ہوم << بھارت سے آیا ہوا غبارہ پھٹ گیا - سعد الله شاہ

بھارت سے آیا ہوا غبارہ پھٹ گیا - سعد الله شاہ

دینا کسی کو دل کی خبر رائیگاں گیا ہم نے عمل کیا تھا مگر رائیگاں گیا پہنچیں تو ہیں وہیں کہ چلے تھے جہاں سے ہم کہتا ہے کون اپنا سفر رائیگاں گیا کیا کریں ہر طرف رائیگانی ہی بکھری نظر آئی ،ا ے سعد کام کرنے میں اک خوف سا رہا جو کچھ کیا ہے ہم نے اگر رائیگاں گیا۔

کیا بتائیں رائیگانی سی رائیگانی ہے کون کاٹے پہاڑ راتوں کے کس کی آنکھوں میں اتنا پانی ہے۔ منیر نیازی نے بھی تو کہا تھا ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔پھر انہوں نے یہ بھی تو کہا تھا ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو۔ میں نے دیکھا ہمارے ساتھ یہی کچھ تو ہوا ہے محاورہ تو یہ ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ مگر ادھر تو آسمان سے آگ میں جاگرے ہیں۔ مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور حکومت مخالفین کی ہڈیاں توڑنے میں مصروف ہے۔ ان کی اپنی محترمہ کے پاس بھی سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ان کو اور ان کے والد محترم کو تو ایک روپیہ پٹرول کے مہنگے ہونے پر تیر لگتے تھے۔ دہائی خدا کی مہنگائی 42.3فیصد پر پہنچ گئی ہے۔

دکاندار بھی اس حوالے سے خاصے رواں ہو گئے ہیں کمپنیاں من مانی کر رہی ہیں کوئی قانون اور کوئی ضابطہ کسی پر بھی لاگو نہیں ہوتا۔ میں ہوائی بات نہیں کر رہا۔بریڈ جو 130روپے کی بھی 160روپے کی ہو گئی مختصر یہ کہ ہر شے کی قیمتیں انہی چند دنوں میں بیس تیس روپے بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان کی حکومتیں اپنے کام پر لگی ہوئی ہیں میں نے حکومتیں ہی لکھا ہے حکومت نہیں۔مرکزی حکومت کے ہاتھ شہباز گل آیا ہوا ہے اور ساری مشینری اس کے پیچھے ہے۔ ایک تماشہ لگا ہوا ہے پنجاب حکومت نے عطا تارڑ سمیت 12 رہنمائوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکال رکھے ہیں یہ سب انتقامی کارروائیاں اس وقت ہو رہی ہیں جب کہ ملک پر قبامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ سیلاب میں درجنوں لاشیں تیرتی پھر رہی ہیں۔

ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں یہ درست کہ 15لاکھ خاندانوں میں 25ہزار روپے فی کس تقسیم ہونے جا رہا ہے لیکن عوام کے لئے گرانی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ سوال تو کرتے ہیں کہ تین چار ماہ میں آخر کون سی قیامت آ گئی اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ گئیں ڈاکٹرز نے فیسیں تقریباً ڈبل کر دیں۔ اس بات کا جواب کون دے گا کہ بجلی کے بلوں میں بجلی کی قیمت سے کہیں زیادہ ٹیکس ہیں۔ ہمیں لوگ ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دس ہزار اوریجنل بل اور بارہ ہزار ٹیکس ۔آپ کے درمیان میں اتنے درباری خوش آمدی ہیں ۔ ہم تو پہلے ہی تیرے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی ایک تو ہمیں شیخ رشید سیریس نہیں ہونے دیتے ہم انہیں انشاء اللہ خاں انشا کا شعر سناتے ہیں کہ نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی۔تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔

وہ فرماتے ہیں شہباز شریف بے بس وزیر اعظم ہیں۔بندہ پوچھے کہ یہ کون سی خبر ہے یا راز ہے پاکستان کے بچے بچے کو علم ہے کہ وزیر اعظم ہمیشہ بے بس ہوتا ہے ایک جونیجو تھے جنہوں نے معاملات کو بس میں لانے کی کوشش کی تھی پھر ان کی جگہ نواز شریف نے لے لی اور پھر جب انہوں نے بس کی بات کی تو انہیں باہر جانا پڑا۔ انہیں شیخ رشید نے مروا دیا ڈائس پر ہاتھ مار مار کر دعوے کرتے رہے کہ عدم اعتماد نہیں ہو گا جبکہ ان کے علم میں تھا۔اصل میں وہ ڈرتے تھے کہ کہیں خان صاحب استعفیٰ دے کر انتخاب کی طرف نہ چلے جائیں پھر وہی ہوا: پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی اب عمران خاں صاحب شہباز گل کے لئے اسلام آباد میں ریلی نکال رہے مگر سب جانتے ہیں کہ ان کے ناخن تدبیر کٹ چکے ہیں پہلے دن ہی سے رانا ثناء اللہ نے پیش بندی کر کے کسی کا پیغام اپنی زبان میں دے دیا تھا۔

چلیے آپ کو تھوڑا سا سانس دلاتے ہیں ایک مزیدار خبر کی طرف چلتے ہیں کہ بھارت سے آنے والا غبارہ پاکستان میں آ کر پھٹ گیا۔اس میں سے ایک ڈیوائس بھی نکلی جسے بم ڈس پوزل والوں نے قبضہ میں لے لیا ویسے بھارت کے غبارے کی ہوا یہاں آ کر نکل ہی جانا تھی مگر وہ پھٹ گیا اس سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ ہمارا ایک کبوتر ان کے علاقے میں چلا گیا تو وہاں خطرے کے سائرن بج گئے تھے اور پھر اس کبوتر کو واچ کیا گیا۔ایک پوری ٹیم اسے پکڑنے کے جتن کرنے لگی۔ انہیں یقین کامل تھا کہ کبوتر جاسوسی کے لئے پاکستان نے بھیجا ہے کبوتر کی یہ خبر ان کی پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث آئی۔ان کا خیال تھا کہ اگر طوطا توپ چلا سکتا ہے تو کبوتر جاسوسی کیوں نہیں کر سکتا۔

ہمارے طفیل ہوشیار پوری صاحب نے تو بہت پہلے لکھا تھا چٹھی میرے ڈھول نو پہنچاوی وے کبوترا دیکھیں اس دیوار پہ اتریں کیسے جا کر خواب جب سے اس کو دیکھا میں نے ہوئے کبوتر خواب چلیے ایک اور مزیدار خبر کہ انقرہ میں ایک شیر خوار بچی نے سانپ کو دانتوں سے کاٹ کر مار ڈالا۔بس یہی لاعلمی اور معصومیت غنیمت ہے۔ یعنی ناسمجھی بھی اللہ کی نعمت ہے یہی اک خوف ہے سانپ کا جو دوسروں کی جان نکالے رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے تو کہتے ہیں کہ اگر کسی کو مینڈک کاٹ جائے اور اسے سانپ نظر آ جائے تو وہ نہیں بچ سکتا اور اگر اسے سچ مچ سانپ کاٹ جائے اور اسے مینڈک نظر آ جائے تو وہ بچ جائے گا۔یہ ساری نفسیات ہے اب کچھ چیزوں کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بچی ہی تھی کہ جس نے سانپ کو کاٹ کر رکھ دیا وگرنہ آپ کسی پہلوان کو کہیں کہ وہ سانپ پکڑ کر کاٹ کر دکھائے وہ تو ہاتھ بھی آگے نہیں بڑھائے گا۔ سانپ ہمارے بچے کھا جاتے ہیں اور ہم سانپوں کو دودھ پلانے والے لوگ۔

بات تو بھارت کے غبارے سے چلی تھی کہ جو پاکستان میں آ کر پھٹ گیا۔اس لئے بات کا اختتام بھی ایک غبارے والے شعر سے کرتے ہیں: حاصل عمر وہی طفل ہے اگر گریہ کناں ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے

Comments

Click here to post a comment