ہوم << ہاتھی کی لاعلمی- سعد الله شاہ

ہاتھی کی لاعلمی- سعد الله شاہ

اس سے پہلے تو کسی سے نہیں پوچھا تیرا اب ترے نام پر کیوں برپا ہے ہنگامہ سا آزمانا ہے جو خود کو تو اتر جا مجھ میں اس سمندر کا نہ اندازہ کناروں سے لگا ہاں مگر اپنی طرف خود بھی دیکھ لیں تو حقیقت منکشف ہو جاتی ہے سعدؔ لوگوں سے یہ نفرت نہیں اچھی تیری۔

تو کبھی غور تو کر ہے کوئی تجھ سے بھی برا۔کیا برا اور کیا بھلا! میں جانتا ہوں کہ دنیا برا ہی کہتی ہے مگر جب اس نے کہا ہے تو میں برا ہوں ناں! شعر فہمی آسان نہیں کہ کچھ باتیں ان کہی چھوڑ دی جاتی ہیں اور میں بھی کہنا چاہتا تھا کہ ایک ہی شخص پہ ہنگامہ کیوں ؟ اہمیت تو کسی کی نظر کرم یا نظر التفات سے بنتی ہے تجھ کو کچھ تو بنا دیا ہے ہم نے تھوڑا سا دھیان دے کر ۔ مخالفین اسے طوطا کہتے رہیں اور وہ طوطا کہ جس میں ایک کی نہیں کئی دوسروں کی جان ہے: ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا کس کس کا نام لیں۔

زرداری صاحب کی بھی زبان کٹی تھی اور وہ لاٹھی پکڑ کر جھک جھک کر چلنے لگے تھے۔پھر جب رہا ہوئے تو وہی ہشاش بشاش زرداری صاحب برآمد ہوئے خود شہباز شریف پر جب بھی قید و بند آئی تو انہوں نے بھی اپنی کمریا کو پکڑ لیا کہ یہ بار اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ایک شعر غالباً استاد قمر جلالوی کا کچھ اس طرح کا ہے: تیر و تلوار تم مت اٹھائو یونہی بے کار کرتے ہو زحمت جانتا ہوں میں تیری کلائی بار اٹھانے کے قابل نہیں ہے وہی کمر جسے شہباز شریف نے پکڑ رکھا تھا جب اقتدار ملا تو وہی کمر کس لی اور کام میں جت گئے گویا اس کمر کو صرف اقتدار ہی راس ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر محترم نواز شریف علاج کے لئے برطانیہ گئے یا انہیں بھیجا گیا کہ یہ معمہ ابھی تک حل نہ ہوا۔

بہرحال زیر عتاب آئے تو ان کے پلیٹ لیٹس گر گئے اور عمران خاں نے پہلی مرتبہ پلیٹ لیٹس کا سنا تھا(بقول ان کے) اور پھر جب وہ باہر جانے کے لئے ایئر پورٹ پر پہنچے یا جہاز ان تک پہنچا تو وہ سب کو چاق و چوبند نظر آئے بہرحال تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں میں تو کوئی اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ وہ گئے تو علاج کروانے تھے مگر مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں کہ وہ جلد واپس آ کر سب کا علاج کر دیں گے۔لگتا ہے وہ مریض بن کر گئے تھے اور ڈاکٹر بن کر واپس آ رہے ہیں۔اس کے پیچھے بھی ایک پیغام ہے کہ شاید کچھ میل ملاقاتیں لندن میں ہو چکی ہیں اب اس کا تو سچ مچ کسی کے پاس کچھ علاج نہیں۔ پہلے بھی تو ایسے ہی ہوا تھا کہ اچانک ملاقاتیں ہوئیں اور جنہیں سکیورٹی رسک بتایا جا رہا تھا خاص طور پر محترمہ بے نظیر کو تو وہ واپس آ گئیں اور ان کے لئے رسک بن گئیں جو بھی ہوا ، پھل زرداری کی گود میں آن گرا۔

پھر زرداری کا اپنا ایک انداز سیاست، وہ کہتے کہ ایوان صدارت میں وہ ایمبولینس میں ہی باہر جائیں گے بیماری کا تعلق اکثر سیاستدانوں کے ساتھ رہا اور ان کو لانے والے تو انہیں بیماری سمجھتے رہے ہیں اور ان کے علاج میں وہ اقتدار و اختیار اکسیر بتاتے اور ان کے سپرد کر دیتے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ مزاحیہ ہے یا سنجیدہ یہ تو وقت بتائے گا کہ کون کس کا علاج کرتا ہے۔ میرا موقف اصل میں یہ تھا کہ بتایا جائے کہ جب بھی کوئی سیاستدان جیل جاتا ہے کہ بیمار پڑ جاتا ہے کہ اسے ہسپتال کی سہولتیں دی جائیں اور یہ سہولتیں سندھ میں تو زیادہ دستیاب ہیں کہ وہاں ہر چیز مہیا کی جاتی ہے۔وہاں بوتل خود چیف جسٹس چھاپہ مار کر پکڑے لے تو اگلے ہی روز وہ شہد کی بوتل ثابت ہو جاتی ہے۔ تاہم خان صاحب نے اپنے دشمنوں کے لئے جیل کو مشکل بنا دیا تھا اسی لئے نواز شریف کا دل وہاں نہیں لگا۔

لیکن یہ معمہ کسی سے حل نہ ہو سکا کہ خان صاحب کے اپنے خاص ڈاکٹر نے نواز شریف کو گرین سگنل دیا اور وہ پرواز کر گئے ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں کہ اس حوالے سے عمران خاں سخت جان ہیں کہ وہ بیمار بھی نہیں ہوتے اور مسلسل چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ایک نہیں 9سیٹوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کی فرسٹریشن بہرحال یہ ہے کہ وہ گرفتار نہیں کیے جا رہے حکومت بھی اس میں دلچسپی نہیں رکھتی کہ حالات سنبھالنے مشکل ہو جائیں گے۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ بیمار تو ایک مرتبہ مولانا فضل الرحمن بھی ہوئے تھے تب انہوں نے زہریلا حلوہ کھا لیا تھا ان دنوں تو وہ تروتازہ ہیں ان کی بیماری تو اصل میں خان صاحب ہیں۔ سب کچھ الٹ پلٹ ہو کر رہ گیا ہے پہلے لوگ اندر کی بات نکال کر لاتے تھے اور اب بات باہر سے لائی جاتی ہے انداز سیاست بھی بدل چکا ہے وہ جو کہتا تھا مجھے کیوں نکالا اب اس کے بارے میں خان صاحب کو تشویش ہے کہ انہیں کیوں لایا جا رہا ہے شاید فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ والا معاملہ سنجیدہ ہو چکا ہے وہ ڈکٹیشن جو احتجاج کی دی گئی وہ گل کے معاملے میں کام نہیں کر سکی۔

آخر میں ایک دلچسپ خبر کا تذکرہ کہ ایک ہاتھی نے بچے کا چھوڑا ہوا جوتا سونڈ سے اٹھا کر واپس کر دیا یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی ہے یہ لاہور کے چڑیا گھر کا ہاتھی تھا انتہائی شریف النفس ہاتھی۔یہ ہاتھی اگر اسلام آباد یا پنڈی کا ہوتا تو جوتا واپس ملنا مشکل تھا ۔ ہاتھی ہے ہی پیارا جانور، ویسے بھی ہاتھی سب کا ساتھی مشہور ہے۔بس آپ اسے چھیڑیں مت ۔

کہتے ہیں ناں کہ ایک دن شیر کو شوق چٖڑآیا کہ سب سے اپنی عظمت کا لوہا منوائے۔وہ جس بھی جانور سے پوچھتا کہ میں کون ہوں؟ ہر کوئی کہتا کہ آپ جنگل کے بادشاہ۔اتنے میں شیر کو ایک مستایا ہوا ہاتھی نظر آیا اسے روک کر پوچھا میں کون ہوں ہاتھی نے شیر کو سونڈ میں اٹھا کر پٹخ دیا شیر پیٹھ جھاڑتے ہوئے اٹھا اور ہاتھی سے کہا جس بات کا علم نہ ہو تو کسی ساتھی سے پوچھ لیتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment