جناب عمران خان کے چیف آف اسٹاف، شہباز گل، نے مبینہ طور پر جو کچھ کہا، اِس کا نتیجہ وہ بھگت رہے ہیں۔ ہم سب یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ اور سُن رہے ہیں کہ ابتدائی طور پر عمران خان کے چند سینئر ساتھیوں اور سینیٹروں نے شہباز گل کے متنازع بیان سے خود کو دُور کرنا شروع کیا۔
مطلب یہ تھا کہ شہباز گل نے جو کچھ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا ہے۔ اِس سے پارٹی کا تعلق کم کم ہے۔ اِس رویے نے یقیناً پسِ دیوارِ زنداں پڑے شہباز گل کو پژ مردہ اور افسردہ کیا ہوگا۔ اور اب خان صاحب نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے کہ شہباز گل نے (عسکری ادارے کے بارے میں) جو کچھ کہا ہے ، مناسب نہیں تھا، انھیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ گویا خان صاحب نے بھی خود کو شہباز گل کے موقف سے ہم آہنگ کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ اگر ہم آہنگ کرتے ہیں تو اِس میں خسارہ اور نقصان واضح ہو رہا ہے ۔ یوں خان صاحب کے مخالفین اور ناقدین کو یہ کہنے کا ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ عمران خان مفادات سمیٹنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو یکا و تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
ایسے میں عمران خان اور اُن کے عشاق کے حوالے سے سعودی عرب سے آنے والی ایک خبر پاکستان کے کئی خاندانوں پر برقِ آسمانی کی طرح گری ہے۔اِس خبر میں جناب عمران خان کی شخصیت ، نعروںاور اُن کی طرف سے پی ٹی آئی کارکنان کو دی گئی تربیت ’’نیوکلیس‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سزا مگر اب پی ٹی آئی کے ان بد قسمت عشاق کو بھگتنی ہے۔عمران خان کو تو اس سزا کا ہلکا سا گرم جھونکا بھی محسوس نہیں ہوگا۔ سیاسی لیڈرز اِسی طرح عذابوں اور عقوبتوں سے محفوظ و مامون رہتے ہیں۔ بیچارے سیاسی کارکنان مگر جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر مارے جاتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ غریب اور جذباتی سیاسی کارکنوں کو سیاسی لیڈرز ، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ، بطورِ ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ مفادات اور مقاصد سمیٹنے کے بعد ان کارکنوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپرز کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے ۔سعودی عرب سے آمدہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ 6پاکستانیوں کو ایک سعودی عدالت نے کئی برسوں پر مشتمل قیدِ بامشقت اور ہزاروں ریال جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔ اب ان بدقسمت پاکستانیوں کو سعودی جیلوں میں برسوں تک معذب زندگیاں گزارنا پڑیں گی۔ گھر والوں سے مسلسل دُوری کا الگ نفسیاتی عذاب جھیلنا پڑے گا۔ یہ پاکستانی محنت مزدوری کی غرض سے اپنا وطن چھوڑ کر سعودی عرب گئے تھے ۔ اب محنت مزدوری کا ذریعہ بھی ختم۔پیچھے گھر والے بھی مالی تنگدستیوں کا شکار بنے رہیں گے۔ کس کام سے گئے تھے اور جذباتی غلطی سے کس انجام سے دو چار ہُوئے ہیں ۔
سعودی عرب میں سزا یافتہ ان غریب پاکستانیوں کا جرم یہ ہے کہ جب رواں برس ،ماہِ اپریل میں ، عمران خان کی حکومت ختم ہوتے ہی ، وزیر اعظم شہباز شریف اپنے چند وزرا کے ساتھ مدینہ شریف حاضر ہُوئے تو مقدس و محترم مسجدِ نبویﷺ میں کچھ پاکستانیوں نے شہباز شریف اور اُن کے وزرا کے خلاف ’’چور چور‘‘ کے غیر اخلاقی نعرے لگائے ۔ ایک وفاقی وزیر کے لمبے بال بھی کھینچے گئے ۔ مسجدِ نبویؐ کے لیے زیارت اور وہاں عبادت کے لیے گئے اِس وفد میں ایک خاتون وزیر بھی تھیں۔پاکستانی نعرہ بازوں نے ایک جماعت کے دیے گئے سیاسی جذبات سے مغلوب ہو کر ان کا احترام بھی نہ کیا۔ یہ ناقابلِ رشک مناظر اب بھی یو ٹیوب پر پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ۔مسجدِ نبویؐ کا احترام و اکرام ساری دُنیا کے مسلمان تہِ دل سے کرتے ہیں۔ یہ احترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ بھی ہے۔ مسجدِ نبویؐ میں تو بلند آواز سے بولنا بھی جائز نہیں سمجھا جاتا ۔
ایسے پاک و مقدس ، حساس اور بلند درجہ مقام پر زیارت اور عبادت کے لیے آئے پاکستانی وفد پر بعض سیاسی پاکستانیوں کی طرف سے آوازیں کسنا کیونکر قابلِ برداشت ہو سکتا تھا؟ اس سانحہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے سعودی ادارے ایکشن میں آئے اور مذکورہ حرکات کے ذمے دار پاکستانیوں کو دھر لیا گیا ۔ ان پر مقدمہ چلا اور اب ان میں سے تین پاکستا نیوں (انس، ارشاد ، محمد سلیم) کو دس دس اور تین(خواجہ لقمان،محمد افضال ،غلام محمد) کو آٹھ آٹھ سال کی سزا با مشقت سنا دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہر مجرم کو بیس ، بیس ہزار سعودی ریال (تقریباً12لاکھ روپے) کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ(سزا یافتہ) لوگ تو گھر سے مزدوری کرنے نکلے تھے۔ یہ غریب دیہاڑی دار جرمانے کی یہ بھاری رقوم کہاں سے لائیں گے؟ سیاسی مخالفین کے خلاف ’’چور چور‘‘ کا جو آموختہ جناب عمران خان نے اپنے عشاق اور پیروکاروں کو پڑھایا تھا، اس کا عذاب مذکورہ سزا یافتہ پاکستانیوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔
اب یہ سزا یافتہ پاکستانی سعودی جیلوں میں سڑتے ہُوئے نجات کے لیے عمران خان صاحب کو دن رات پکاررہے ہیں۔ خان صاحب مگر یہ پکاریں اور التجائیں کہاں سنتے ہیں؟ وہ تو اپنی نئی پسوڑھیوں میں بُری طرح اُلجھے ہُوئے ہیں۔ اصولی اور اخلاقی طور پر خان صاحب پر مگر یہ بنیادی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سعودی جیلوں میں قید مذکورہ پاکستانیوں کی مدد امداد کریں۔ انھیں جلد از جلد قید سے باہر نکال لائیں ۔ ان کارکنان یا ہمدردوں نے اپنے کرشماتی لیڈر، عمران خان صاحب، کے تتبع میں سعودی عرب آئے پاکستانی اعلیٰ سطح وفد کے خلاف ’’چور چور‘‘ کے نعرے بلند آواز سے لگائے تھے ؛ چنانچہ سزا یافتہ پاکستانیوں کی دستگیری کرنا پی ٹی آئی ہی کی ذمے داری بنتی ہے ۔لیکن لگتا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین ان سزا یافتہ پاکستانیوں کی دستگیری کے لیے کوئی عملی قدم اُٹھائیں گے ۔ خان صاحب نے ان سزا یافتہ پاکستانیوں کے لیے ہمدردی میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ہے ۔خان صاحب کا یہ عمل پی ٹی آئی کے جملہ وابستگان پر بھی روشن ہو جانا چاہیے ۔
جناب عمران خان بلا شبہ وطنِ عزیز کے مقبول لیڈروں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے مگر بد قسمتی سے ملک میں جن سیاسی نعروں ، مخالفانہ اسلوب اورزبان کو رواج دیا اور متعارف کرایا ہے ، اس کے بھیانک نتائج ابھی مزید نکلنے ہیں۔ عمران خان کے متعارف کرائے گئے ان نعروں سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
اِسے شومئی قسمت ہی سے معنون کیا جائے گا کہ اب ردِ عمل کے طور پر خان صاحب کے مخالف دھڑے بھی وہی ناقابلِ قبول زبان بروئے کار لانے لگے ہیں جو خان صاحب استعمال کرتے رہے ہیں اور یہی زبان استعمال کرنے پر اب بھی وہ مُصر ہیں۔ہمیں نہیں معلوم خان صاحب کا رواج دیا گیا یہ لہجہ ہمیں مزید کہاں لے جائے گا؟ واقعہ مگر یہ ہے کہ یہ لہجہ فتنہ و فساد، انارکی اور دشمنیوں کی طرف سب کو دھکیل رہا ہے۔
اور خان صاحب ہیں کہ اِسی لہجے اور زبان کو اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی گردانتے اور سمجھتے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب عمران خان نے لاہور میں جو عظیم الشان جلسہ کیا، اس میں بھی اپنے مخالفین کے لیے ایک بار پھروہ ایسی ہی ’’لسانیت‘‘ بروئے کار لائے۔یہ زبان ناقابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی !
تبصرہ لکھیے