ہوم << نیا بیانیہ - عبداللہ طارق سہیل

نیا بیانیہ - عبداللہ طارق سہیل

گئے روز جب یہ سنا کہ عمران خان نے آزادی صحافت کے حق میں ایک سیمینار کیا ہے تو لوگوں نے سر کھجایا‘ آنکھیں ملیں اور کئی نے تو خود کو چٹکی بھی کاٹی۔ یہ انہونی کیسے ہو گئی؟ خان صاحب اور آزادی صحافت۔ لیکن خبر صحیح تھی۔ سیمینار ہوا اور اس میں تقریریں بھی ہوئیں۔

تعجب درست‘ لیکن معاملہ ناقابل یقین نہیں۔ ایسے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں اور اسی لئے تو ”انہونی ہو گئی“ کا محاورہ بھی بنا۔ اُمید کرنی چاہئے کہ مستقبل قریب میں ایسے ہی واقعات اور بھی ہونگے۔ کیا پتہ‘ کل کلاں کابل میں طالبان حقوق نسواں کے حق میں سیمینار کر ڈالیں یا کسی خلیجی ریاست سے خبر آجائے کہ ولی عہد نے شہری حقوق کی بحالی کا حکم دیدیا ہے۔ تاریخ ایسی انہونی ہونیوں سے بھری ہوئی ہے۔ خان صاحب اگر آزادی صحافت کے حامی ہو گئے ہیں تو یقین کر لینا چاہئے۔

البتہ ایک وضاحت خان صاحب کی طرف سے ضروری ہے کہ آزادی صحافت سے ان کی مراد کیا ہے۔ کیا وہ آزادی جو شمالی کوریا‘ چین‘ سعودی عرب‘ ایران وغیرہ میں ”نافذ“ ہے؟ اس لئے کہ وہ ماضی میں جب بھی ”آئیڈیل“ کی مثالیں دیا کرتے تھے تو انہی ممالک کے حوالے دیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر تو انہوں نے رہنمائی کیلئے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے بھی کہہ دیا کہ وہاں حکومت پر تنقید کی سخت سزا ہے‘ اسی لئے وہاں استحکام ہے۔

بظاہر لگتا ہے کہ خان صاحب محض اصولی طورپر ہی آزادی صحافت کے حامی نہیں ہوئے‘ انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ سیمینار کے موقع پر واپس جانے لگے تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ سر آپ کے دور میں نصرت جاوید اور طلعت حسین جیسے ناقد صحافیوں کو آپ نے نوکری سے نکلوا دیا تھا‘ کیا یہ بھی آزادی صحافت تھی تو خان صاحب قطعاً برہم نہیں ہوئے‘ جواب دیئے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یہ ایک خوشگوار تبدیلی تھی ورنہ ماضی میں ایسے گستاخانہ سوالوں کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب خان صاحب کے حامیوں کی طرف سے موقع پر ہی دیدیا جاتا تھا۔ کل ایسا نہیں ہوا۔ یعنی تبدیلی آ نہیں رہی‘ آگئی ہے۔

خان صاحب نے اس سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے ایک اور بات کا بھی انکشاف کیا۔ فرمایا کہ انہیں بلا کر بتایا گیا کہ نوازشریف اور ان کا خاندان کتنی کرپشن کرتا ہے اور ایسا ایک بار نہیں ہوا بلکہ 2008ءسے ہو رہا ہے۔ گویا لگ بھگ بارہ چودہ برس ایسا ہوتا رہا کہ بلایا‘ بلا کر بٹھایا‘ بٹھا کر بتایا کہ نوازشریف نے یہ کرپشن کی‘ وہ کرپشن کی‘ ایسے کرپشن کی‘ ویسی کرپشن کی۔ خان صاحب سچے آدمی ہیں اس لئے ان سے یہ سوال ہی نہیں کیا جا سکتا کہ سچ بتایئے خان صاحب کہ کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں یا ”ان“ پر محض الزام دہرا رہے ہیں جن سے آج کل آپ ناراض ہیں۔

حسن ظن کا تقاضا ہے کہ خان صاحب کی بات سچ مان لی جائے۔ اس صورت میں پھر وہ ”عقدہ“ بھی حل ہو جاتا ہے جو اب تک مسلسل حل طلب تھا۔ یہ کہ خان صاحب عرصہ دراز سے سیاسی مخالفوں پر کرپشن کے الزامات ہی لگاتے آرہے ہیں۔ ثبوت ایک کا بھی نہیں دیا حالانکہ ساڑھے تین سال اس بیچ انہوں نے مختار کامل کی حیثیت میں حکمرانی بھی کی۔‘ تمام ادارے ان کے ساتھ تھے‘ ان کے خلاف کوئی رٹ قبول نہیں ہوتی تھی۔ ان کے ہاتھ روکنے کیلئے کوئی ”سٹے“ بھی نہیں آتا تھا۔ نیب ہو یا ایف آئی اے‘ حرف انکار کا کوئی سوال ہی اٹھتا نہیں تھا‘ پھر کوئی ثبوت کیوں نہیں دیا۔

اس عقدے کی کشائی چنانچہ یوں ہوئی کہ بلانے والے انہیں بلاتے تھے‘ بلا کر بٹھاتے تھے‘ بٹھا کر بتاتے تھے کہ یہ کرپشن کی اور وہ کرپشن کی‘ لیکن ثبوت نہیں دیتے تھے۔ اب چونکہ ”وہ“ ثبوت نہیں دیتے تھے تو خان صاحب بھی ثبوت نہیں دیتے۔ وہ محض الزام خان صاحب کے حوالے کرتے تھے اور خان صاحب یہ امانت آگے عوام کو پہنچا دیتے تھے اور اس امانت کی کاپیاں ان کی پارٹی کے لیڈر‘ ان کے حامی اینکر پرسن‘ تجزیہ نگار بھی تقسیم کرتے تھے۔ دینے والے انہیں ثبوت دیتے تو خان صاحب ان کی بھی تقسیم کاری کر دیتے۔

چنانچہ عقدہ بھی حل ہوا اور ان کے مخالفوں کی زبان بھی بند ہو گئی جو یہ طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے کہ خان صاحب الزام تو لگا رہے ہو‘ ثبوت بھی تو دو۔ رہا یہ سوال کہ الزامات کا پلندہ خان صاحب کے حوالے کرنے کا عمل بارہ چودہ برس سے جاری ہے تو خان صاحب نے یہ ”راز“ اب تک چھپائے کیوں رکھا؟ اداروں کی کارگزاری اپنے سر کیوں لیتے رہے‘ بدلے میں مخالفوں کے طعنے کیوں سنتے رہے کہ خان صاحب بے ثبوت کی‘ بے بنیاد کی بات کرتے ہیں۔

جواب پورے یقین سے تو نہیں دیا جا سکتا۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”وہ“ نیوٹرل ہوئے تو خان صاحب کو بھی پھر مجبوراً نیوٹرل ہونا پڑا۔ یا یہ کہ ”انہوں“ نے ”جیسا“ کیا تو خان صاحب کو بھی جواب میں ”تیسا“ کرنا پڑا۔ خان صاحب نے اس تقریب میں اپنے نئے بیانیے کی رونمائی بھی کی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تقریب دراصل اسی بیانیے کی رونمائی کیلئے کی گئی تھی‘ آزادی صحافت کا عنوان تو اضافی آرائش تھی۔

نیا بیانیہ یہ تھا کہ نیوٹرل بھائیو‘ اب بھی وقت ہے کہ اپنا طرزعمل بدل ڈالو۔

ترجمہ اس فقرے کا سادہ زبان میں کچھ یوں ہے کہ اب بھی کہ مجھے پھر سے کرسی پر واپس بٹھا دو۔ ظاہر ہے یہ ”الٹی میٹم“ نہیں ہے کیونکہ بیانیہ اسی فقرے پر ختم ہو جاتا ہے‘ آگے ورنہ کا کوئی لفظ نہیں ہے‘ لیکن بہرحال‘ ورنہ کا لفظ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یار لوگ اس پر التجا یا فریاد کی پھبتی کس ڈالیں۔ التجا یا فریاد کا متبادل یا مترادف منت کرنا ہے‘ لیکن واضح رہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ محض نیا بیانیہ ہے اور ضرورت اس نئے بیانیے کی یوں پیش آئی کہ پرانے بیانیوں کی کھپت ختم ہو گئی۔

جو سودا بکنا بند ہو جائے‘ اچھا تاجر اس کی جگہ نیا سودا لاتا ہے۔ یہی سمجھداری ہے اور خان صاحب جیسا سمجھدار پوری 75 سالہ تاریخ میں کوئی اور نہیں آیا۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے ”انکشاف“ کیا ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک میں عمران خان چوتھے روز ہی رو پڑے تھے۔ ان کی دی گئی معلومات درست نہیں ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق یہ ”تاریخی واقعہ“ پانچویں روز پیش آیا تھا‘ چوتھے روز نہیں۔

Comments

Click here to post a comment