ہوم << مسلم تاریخ کی الم ناک ترین دہائی اور سلاجقہ کا خاتمہ - فہد کیہر

مسلم تاریخ کی الم ناک ترین دہائی اور سلاجقہ کا خاتمہ - فہد کیہر

قابل اجمیری کا شعر ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

تاریخ تصدیق کرتی ہے کہ کوئی واقعہ یکدم پیش نہیں آتا۔ اس کے پیچھے ایک طویل پسِ منظر ہوتا ہے جو اس کا سبب بنتا ہے۔ اگر ایسے "حادثے" کا سبب بننے والے واقعات پے در پے پیش آئیں، تو نہ صرف ایک حادثہ عظیم برپا ہوتا ہے۔

مسلم تاریخ میں جھانکیں تو 1090ء کی دہائی ایسی ہی تھی۔ سن 1091ء میں حسن بن صباح نے الموت کا قلعہ فتح کیا، پھر 1092ء میں نظام الملک کا قتل ہوا، چند ہفتوں بعد ملک شاہ اوّل کی پُر اسرار موت واقع ہوئی اور اِسی دہائی میں قاہرہ کی فاطمی سلطنت میں مستنصر باللہ کا 58 سالہ دور بھی اختتام کو پہنچا۔ پھر مشرق میں ملک شاہ اوّل کے جانشیں تاج و تخت کے لیے ایک دوسرے سے بھڑ گئے تو مغرب میں فاطمی سلطنت میں نزار اور مستعلی کی جنگ نے فاطمیوں کو سخت نقصان پہنچایا، بلکہ اسماعیلیوں کو ہی تقسیم کر دیا۔

خوابِ غفلت سے جاگتا یورپ

دوسری جانب عالم یہ تھا کہ یورپ خوابِ غفلت سے جاگ رہا تھا۔ 1071ء میں جنگِ ملازگرد کی شکست نے اُس کی آنکھیں کھول دی تھی۔ اسے صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر مسلمانوں کے قدم نہیں روکے تو یہ سیلاب یورپ تک پہنچ جائے گا۔ ابھی تو وہ مغرب میں ہسپانیہ سے مسلمانوں کے قدم نہیں اکھاڑ پائے تھے، اگر وہ مشرق سے بھی داخل ہو گئے تو مسیحی تہذیب خطرے میں پڑ جاتی۔

پھر 1095ء میں پاپائے روم نے وہ اعلان کیا، جس نے یورپ کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ صلیبی جنگ کا اعلان تھا، جس کے بعد لاکھوں صلیبی مسلم علاقوں پر پل پڑے اور اسی دہائی کے اختتام پر سن 1099ء میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے بعد بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ یہ کامیابی یورپ کے اتحاد کا مظہر تھی اور اس کی نشاۃ ثانیہ کا نقطہ آغاز بھی۔

تو مسلم تاریخ میں اس سے بد تر دہائی بھلا کون سی ہو سکتی ہے؟

صلیبی لشکر بیت المقدس کی فتح کے بعد، سن 1099ء

وسطِ ایشیا میں افراتفری

ان حالات میں وسطِ ایشیا، جس کے پاس تب پوری امتِ مسلمہ کی قیادت کا مادّہ اور صلاحیت موجود تھی، 13 سال ایسی خانہ جنگی میں گھرا رہا، جس کا حاصل حصول صرف تخت و تاج تھا۔ ملک شاہ اوّل کا انتقال صرف 37 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اس کا ایک بیٹا برکیارُق صرف 13 سال کا تھا، محمد 11 سال کا تھا اور محمود 4 سال کا۔ واحد بالغ شخص جو سلطان بننے کا دعویٰ کر سکتا تھا، الپ ارسلان کا بیٹا تتش تھا لیکن اسے اشرافیہ کی وہ حمایت حاصل نہیں تھی، جو ننھے شہزادوں کو بنیاد بناتے ہوئے خود طاقت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ تو ان حالات میں ایک دوسرے سے الجھ کر سلاجقہ نے وہ تمام توانائیاں ضائع کر دیں کہ جو دراصل کہیں اور لگنی چاہیے تھیں۔  جب 1097ء میں صلیبی لشکر مسلم سرزمین پر پہنچا تو سلاجقہ اعظم بجائے انہیں ٹکر دینے کے ایک دوسرے سے الجھنے میں مصروف تھے۔

محمود اوّل، برکیارُق، ملک شاہ ثانی اور محمد اوّل کے درمیان رسّا کشی بالآخر محمد اوّل کی سلطانی پر منتج ہوئی، جس نے اپنے بھائی احمد سنجر کو خراسان کا گورنر بنا دیا۔ یہاں سنجر کا پہلا کارنامہ تھا قہستان اور طبش کے علاقوں سے حشاشین کا خاتمہ کرنا اور اب اس کی نظر الموت کے قلعے پر تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ الموت پر حملے سے صرف ایک روز پہلے اسے اپنے بستر کے قریب ایک خنجر ملا، جس پر حسن صباح کا پیغام تھا کہ اُس کے راستے میں مت آنا، ورنہ تمہیں مارنا کوئی مسئلہ نہیں۔

حسنِ صباح، جس کا خنجر سنجر تک بھی پہنچا، لیکن صرف دھمکی کی حد تک

احمد سنجر، سلاجقہ اعظم کا آخری بادشاہ

احمد سنجر نے سن 1118ء میں باضابطہ طور پر سلاجقہ اعظم کا اقتدار سنبھالا اور ایک بڑا فیصلہ یہ کیا کہ دارالحکومت کو مرو منتقل کیا۔ ملک شاہ اوّل نے رے کے مقابلے میں اصفہان کو دارالحکومت بنایا تھا۔ بہرحال، سنجر کے فیصلے سے وسطِ ایشیا ایک مرتبہ پھر خطے میں طاقت کا مرکز بن گیا۔ سچ یہ ہے کہ اصفہان، ہمدان بلکہ قونیہ سے بھی زیادہ اگر سلجوق ریاست کا کوئی دارالحکومت ہو سکتا تھا تو وہ مرو ہی تھا۔ احمد سے قبل چار میں سے دو سلطان یہیں دفن تھے، پھر خطے کے نئے حالات دیکھتے ہوئے مرو ہی دارالحکومت کے لیے سب سے مناسب مقام تھا۔

ترکمنستان کے دارالحکومت عشق آباد میں نصب احمد سنجر کا ایک مجسمہ

احمد سنجر گو کہ ان پڑھ تھا لیکن علم و فن کا بڑا سرپرست تھا۔ اس کے دور میں کم از کم وسطِ ایشیا کو تو اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس ملی۔ اس نے  اگلے 20 سال کے دوران ہر اٹھتی ہوئی بغاوت کا خاتمہ  کیا اور شاید یہی خود اعتمادی تھی جس نے تقریبا 40 سالہ اقتدار کے بعد سنجر کو نقصان پہنچا۔

اسے سنجر کی بد قسمتی کہیں کہ مجموعی طور پر امّت مسلمہ کی، کہ اس دور میں نہ صرف کئی بیرونی طاقتیں بلکہ اندرونی قوتیں بھی اسلامی دنیا کو کاٹ رہی تھیں۔ مثلاً فرقہ پرستی پنجے گاڑ چکی تھی، سنّی شیعہ تقسیم بڑھتی جا رہی تھی، اس پر اسماعیلیوں کی غارت گریاں، پھر سلجوقوں کا حکومت کرنے کا خاص قبائلی انداز، سب مل کر مستقبل کی ایک بھیانک تصویر پیش کر رہے تھے۔

دو بڑے خطرات

تب سلجوقوں کو دو بڑے خطرات کا سامنا کرنا تھا۔ ایک مغرب سے اٹھنے والا صلیبی طوفان، جس نے خاص طور پر سلاجقہ روم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور پھر شمال سے قراخطائی اور اوغز ترکوں کا۔

اس کے باوجود سنجر وہ آخری سلجوق حکمران تھا جس نے وسطِ ایشیا پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ کوئی جنگ ایسی نہ تھی جس میں کامیابی حاصل نہ کی، یہاں تک کہ اپنی حد درجہ خود اعتمادی کا نقصان اٹھایا اور پے در پے شکستیں کھانے کے بعد نہ صرف اپنا اقتدار کھویا بلکہ سلاجقہ اعظم کا ہی خاتمہ ہو گیا۔ بالکل ویسے ہی  جیسے کبھی انہوں نے دوسرے خاندانوں کا اقتدار ختم کیا تھا۔ شمال سے ترک قبائل کی دخل اندازی بڑھتی جا رہی تھی، جس کا حتمی مرحلہ دو قسطوں میں سامنے آیا۔ پہلے منگولی زبان بولنے اور شامانی اور بدھ مذہب کے ماننے والے شمالی چین کے قراخطائی قبائل تھے۔

قراخطائی چین میں جن خاندان کے حملوں کے بعد اپنے علاقوں سے نکال دیے گئے تھے۔ یہ ہجرت کر کے سلجوق سرحد کی جانب منتقل ہوئے اور پھر یہاں قراخانیوں کے دارالحکومت بلاساغون پر قبضہ کر لیا۔ پھر ان کے قدم مزید آگے بڑھتے گئے اور 1137ء میں انہوں نے خُجند پر حملہ کر دیا۔ تب احمد سنجر نے اپنے حلیف قراخانیوں کی مدد کے لیے قدم آگے بڑھائے اور 1141ء میں سمرقند پہنچ گیا۔ اپنی خود اعتمادی کی بدولت اس نے صلح کی تمام پیشکشیں ٹھکرا دیں اور پھر 9 ستمبر 1141ء کو ایک ایسی جنگ ہوئی، جس نے ماورا النہر کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔

شکست در شکست

اس جنگ کو معرکہ قطوان کہتے ہیں۔ یہاں سلجوقوں کو بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور سنجر بمشکل اپنی جان بچا پایا۔ کئی اہم سالار اس جنگ میں یا تو شہید ہو گئے یا قیدی بنا لیے گئے بلکہ خود احمد سنجر کی واحد بیوی ترکان خاتون بھی گرفتار ہوئی۔ کہتے ہیں سلطان نے پانچ لاکھ دینار تاوان ادا کر کے اسے چھڑایا تھا۔

اس بد ترین شکست کے ساتھ ہی ماورا النہر سلاجقہ کے ہاتھوں سے نکل گیا  لیکن بد ترین حالات تو ابھی آنے تھے۔ غز یا اوغز قبائل کی بڑی تعداد چند نسلوں سے بلخ کے نواح میں آباد ہو رہی تھی، جنہوں نے احمد سنجر کے ساتھ معاہدہ بھی کر لیا تھا۔ کیونکہ سلجوق خود بھی اوغز تھے، اس لیے ان قبائل نے انہوں نے کئی جنگوں میں سنجر کا ساتھ بھی دیا لیکن 1153ء میں انہوں نے بغاوت کر دی۔ جس کے خاتمے کے لیے ایک جنگ لڑی گئی جس میں ایک مرتبہ پھر سنجر کو شکست ہو گئی، ایک فیصلہ کن شکست۔ بے یار و مددگار سلطان پکڑا گیا اور تین سال غزوں کی قید میں رہا۔ 1157ء میں اس قید سے کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر مرو پہنچا لیکن چند ہی مہینوں میں انتقال کر گیا۔

سلاجقہ، احمد سنجر کے بعد

منگولوں سے پہلے منگولوں کی جھلک

ان چند سالوں کے دوران اوغز ترکوں نے وسطِ ایشیا کے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ سمرقند بڑی حد تک بچ گیا لیکن  خطے نے منگولوں کی آمد سے قبل منگولوں کی جھلک ضرور دیکھ لی تھی۔

احمد سنجر کے بعد ایک بار پھر وسطِ ایشیا میں اقتدار کے حصول کے لیے کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ خوارزمی، غوری، قراخطائی اور غُز خراسان کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور بالآخر اس سلسلے کا اختتام خوارزم شاہی سلطنت کے قیام کی صورت میں نکلا۔

قراخطائی سپاہی

احمد سنجر کا مقبرہ

احمد سنجر  کو وفات کے بعد مرو میں دفنایا گیا، جہاں بعد میں ایک خوبصورت مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا، جسے آج دنیا کے اہم ترین ثقافتی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔  اس مزار کو 1221ء میں منگولوں نے تباہ کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ منگولوں نے مرو شہر کو برباد کرنے کے علاوہ اس مزار کو بھی آگ لگا دی تھی، جس سے یہ بُری طرح متاثر ہوا تھا اور اس کا بیرونی گنبد گر گیا تھا۔

سنجر کا مقبرہ جدید دور کی بحالی سے پہلے

سوویت دور میں اور پھر ترکمنستان اور ترکی کے ماہرین نے اسے کافی حد تک بحال کر دیا، لیکن ماضی کی عظمت واپس نہ آ سکی۔

احمد سنجر کا مقبرہ، بحالی کے بعد موجودہ حالت میں

اس مزار کی خاص بات تھی اس کے 27 میٹرز بلند گنبد   کے اوپر ایک بیرونی گنبد بھی تھا۔ دہرے گنبد کی وجہ سے یہ دنیا کی منفرد ترین عمارت تھی۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں۔

اس دہرے گنبد نے بعد میں نہ صرف ایل خانی، تیموری اور صفوی طرزِ تعمیر پر اثرات مرتب کیے، بلکہ مغرب میں بھی اس کی نقل بنائی گئی۔ مثلاً  1367ء میں فلورنس کے پادریوں نے شہر کے گرجے کے لیے ویسا ہی دہرا گنبد بنانے کا فیصلہ کیا، جو سلجوق بناتے تھے۔ پھر انیسویں صدی کے اوائل میں سینٹ پیٹرزبرگ کے سینٹ آئزکس گرجے پر بھی ایسا ہی دہرا گنبد بنایا گیا، بس فرق یہ تھا کہ یہ اینٹوں کے بجائے لوہے کا تھا۔

کہتے ہیں کہ امریکی ماہر تعمیرات تھامس والٹر نے 1866ء میں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپٹل کا نیا گنبد مکمل کیا، جو سینٹ پیٹرزبرگ کے اسی گرجے کو بنیاد بناتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا۔ یعنی مغرب کی تین معروف عمارات کا گنبد دراصل مقبرہ احمد سنجر کے اس گنبد سے متاثر ہو کر بنایا گیا، جس کا آج کوئی وجود ہی نہیں۔

امریکی کانگریس کے مرکز کیپٹل ہل کا دہرا گنبد

Comments

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment