیاں دی۔ صلاح الدین ایوبی پر مئی 1175ء میں ایک فدائی کی جانب سے قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں وہ بچ گئے۔ لیکن شہاب الدین غوری خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ مارچ 1206ء میں وہ جہلم، پاکستان کے قریب ایک اسماعیلی فدائی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

پھر حشاشین کی کارروائیوں کا دائرہ صلیبیوں تک بھی پھیل گیا تھا جو 1099ء میں بیت المقدس کی فتح کے ساتھ خطے میں اپنے قدم جما چکے تھے۔ ان فدائیوں نے 1152ء میں طرابلس الشام کے کاؤنٹ ریمنڈ ثانی کو قتل کیا۔ پھر شاہِ یروشلم کونراڈ آف مونفریٹ بھی انہی کے ہاتھوں مارا گیا۔ دیدہ دلیری دیکھیں کہ منگول خاقان مونگو خان کو بھی قتل کی دھمکیاں دیں۔

ایسی تمام کار روائیوں میں قاتل اور اس کے ہدف کا پورا ریکارڈ قلعہ الموت میں رکھا جاتا تھا، جو بعد میں ملا اور کئی مصنفین نے اس فہرست کا ذکر کیا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج کسی بھی دہشت گردی کی کار روائی کے بعد فدائی کا وڈیو بیان جاری کیا جاتا ہے۔

طوفان سے پہلے کی خاموشی

سلجوق سلطنت، 1090ء میں۔ ملک شاہ اوّل کے دور میں

ملک شاہ اوّل کا دور مجموعی طور پر امن و سکون کا زمانہ تھا۔ تجارت اپنے عروج پر تھی، وسطِ ایشیا ترقی کی معراج پر تھا لیکن اس خاموشی کے پیچھے ایک طوفان چھپا تھا۔

اس کے اقتدار کے آخری سالوں میں شمال اور مشرق سے خانہ بدوش ترک قبائل کے حملے بڑھتے جا رہے تھے، سلطنت کے وسط میں شدت پسند اسماعیلی اپنے قدم گاڑ چکے تھے اور تمام ہنگاموں سے دُور کہیں مغرب میں یورپ کے مسیحی سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ جنگ ملازگرد کے بعد ابھرتے ہوئے ترک خطرے کا سامنا کیسے کریں؟ یہی وقت تھا کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جاتا لیکن ملک شاہ اوّل اور نظام الملک کے آخری سال جانشینی کے معاملات پر ایک دوسرے کی مخالفت میں لگ گئے۔

پھر 1092ء کا وہ سال آ گیا جس میں نظام الملک کا قتل ہوا اور ایک مہینے میں ہی ملک شاہ اوّل بھی انتقال کر گیا۔ پھر تاج و تخت حاصل کرنے کی وہ جنگ شروع ہو گئی، جس نے سلجوق سلطنت کے ٹکڑے کر دیے۔ ایک ایسے زمانے میں جب اتحاد کی سخت ضرور تھی، تب خانہ جنگی ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ شام، حجاز اور اناطولیہ مرکزی حکومت سے تقریباً آزاد ہو گئے۔ تب مشرق سے خانہ بدوش ترکوں کے قدم وسطِ ایشیا کی طرف بڑھے اور دوسری جانب صلیبی حملہ آور اناطولیہ اور شام کو روند کر سرزمینِ مقدس فلسطین پہنچ رہے تھے۔ صلیب و ہلال کا معرکہ شروع ہو چکا تھا۔

پہلی صلیبی جنگ کا لشکر سلاجقہ روم کے علاقے سے گزرا

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment